نہ گور سکندر نہ قبر دارا
مٹے نامیوں کے نام کیسے کیسے
اُن پر نزاع کاعالم طاری تھا۔ سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ ہم سب چارپائی کے آگے
پیچھے تھے۔ سب ہی دعائیں مانگ رہے تھے۔ قرآن پاک کی تلاوت ہو رہی تھی۔کلمہ
کا مسلسل ورد ہورہا تھا۔زندگی کی 84 بہاریں دیکھنے کے بعد آج اُن کی زندگی
کی شام ہو رہی تھی۔آج وہ گھاٹی آن پہنچی تھی جس سے ہر کسی کو گزرنا ہوتا ہے۔
کچھ دیر میں سانس دھونکنی کی طرح چلناشروع ہوگئیں۔ جیسے شمع بجھنے سے پہلے
بھڑکتی ہے ایسے ہی ان کی سانسیں کچھ وقت کے لیے تیز ہوئیں اور پھر معدوم
ہوتی چلیں گئیں۔ تیز چلتی نبضیں ڈوبتی چلی گئیں۔ چند ساعتوں میں وہ اس دنیا
سے بہت دور چلے گے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا ۔ ہم سب پاس ہونے کے باوجود
کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ وہ میرے ماموں تھے1939ء میں پیدا ہوئے زندگی کو
مردانہ وار گزارا، ہر سخت سے سخت کام کیا ۔ ’’الکاسب حبیب اﷲ‘ کی روشنی میں
اپنی ساری زندگی محنت، مشقت اور جفا کشی میں گزاری۔ حلال روزی سے بال بچوں
کا پیٹ پالا۔ دیہاڑی سے لے کر کھیتی باڑی تک ہروہ کام کیا جس سے حلال روزی
کمائی جا سکے۔ قد قامت کے پست ہونے کے باوجود عزم وحوصلے کے کوہ گراں تھے۔
گدھوں پر سامان لاد کر خونی لکیر کے اُس پار مقبوضہ کشمیر کے دور دراز
علاقوں راجوری اور نوشہرہ تک لے جانا اوربڑا جان جوکھوں کا کام تھا ۔ راستے
میں کوہ ہمالیہ کی سارا سال برف سے ڈھکی پہاڑیاں بھی آتی ہیں، لیکن یہ ساری
مشکلات اُن کے راستے کی رکاوٹ نہ بن سکیں اور نہ ہی ان کے عزم صمیم کے
سامنے کبھی پاؤں کی زنجیر بن سکیں۔میں حیران ہورہا تھا دنیا کا ہر قلم کار
چند گنی چنی مشہور ہستیوں کی سوانح عمریاں ہی کیوں لکھتا ہے؟ کیا کوئی عام
انسان عظیم نہیں ہو سکتا، ساری زندگی سراپہ شکر رہنے والا، گمنامی کے گوشوں
میں زندگی کی بہاریں بحسن و خوبی گزار دینے والا بڑا آدمی نہیں ہوسکتا۔میرے
آقا ﷺ نے تو اپنے اﷲ سے گمنامی کی زندگی مانگی ہے۔ پھر حلال روزی کمانے
والے اور محنت مشقت کرنے والے انسان کو رسول اﷲ ﷺنے اﷲ کا دوست ہونے کی
بشارت دی ہے، محنت و مشقت کرنے والے ہاتھوں کو اتنا معتبر جانا ہے کہ امام
الانبیاء ان ہاتھوں کو بوسہ دیں۔ ان تعلیمات کی روشنی میں ،اس لمحے دنیا کا
ایک عظیم انسان دار البقا کو رخصت ہورہا تھا۔ ہر مرنے والے کی طرح وہ بھی
یہ اعلان کرتے جارہے تھے موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ ہزار
سال بھی جی لیں تو آخر جانا ہی پڑتا ہے اور جس وقت انسان اس دنیا سے جا رہا
ہوتا ہے تو وہ اس لمبی چوڑی زندگی کو دنیا میں چند لمحوں کا قیام ہی سمجھتا
ہے۔ آج میری زندگی کا دوسرا موقع تھا جب میری آنکھوں کے سامنے کوئی ذی روح
اپنی زندگی کی ساعتیں پوری کر کے دار فانی کو چھوڑ رہا تھا۔ چودہ سال قبل
میں نے اپنی دادی محترمہ کے روح نکلنے کا منظر دیکھا تھا اور آج پھر ایک ذی
نفس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر رہی تھی اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو روک
نہیں سکتی تھی۔
پہلی بار صحیح معنوں میں زندگی کی ناپائیداری کا احساس ہوا۔ آخر ہم کس چیز
کی تک و دو میں مصروف عمل ہوتے ہیں ، ہم اس زندگی کے لیے اپنے اﷲ اور اس کی
تعلیمات کو بھول جاتے ہیں جو زندگی ہم سے کسی لمحے بے وفائی کر جانے والی
ہوتی ہے۔ ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ جب فرشتہ اجل روح قبض کرنے کے آن
پہنچتا ہے تو روح اس سے گلِہ کرتی ہے’’ تو اچانک آگیا ہے ابھی تو میں تیار
نہیں تھی ، تو پہلے کوئی اطلاع پہنچاتا، کوئی نوٹس بھیجتا میں تیاری کر
لیتی‘‘۔ فرشتہ اجل جواب دیتا ہے’’ دنیا کی رنگینوں میں کھوئی ہوئی اے غافل
روح میں نے تو بہت نوٹس بھیجے ، بہت دفعہ تجھے پیغام دیا،لیکن تو نے آنکھیں
بند کر لیں تھیں، تجھے تو زندگی سے پیار ہوگیا تھا، جیسے تجھے ہمیشہ ہمیشہ
کے لیے اس دنیا میں رہنا ہے، تو دنیا کی رنگینوں میں اس قدر کھوئی کہ تجھے
موت جیسی اٹل حقیقت بھی یاد نہ رہی‘‘۔ روح اضطراب میں تڑپے گی اور جواب دے
گی’’ مجھے تو کوئی نوٹس نہیں ملا‘‘ موت کا فرشتہ جواب دے گا’’ فلاں شخص کی
تیرے سامنے موت ہوئی، کیاوہ تیرے لیے نوٹس نہیں تھا کہ ایک دن تجھے بھی اسی
طرح مر جانا ہے، فلاں حادثے میں تو بال بال بچی تھی، تجھے پتہ نہیں تھا یہ
بال کتنا باریک ہوتا ہے اور ٹوٹنے میں کتنی دیر لگتی ہے، تیرے گھر کتنی
اموات ہوئیں، تیرے سامنے کتنے عزیزوں اور محلے داروں نے داعی اجل کو لبیک
کہا، کیا یہ سب تیرے لیے عبرت کا سامان نہ تھا، کیا قرآن کے یہ الفاظ ’’تم
میں سے ہر ذی نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘’’ ہر چیز فنا ہونی والی ہے‘‘’’لوگو!
