کتنے ظالم ہیں کہ مظلوم نظر آتے ہیں

آج کل میڈیا نے عام لوگوں کو اتنا باشعور بنادیا ہے کہ جو کچھ ان کے سامنے نظر آتا ہے یا پیش کیا جاتا ہے ،وہ اس واقع کے دائیں بائیں آگے پیچھے جو کچھ ہورہا ہوتاہے یا جو ہونے والا ہوتا ہے اسے بھی سمجھ لیتے ہیں ۔پچھلے دنوں کراچی میں فوج ،پولیس اور رینجرز کے اداروں سے یکجہتی کے لیے ایک جلسہ منعقد کیا گیا ۔میں نے اپنے ایک دکاندار دوست سے پو چھا کہ یار یہ جو فوج ،پولیس اور رینجرز سے یکجہتی کے حوالے جو جلسہ ہورہاہے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہنے لگے بس بھائی خاموش رہو آج کل کچھ بولنے اور کہنے سننے کا زمانہ نہیں ہے ،بس صرف سمجھنے کا زمانہ ہے ،دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کرو میں نے کہا پھر بھی اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ میں جو کچھ سمجھ رہا ہوں آیا اور بھی لوگ ایسا سمجھ رہے ہیں یا کوئی نیا نکتہ سامنے آجائے اس لیے آپ نے جو سمجھا ہے وہی بتا دیں کہنے لگے وہ ایک دیہاتی کا مشہور قصہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ وہ ایک میلہ مے میں گیا تو وہاں اس کی چادر چوری ہو گئے اس واپس آکر گاؤں والوں سے کہا کے یہ میلہ سجایا ہی اس لیے گیا تھا کہ میری چادر چوری کی جائے اس لیے ہو سکتا ہے یہ میلہ اس لیے سجایا گیا ہو کہ کسی(برطانوی شہری) کی چادر بچالی جائے ،میں نے کہا شاید ایسی بات نہیں ہے چونکہ ایک تنظیم کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں ان کے عام کارکن بھی خوف کا شکار ہیں کہ کہیں وہ بے قصور نہ پکڑے جائیں ،اس لیے یہ جلسہ ایک پیغام بھی ہو سکتا ہے اور شاید دھمکی بھی ۔پیغام یہ کہ ہاتھ ذرا ہلکا رکھا جائے اور دھمکی یہ کہ ہمارے پاس اب بھی نوجوانوں کی اتنی بڑی فورس موجود ہے۔خیر ان دو مختلف آراء سے ہٹ کر میری توجہ تو اس نعرے کی طرف ہے جو جلسہ میں لگائے گئے کہ "جو طالبان کا یار ہے وہ غدار ہے غدار ہے"اسی طرح دوسرا موضوع سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات کا وہ بیان ہے جو انھوں نے سندھ اسمبلی میں دیا ہے کہ طالبان کی حمایت کرنے والی ہر تنظیم پر پابندی لگنی چاہیے ۔پہلی بات یعنی نعرے کا جہاں تک تعلق ہے تو ہم یہ سمجھ پائے ہیں کہ اب منظرنامہ تبدیل ہونے جارہا ہے کہ جو کل کے دشمن تھے وہ آج کے دوست بننے جارہے ہیں ،کیا امریکا اور طالبان کی دوستی یاری قائم ہونے نہیں جارہی ہے ۔وہی امریکا جس نے افغانوں کی شادی بیاہ کی محفلوں میں بمباری کر کے ان کی خوشیوں کو آگ لگادیاور ان کے جنازے کے جلوس پر بمباری کرکے ان کے لیے مرنا بھی مشکل بنادیا تھا آج وہی امریکا اپنے فوجیوں کی زندہ سلامت واپسی کے لیے طالبان سے دوستی کر کے امن کی بھیک حاصل کرنا چاہتا ہے لہذا اس طرح افغان طالبان کا یار تو امریکا بننے جارہاہے اور جہاں تک پاکستانی طالبان کا تعلق ہے ان کی اکثر تنظیمیں امریکا کے زیر اثر ہیں ایف سی کے 23اہلکار جس طالبان گروپ کے پاس تھے وہ گروپ کس کے انڈر تھا ہو سکتا ہے وکی لیکس کچھ عرصے بعد اس راز سے پردہ اٹھائے۔جب ان اہلکاروں کے گلے کاٹنے کی خبر آئی تو عراق کی ایک تصویر میری نظروں کے سامنے گھوم گئی جس میں دکھایا گیا تھا ایک مسلح امریکی فوجی جس کے سامنے تختے پر ایک مجاھد کو ہاتھ پیر باندھ کر ڈالا ہوا تھا ،ایک اس کا مخالف اور امریکی فوج کا حمایتی ہاتھ میں چھرا لیے کھڑا ہے نیچے کیپشن میں لکھا ہوا تھا کہ اس مجاھد کا گلا کاٹا جائے گا۔ پچھلی صدی میں جو دنیا میں دو جنگ عظیم ہوئی تھی اس میں غیر مسلموں کے ہاتھوں کروڑوں غیر مسلموں کو تہہ تیغ کیا گیا تھا موجودہ صدی میں مغرب نے ایسی سازشوں کا تانابانا بنا ہے کہ ہر جگہ مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان مارا جارہا ہے ۔جہاں تک شرجیل میمن صاحب کے بیان کا تعلق ہے تو اس طرح کی ایک قرارداد اس جلسے میں بھی منظور ہوئی تھی کہ طالبان کی حمایت کرنے والی تنظیموں پر پابندی عاید کی جائے ۔ جلسے میں نو قراردادیں پاس ہوئیں اگر ایک دسویں قرارداد بھی پاس ہو جاتی کہ کراچی میں پچھلے دس پندرہ برسوں میں 1992 کے آپریشن کے جو پولیس اہلکار قتل کیے گئے ہیں اور چند ماہ قبل کورنگی میں ایک بم دھماکے سے جو رینجرز اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں ان کے قاتلوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے تو یہ بڑی بے مثال یکجہتی کا جلسہ بن جاتا۔شرجیل میمن صاحب سے اتنا کہنا ہے اگلے اجلاس میں سندھ اسمبلی میں ایک اور قرارداد لائی جائے جس میں یہ مطالبہ کیا جائے کہ جن سیاسی جماعتوں اور لوگوں نے طالبان کی تشکیل کی ہے ان پر بھی پابندی لگائی جائے کیونکہ یہ ان ہی کا بویا ہو ا پودا ہے جو آج کڑوے کسیلے پھل دے رہا ہے ۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ افغانستان میں جماعت اسلامی سے منسلک حزب اسلامی کے گلبدین حکمتیا ر کی حکومت روکنے کے لیے بے نظیر صاحبہ کے دور میں طالبان کو بنایا گیا ۔سابق وزیر داخلہ نصیر اﷲ بابر تو بہ بانگ دہل یہ کہتے تھے کہ طالبان ہمارے بیٹے ہیں ۔افغانستان میں گلبدین حکمتیار یہ سمجھتے تھے کہ طالبان سے لڑنے کا مطلب پاکستانی فوج سے لڑنا ہے اس لیے انھوں نے خاموشی سے طالبان کے لیے راستہ چھوڑ کر افغانستان کو بڑی خوں ریزی بچالیا ۔شرجیل میمن کو چاہیے کہ نصیر اﷲ بابر کے خلاف بھی قرارداد مذمت لائے جنھوں نے طالبان بنانے کا اقرار کیا تھا ۔اس قرارداد میں ایم کیو ایم بھی جوشیلے انداز میں بھر پور ساتھ دے گی۔
 

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 43790 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.