علمائے لسانیات اور عمرانیات کے
مطابق سرائیکی زبان دنیا کی قدیم ترین زبان ہے ۔ جو سنسکرت سے بھی زیادہ
پرانی ہے ، جسے زبانوں کی ماں کا درجہ حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ نئی تحقیقات
سے بھی یہ ثابت ہوا ہے کہ موہن جو دڑو کی قدیم زبان بھی سرائیکی ہی رہی
جبکہ زمانہ حال میں بھی موہن جو دڑو کے ارد گرد سرائیکی زبان بولی اور
سمجھی جاتی ہے ۔
زمانہ قدیم میں کشمیر سے کشمور تک اور جالندھر سے کوہ سلیمان تک عوام کی
زبان سرائیکی ہی تھی جبکہ موجودہ دور میں آدھے سے زیادہ صوبہ پنجاب ، ایک
چوتھائی صوبہ خیبر پختون خواہ، صوبہ بلوچستان کے سات، آٹھ شمالی مشرقی
اضلاع اور قریباً نصف سندھ کے لوگوں کی زبان سرائیکی ہے۔
سرائیکی زبان اپنے اندر پائی جانے والی فصاحت اور بلاغت کے علاوہ اپنے
مخصوص حروف ابجد کی بناء پر دنیا کی شاید مکمل ترین زبانوں میں سے ایک ہے ۔
اس زبان کی واحد انفرادیت کہ تلفظ کے معاملے میں سرائیکی بولنے والے دنیا
کی ہر زبان کو اس کے اصل تلفظ کے ساتھ ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جبکہ
غیر سرائیکی سوائے سندھیوں کے سرائیکی کے متعدد الفاظ اصل تلفظ کے ساتھ ادا
نہیں کرسکتے۔
مزید سرائیکی زبان کو یہ اعزاز بھی حاسل ہے کہ یہ پشتو ، بلوچی، اور سندھی
لوگوں کی جڑواں زبان ہے ، یہ تمام لوگ اپنی مادری زبانوں کی طرح سرائیکی
زبان پر بھی سرائیکیوں کی طرح مکمل عبور رکھتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح ان کی
مادری زبان ہے۔
بے شمار خصوصیات اور کثیر تعداد میں سرائیکی بولنے والے آج تک اپنی شناخت
اور حقوق سے یکسر محروم ہیں، نصف صدی سے جاری نظریاتی اساس پر قائم تحریک
ابھی تک اپنی منزل مقصود سے کوسوں دور ہے ۔ بنیادی وجہ ہمیشہ سے قیادت کا
فقدان رہا ہے ۔
جنرل یحیٰ خان کے دور اقتدار میں جب ون یونٹ کے خلاف سندھ ، سرحد اور
بلوچستان کے قوم پرستوں نے متحد ہوکر جدوجہد کا آغاز کیا تو سرائیکی بھی اس
سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ، چنانچہ سرائیکی دانشوروں ، شاعروں ، اور
ادیبوں نے بھی محسوساتی انداز میں اپنی علیحدہ شناخت کے لئے نظریاتی اساس
پر قائم تحریک کا آغاز کردیا جس کو عوام میں بھرپور پذیرائی نصیب ہوئی۔
جب 1970ء میں جنرل یحیٰ خان کی حکومت نے ریزڈنسی بشمول سابق ریاست قلات ،
اور سابق ریاست لسبیلہ پر مشتمل صوبہ بلوچستان کے باقاعدہ قیام کا اعلان
کیا تو اس کے رد عمل میں ریاست بہاولپور کے عوام میں بھی پنجاب سے علیحدگی
کے جذبات نے دانشوروں ، شاعروں ، اور ادیبوں کی قائم تحریک کو ایک نئی
مہمیز عطا کی جس کے نتیجے میں سال 1970 کے عام قومی انتخابات میں بحالی
صوبہ محاذ بہاولپور نے ریاستی عوام کی بھرپور تائید سے ضلع رحیم یار خان ،
بہاول نگر اور بہاولپور میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔
یہ کامیابی سرائیکی تحریک کی جدوجہد میں عوام کی بھرپور شمولیت کا ایک نقطہ
آغاز تھا لیکن بدقسمتی سے صوبہ بہاولپور کی بحالی کے نام پر منتخب ہونے
والے ممبران اسمبلی نے جب ایوانوں میں پہنچ کر اپنے عوام سے بے وفائی کا
آغاز کیا تو اسی دن سے ہی تمام قیادت اپنی موت آپ مرگئی جس کا آج تک ازالہ
نہ ہوسکا۔
ڈینہہ گذردئے روز ارمان اِچ
جیونڑ اوکھے ایں جہاں اِچ
ہر شئے دا ڈیندوں ٹیکس ریاض
کرائے تے راہندوں پاکستان اِچ
ریاست بہاولپور کے عوام کی بھرپور تحریک کا احیاء سرائیکی شناخت اور
جغرافیائی حدود میں اضافے کا موجب بنا جس کے سبب سرائیکی وسیب آج ٹانک ،
ڈیرہ اسماعیل خان، اور بھکر سے ہوتا ہوا صادق آباد اور رحیم یار خان تک
پھیل کر '' ادہ راوا ، روہی ، تھل اور دامان '' کی ایک مضبوط شکل اختیار کر
چکا ہے۔
1970 سے عملی طور پر شروع ہونے والی اس تحریک کو اگر کسی نے زندہ رکھا ہے
تو وہ شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں کی نظریاتی اساس پر قائم وہ جدوجہد ہے
جو آج بھی ماضی کی طرح تازہ دم اور توانا ہے ۔
سرائیکی پٹی سیاسی لحاظ سے ایک زرخیز علاقہ ہے جس نے ہر دور میں قد آور
سیاسی راہنما پیدا کیے جو ہر حکومت میں اعلیٰ ایوانوں تک پہنچے مگر بدقسمتی
سے تمام کے تمام راہنما اپنی اپنی دھرتی سے انصاف نہ کرسکے اور ہر موقع پر
