مسلمانوں پروسطی افریقہ میں ظلم
کی آندھی اس قدر چلی اورچل رہی ہے کہ عالمی شہرت یافتہ عیسائی اخبار جس
کانام ہی عیسائیوں کی نسبت سے کرسچئن پوسٹ ہے‘ نے بھی 14فروری 2014ء کو
اپنی ایک رپورٹ کاعنوان اس طرح لکھا:’’عیسائی ملیشیا وسطی جمہوریہ افریقہ
سے مسلم آبادیوں کوختم کررہی ہے۔‘‘رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ عیسائی مسلمانوں
سے(ان کے حکومت میں آنے کا)انتقام لے رہے ہیں اور حالات اس قدربدترہیں کہ
ملک سے مسلمانوں کامکمل خاتمہ بھی ہوسکتاہے۔
اس حوالے سے عالمی شہرت یافتہ انسانی حقوق کے مغربی ادارے ہیومن رائٹس واچ
کی ایک رپورٹ کا تذکرہ کیا گیاہے جس میں تسلیم کیاگیا ہے کہ ادارے کے کارکن
خود بتارہے تھے کہ انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ عیسائی اینٹی
بلاکا کے حملہ آور مسلمانوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔سرعام ان کے ٹکڑے کررہے تھے۔
انہیں برے طریقے سے مار رہے تھے اور انہیں اسی حال میں آگ لگارہے
تھے۔ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں یالوکے قصبہ کا بھی ذکر کیاہے اور بتایاہے
کہ اس میں30ہزار کے لگ بھگ مسلمان بستے تھے۔ یہاں 8مساجد تھیں لیکن اب یہاں
صرف ایک مسجداور500مسلمان باقی بچے ہیں ۔باقی سب کچھ ختم ہوگیاہے۔وہ علاقے
جو پہلے مسلم اکثریتی تھے ‘ اب مکمل ویران پڑے ہیں۔مسلمانوں کی دکانیں اور
گھر لوٹ کر جلادئیے گئے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹرایمرجنسی پیسٹر بوکائرٹ نے بتایاکہ حالات سے
تویہی نظرآتاہے کہ صدیوں سے یہاں رہنے والے مسلمانوں کو اب مکمل طورپر ہی
ختم کیاجارہاہے۔عیسائی ملیشیااینٹی بلاکاکامقصدبھی یہی ہے۔
ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں ایک چھوٹے بچے جس کانام عبدالرحمن تھا‘کاذکر
کرتے ہوئے بتایاکہ جب 14جنوری 2014ء کو وہ لوگ اپناعلاقہ چھوڑ کر ٹرکوں کے
ایک قافلے میں بھاگ رہے تھے تواس قافلے کو اینٹی بلاکا کے لوگوں نے اپنی
ایک چیک پوسٹ پرروک لیا۔ پھر انہوں نے حکم دیاکہ تمام مسلمان ٹرکوں سے نیچے
اترجائیں اورپھر اس کے خاندان کے 6لوگوں کوجس میں 3خواتین اور 3بچے بشمول
ایک شیرخوار شامل تھے ‘وہیں قتل کردیا گیا۔
دنیامیں انسانی حقوق کے نام پرکام کرنے والا ایک اورسب سے بڑاادارہ ایمنسٹی
انٹرنیشنل جوکہ ہیومن رائٹس واچ کی طرح مغربی اور متعصب عیسائی ہے‘ نے
عیسائیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے اس خوفناک قتل عام کو’’ قانونی اور
اخلاقی‘‘جواز فراہم کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھاکہ جب مارچ 2013ء میں
مسلمانوں نے حکومت سنبھالی تھی تواس وقت انہوں نے عیسائیوں کا قتل ‘لوٹ
مار‘عزتوں کی پامالی جیسے بے تحاشہ جرائم کیے ۔ حتّٰی کہ اس خانہ جنگی میں
بھی مسلمانوں کاحکومت سنبھالنے والا سلیکاگروپ ملوث تھا اور عیسائیوں
پرحملے کیے جاتے رہے(لیکن اس عرصے میں کتنے عیسائی قتل ہوئے ؟ان کے کتنے
گھریاچرچ جلے؟اس کی کسی کے پاس کوئی رپورٹ نہیں‘ نہ وہ منظرعام پر لائی
جاسکی کیونکہ یہ تومحض الزام اور جھوٹ تھا۔ویسے بھی یہ بات مسلمانوں کی