تم کہیں بھی ہو، موت تم کو آکر رہے گی اگرچہ تم کتنے مظبوط قلعوں میں ہی
کیوں نہ ہو‘‘کیا یہ سب باتیں بھی تمہاری آنکھیں کھولنے کے کافی نہ تھیں،کیا
تجھے ان سب چیزوں کو سامنے رکھ کر موت کے لیے تیار نہیں رہنا تھا‘‘ روح
لاجواب ہوجائے گی۔ فرشتہ اپنا کام کرکے چلتا بنے گا۔ عزیز و اقارب نوحہ
کناں ہوں گے لیکن کوئی اس سے سبق سیکھنے کو تیار نہ ہوگا۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے، لیکن ہم یقین کب کرتے ہیں۔اﷲ رب العزت نے جب سب
ارواح کو پیدا کیا تو پہلا سوال کیا ’’الست بربکم‘‘ کیا میں تمہارا رب نہیں
ہوں؟ ہم سب نے بیک زبان ہو کر کہا ’’قالو بلا‘‘ کہا کیوں نہیں۔ پھر رب نے
مخصوص وقت کے ہمیں عالم ارواح سے عالم دنیا یعنی دارالعمل کی طرف بھیج دیا،
ساتھ ہی ہدایات بھی دے دیں مقصد زندگی بھی متعین کر دیا’’ خلقت الجن و
الانس الا لیعبدون‘‘ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ
میری عبادت کریں، ’’خلق الموت والحیات لیبلواکم حی کم حسنہ عملا‘‘ میں نے
زندگی اور موت کو اس لیے پیدا کیا تاکہ دیکھا جائے تم میں سے کون نیک اعمال
کرتا ہے‘‘۔ پھر اتنا ہی نہیں مزید تطہیر افکار اور تعمیر کردار کے لیے اپنے
چنیدہ اور برگزیدہ بندے بھی بھیجے، چھوڑ نہیں دیا، ہدایت نامے بھی بھیجے،
دردناک عذاب سے ڈرایا بھی، نیک اعمال پر خوشخبری بھی دی، پھر آنکھوں کے
سامنے بار بار جنازے بھی اٹھوائے تاکہ انسان سبق سیکھ لے، آفات سماوی سے
بھی ڈرایا، کبھی زلزلے اور سیلاب، کبھی آندھیاں اور طوفان، کبھی جنگیں اور
قحط سالی،کبھی بھوک اور افلاس ، کہ انسان لوٹ آئے، لیکن ہم ہیں کہ جب تک
خود نہ مر جائیں موت کا یقین نہیں کرتے، زبان سے ہم توبہ توبہ اور موت کے
اٹل ہونے کا بار بار اعلان کرتے ہیں لیکن ہمارا عمل اس بات کی نفی کر رہا
ہوتا ہے، بات ہم موت کی کر رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف قلعہ نما کوٹھیاں
بنا رہے ہوتے ہیں جیسے ہم نے اسی دنیا میں رہنا ہے، دولت کو گن گن کر جمع
کر رہے ہوتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ دولت ہمارے پاس ہمیشہ ہمیشہ
رہے گی۔رب کو اور رب کی تعلیمات کو ایسے فراموش کر دیتے ہیں جیسے ہمارا ان
چیزوں سے دور پار کا واسطہ بھی نہیں، اور جب موت کا فرشتہ آن موجود ہوتا ہے
تو کف ِ افسوس سے ہاتھ ملتے ہیں:کاش!مجھے کچھ مہلت اور مل جائے تو میں کچھ
نیک کام کر لوں، اور کاش زندگی میں یہ یہ کام نہ کرتا، لیکن تب چڑیاں کھیت
چگ چکی ہوتی ہیں۔ فرشتہ اجل اﷲ کا پیغام سناتا ہے ’’جب وقت آجاتا ہے تو اس
میں ذرا برابر بھی دیر نہیں ہوتی‘‘
موت انسان کے سائے کی طرح ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ وہ ایک اٹل حقیقت ہے
لیکن پھر انسان کیوں اپنے اس خاموش ساتھی سے بے خبر ہوکر دنیا کی رنگینیوں
میں کھو جاتا ہے۔
اس سے پہلے کہ ہماری بھی زندگی کی شام ہوجائے، سانسیں اکھڑنے لگیں، نبضیں
ڈوبنے لگیں، مہلت زندگی کو غنیمت جانیں اور کل کے لیے کچھ سامان کر لیں۔ اﷲ
ہمیں صحیح معنوں میں کل کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)
|