سرائیکی عوام کو مایوس کیا۔
اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو سرائیکی عوام پر اگر کسی تو سرائیکی
عوام پر اگر کسی کا احسان ہے تو وہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو تھے ، آپ کو
یاد ہوگا آمر جنرل ضیاء الحق کے قائم کردہ نواب محمد احمد خان قصوری کے
مقدمہ قتل کی سزا کے خلاف بھٹو نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی سماعت
کے دوران اپنی بے گناہی پیش کرتے جب وہ آبدیدہ ہوگئے تو اپنے بیان کے آخر
میں اپنی اس خواہش کا معزز عدلیہ سے اظہار کیا کہ '' مجھے سرائیکی زبان سے
پیار ہے اور میں اپنا اختتامی مُدعا سرائیکی زبان میں پیش کرنا چاہتا ہوں
'' معزز عدلیہ کی اجازت کے بعد یوں گویا ہوئے ۔
درداں دی ماری جندڑی علیل اے
سنڑدا نئیں سوہنڑاں ڈکھاں دی اپیل اے
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو خاندان کو واقعی سرائیکی سے پیار تھا جس کا
عملی اظہار پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے دوران ہوا یہ بھٹو خاندان کی
حکومتیں ہی تھیں کہ جن کے دور میں سرائیکی زبان کی شناخت کے لئے پاکستان
ٹیلی ویژن پر سرائیکی پروگراموں کا اضافہ ہوا، اس کے ساتھ ساتھ بہاولپور
اور ملتان میں ریڈیو اسٹیشن کا قیام بھی بھٹو خاندان کا تحفہ ہے ، نیز
پاکستان پیپلز پارٹی کا قومی شناختی کارڈ کے زبان کے کالم میں سرائیکی زبان
کا ایک علیحدہ خانہ قائم کرنا، پنجاب زبان بولنے والوں کو زہر لگا، جو
سرائیکی کو پنجابی کی ذیلی زبان کہتے نہ تھکتے تھے۔ آج الحمدللہ سرائیکی
زبان مقامی زبانوں میں ایک اعلیٰ اور منفرد نام رکھتی ہے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد قائم ہونے والی بے نظیر بھٹو کی دونوں
حکومتوں نے محسوساتی انداز میں سرائیکی عوام کی نمائندگی جاری رکھی، اور
سرائیکی عوام نے بھی 1988، 1993 اور 2008 کے انتخابات میں اس جماعت کو
بھرپور مینڈیٹ سے نوازا۔ 1970ء والی صوبہ بہاولپور کی بحالی کی تحریک کو جو
جھٹکا اُس وقت کے منتخب ممبران اسمبلی نے دیا تھا وہی جھٹکا سرائیکی صوبہ
کی تحریک کو زرداری حکومت کے آخری دنوں میں لگا یہ سرائیکی تحریک کو لگنے
والا دوسرا زبرست زخم تھا، جس سے سرائیکی تحریک نصف صدی پیچھے کی جانب
دھکیل دی گئی ، زرداری حکومت نے اپنی مدت کے آخری ایام میں سرائیکی صوبہ کے
قیام کے لئے نیم دلی سے بے وقت اور غیر سیاسی فیصلے کیے جس کے رد عمل میں
پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنی سیاسی بقاء کی خاطر صوبہ پنجاب کی تقسیم کو
نہایت ہی منظم اور بھرپور انداز سے ناممکن بنادیا۔
اس ناممکن کا پہلا ٹاسک صوبہ بہاولپور کی بحالی کے دعویدار محمد علی درانی
کے ذمہ تھا، جو سرائیکیوں کو گمراہ کرنے کے ساتھ ساتھ تقسیم کرنے میں بھی
کامیاب ہوا۔ جس کے نتیجے میں آج محمد علی درانی اپنے مکروہ عزائم کی
کامیابی کے بعد گوشہ گمنامی میں ہے، رہی سہی کسر پاکستان مسلم لیگ ن کے
خادم اعلیٰ پنجاب نے پوری کردی جس نے پنجاب اسمبلی سے صوبہ بہاولپور اور
جنوبی پنجاب کی قرار دادیں پاس کرواکر سرائیکی صوبہ کے قیام کے آگے ایک
مضبوط بند باندھ دیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سرائیکی صوبہ کے قیام بارے غیر سنجیدہ اور غیر
سیاسی فیصلوں کی بدولت سرائیکی پٹی کے عوام نے مایوس اور دل برداشتہ ہوکر
خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں پوری سرائیکی پٹی
کے ووٹ پکے ہوئے پھل کی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کی جھولی میں آگرے سرائیکی
عوام سے نہ تو زرداری حکومت نے وفا کی اور نہ ہی سرائیکی وزیراعظم یوسف رضا
گیلانی نے سرائیکی ازم پوری نصف صدی کی مسافت کے بعد آج پھر اُسی مقام پر
ہے جہاں سے اس نے اپنی شناخت کا آغاز کیا تھا کل بھی تخت لاہور کی دہلیز کا
سجدہ لازم تھا اور آج بھی تخت لاہور کا سجدہ واجب ہے۔
اوکھے ویلے توڑ نبھاون والے لوک
کتھاں ٹرگئے بھار ونڈاون والے لوک
اُچے اچے طُرے بنھ کے ٹُردے ہَن
اپنا قد خود آپ گھٹاون والے لوک
اپنا خیال رکھیے گا اللہ تعالیٰ آپ کو اور ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں
رکھے ( آمین) |