روایت و تاریخ کے بھی خلاف ہے کیونکہ مسلمانوں نے باہمی لڑائیوں میں توآپس
میں ایک دوسرے کے خلاف انتہائی برا سلوک کیا لیکن غیر مسلموں پر انہوں نے
کبھی مظالم نہیں ڈھائے۔فاتح کی حیثیت مسلمانوں کا غیر مسلموں سے مشفقانہ
سلوک ایک ایسی روایت جس پر ساری اسلامی تاریخ گواہ ہے)۔وسطی جمہوریہ افریقہ
میں تو ویسے بھی مسلمان اقلیت میں تھے اور ان کے ساتھ شریک اقتدار غیر مسلم
بھی تھے ۔ان حالت میں عیسائیوں پر ظلم و زیادتی کا تو سوچا بھی نہیں جا
سکتا تھا۔
وسطی جمہوریہ افریقہ میں اس انسانی المیہ کی رپورٹنگ کرنے والے عالمی شہرت
یافتہ فوٹو گرافر صحافی مارکوس بلیڈیل کا19فروری 2014ء کو ایک
انٹرویونشرہوا۔ مارکوس یونیسف سمیت بہت سے عالمی اداروں سے تصویری صحافت کے
ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں ۔انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیاآپ کے سامنے
بھی کوئی قتل ہوا ہے؟ تو مارکوس کاجواب تھا کہ:’’افسوس سے کہناپڑتاہے کہ بے
شمار‘‘میں جس ماحول میں تھا‘وہاں ہرطرف قتل ہی قتل تھا۔ کوئی دن ایسانہیں
کہ آپ باہرنکلیں توآپ کوہرطرف لاشیں ہی لاشیں دیکھنے کونہ ملیں۔ان سب لوگوں
کو برے طریقے سے ماراگیاتھا۔ ہمارے سامنے سینکڑوں لوگوں کے گروہ ہوتے تھے
جوکسی ایک تنہاشخص کوگھیرگھیر کر مارتے تھے اورآپ اس طرح کے حالات میں کسی
کوبچانے کے لیے کچھ کربھی نہیں سکتے ۔ورنہ توآپ خود مارے جائیں گے ۔ہم(میں
اورمیرا دوست)کوشش کرتے تھے کہ ہم زیادہ سے زیادہ ایسے واقعات کورپورٹ کرکے
دنیاتک پہنچائیں اورہمارایہی کام دنیاکے سامنے آیا توکچھ آواز بلند ہوئی۔
وسطی جمہوریہ افریقہ کے مسلمانوں کے ان خوفناک حالات سب سے آخری اور چشم
دید حالات و واقعات پر مبنی تادم تحریر رپورٹ20فروری2014ء کو بی بی سی
ورلڈپرشائع ہوئی جسے یہاں بی بی سی کے نمائندے قاسم کبڑانے رپورٹ کیا۔
قاسم نے بتایا کہ ہم اس ایک قافلے کے ساتھ تھے کہ جودارالحکومت بنگوئی سے
650کلومیٹرکاسفر کرکے کیمرون پہنچاتھا۔اس قافلے کے ساتھ افریقی یونین کے
سپاہی تھے۔ قافلے میں شامل ایک خاتون جس کانام مریم تھا‘نے بتایا کہ میں
ملک چھوڑتے ہوئے غم سے نڈھال ہوں۔میں اپنے ملک سے باہر کبھی نہیں گئی اورآج
دارالحکومت چھوڑکرجارہے ہیں۔ گزشتہ مہینے میرے چار رشتہ دار قتل کردئیے
گئے۔قاسم نے لکھاکہ بچے ہوں یاجوان‘ سبھی اس قافلے کی جانب بھاگ رہے
تھے۔قافلے میں پرائیویٹ گاڑیاں بھی تھیں اور ٹرک بھی……ہم چل پڑے تو مریم
بول اٹھی ’’کیامیں وہاں رہ کراپنے شوہر اوربچوں کوقتل ہوتا دیکھوں؟‘‘ آخریہ
تونہیں ہوسکتاناں ‘لیکن کیاکروں۔ میرادل ان کے ساتھ ہے جوپیچھے رہ گئے ہیں۔
قاسم نے بتایا کہ ہم جہاں سے بھی گزرے‘ ہرجگہ مسلمانوں کے جلے ہوئے گھر اور
مساجد دیکھیں ۔جگہ جگہ جھاڑیوں اوردرختوں کے پیچھے مسلمان جانیں بچانے کے
لیے چھپے ہوئے تھے۔ قافلہ کو دیکھ کر وہ بھاگ کرآتے۔ کوئی ساتھ چڑھنے کی
کوشش کرتا‘کوئی کچھ کھانے کے لیے مانگتا اور کوئی کچھ سوال سامنے
رکھتا……کتنے ہی لوگوں کو علاقوں کے چرچوں نے پناہ دی لیکن ان کے لیے یہ
پناہ بھی خوفناک ثابت ہوئی کیونکہ یہاں جمع لوگوں پر اینٹی بلاکاکے حملہ
آور آسانی سے جھپٹ پڑتے اورانہیں بے دردی سے قتل کرناشروع کردیتے۔جگہ جگہ
یہ لٹے پٹے مسلمان مددوتعاون یاپھرساتھ چلنے کے لیے منتیں کرتے۔ بی بی سی
کی رپورٹس نے لکھاکہ حالات یہ تھے کہ جب یہ قافلہ چلاتواس میں 150مسلمان
تھے لیکن جب سفر اختتام کو پہنچاتولوگوں کی تعداد 2ہزار سے تجاوز کرچکی
تھی۔ لوگوں کی حالت انتہائی دل دہلادینے والی ہوتی تھی۔ جگہ جگہ اینٹی
بلاکا کے لوگ قافلے کوروک کر اس میں شامل مسلمانوں کوقتل کرنے کی کوشش کرتے
لیکن افریقی یونین کے سپاہیوں کے باعث قافلہ بچ بچا کرآگے بڑھتا گیا۔
کیمرون کی سرحد پرپہنچ کر قافلے پراینٹی بلاکانے باقاعدہ بڑاحملہ کردیا
لیکن یہاں سے بھی بچ کر یہ لوگ کیمرون داخل ہو ہی گئے اور پھر کچھ لوگ پناہ
گزین کیمپوں پرپہنچے توکچھ اپنے اپنے رشتہ داروں کی طرف روانہ ہوگئے۔
وسطی جمہوریہ افریقہ کے مسلمانوں پرظلم کی یہ آندھی ایک ایسارخ اختیارکرگئی
کہ جواس سے پہلے دنیا نے دیکھی اورسنی بھی نہ ہوگی۔
یہاں اینٹی بلاکا کے عیسائیوں نے مسلمانوں کو کاٹ کاٹ کر قتل کیا۔انہیں
زندہ بھی جلایااور ان کی لاشوں کو بھی……لیکن انہوں نے ایک نئی روایت قائم
کرتے ہوئے مسلمانوں کی لاشوں کو آگ لگاکربھون بھون کر ان کا گوشت بھی
کھایا۔بی بی سی نے ہی اس حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایاکہ دارالحکومت بنگوئی
میں اینٹی بلاکا کاایک رکن جس کانام Ouandja Magloireتھا‘ یہ خود کو ’’پاگل
کتا‘‘ کہتاتھا اوراس نے سڑکوں پرمسلمانوں کو بھون بھون کر کھاناشروع
کررکھاتھا۔بہت سے لوگ یہ منظر دیکھتے تھے لیکن کوئی اسے روکتانہ تھا۔بی بی
سی پراس دہشت گرد کی تصویریں بھی شائع ہوئیں البتہ بی بی سی نے عیسائیوں کے
اس خوفناک ترین ظلم کو’’ اخلاقی وقانونی ‘‘جواز فراہم کرنے کے لیے اس
’’پاگل کتے‘‘ کے حوالے سے لکھا کہ اس نے بی بی سی کوبتایاکہ وہ یہ سب کچھ
اپنے خاندان کے لوگوں کے انتقام میں کررہاہے جنہیں مسلمانوں نے حکومت
سنبھالنے کے بعد قتل کیا تھا‘حالانکہ مسلمانوں کے 10ماہ کے دورِ اقتدار میں
کوئی ایک ظلم کی کہانی دنیانے نہیں سنی تھی۔
اتنے بڑے پیمانے پرمسلمانوں کے قتل عام اور اس قدر خوفناک صورتحال کی تاحال
کسی ملک نے مذمت تک نہیں کی۔مسلمانوں کی کسی تنظیم نے معمولی جنبش تک نہیں
دکھائی ۔اوآئی سی بھی لاتعلق ہی ہے ہے۔اقوام متحدہ نے انتہائی رحم کھاتے
ہوئے 17فروری کو محض افسوس پراکتفاکیا۔کمال دیکھئے کہ تاحال کوئی ایک دہشت
گرد عیسائی گرفتارنہیں ہوا ‘نہ کوئی رپورٹ درج ہوئی۔
مسلمانوں کے ان حالات کو دیکھ کر بے ا ختیار کبھی تو ملالہ یاد آ جاتی ہے
اور کبھی مختاراں مائی اور کبھی ان جیسے وہ بے شمار کردار جنہیں لے کرسارا
مغرب پاکستان پر چڑھ دوڑتا ہے ۔ان لوگوں کو نہ کشمیر یاد آتا ہے نہ برما نہ
فلسطین اور نہ آج کا وسطی جمہوریہ افریقہ۔اس کی بنیادی اورسب سے بڑی وجہ
یہی ہے کہ یہاں کیڑوں مکوڑوں سے بد تر حالات کاسامنا کرنے والے صرف مسلمان
ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں موت کے منہ میں جارہے ہیں۔اس کی فکر کون کرے
گا؟یہ سوال ساری امت کے سامنے ہے۔ |