تاریخی ورثے کسی بھی ملک کے لیے
قیمتی سرمایہ تصور کیے جاتے ہیں۔ پاکستان جو قدرتی دولت سے مالا مال ہے ۔
وہیں تاریخ نے ایسی تہذیبں پاکستان کی چولی میں ڈالی ہیں کہ آنکھ دھنگ رہ
جاتی ہے۔ موہنجودوڑو 1920 میں سندھ میں دریافت ہونے والی قدم ترین تہذیبوں
میں سے ایک ہے۔ موہن جودوڑو دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ایک قدیم ترین
تہذیب ہے۔ جس کے آثار 1920 میں دریافت کیے گئے اور منظر عام پر لائے گئے۔ ۵
ہزار سال قبل پرانی تہذیب پاکستانی ورثہ کی ایک اہم نشانی تھی۔ مگر اس
پاکستانی ورثہ کو بلاول بھٹو سندھی ثقافت کا نام دے کر، سندھی کلچرل
فیسٹیول کی تقریب کرنے کا اعلان کر دیا۔ گویا اس سے قبل یہ نازک ترین تہذیب
دنیا کی نظر میں نہیں آئی تھی اور بھٹو خاندان کے لاڈلے بلاول بھٹو اس
قیمتی سرمایہ پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے نام نہاد سندھی ثقافت کو
عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے فیسٹیول کا اعلان کیا ۔ اس سے یہی محسوس
ہوتا ہے کہ موہنجودوڑو، نہ تو پاکستان کا ورثہ ہے ، نہ ہی سندھ کا بلکہ یہ
تو بھٹو خاندان کی وراثت ہے، بھٹو خاندان نے تو رہی سہی کسر اس تاریخی آثار
قدیمہ پر لکڑی کا ۸۰ فٹ چوڑا اور ۵۰ فٹ طویل سٹیج تیار کر کے پوری کر دی۔
اس سٹیج پر ہو اکیا۔۔۔ سندھ کی ثقافت کو اجاگر کیا گیا۔۔۔ اب دیکھتے ہیں
کیسی سندھی ثقافت پیش کی گئی۔ بلاول بھٹو، اپنے نانا کی جیکٹ پہنے، اپنے
ابا حضور کی طرح مسکرائیں بکھیر ے اور انگریزی لہجے میں منہ کھول کھول کر
اردو زبان کی ٹانگیں توڑتے ہوئے ٹی وی سکرین پر رونماہوتے رہے ۔جس میں وہ
عوام کو سندھی ثقافت کو زندہ رکھنے کی اپیل کرتے رہے۔۔۔ عوام کتنا ساتھ دیں،
سندھی ثقافت تو بہت دور عوام نے بھٹو اور بی بی کو مرنے نہیں دیا۔۔۔۔۔۔ خیر
موہنجودوڑو تہذیب پر بھٹو خاندان کے چراغ بلاول بھٹو اور ان کے ساتھی عیاشی
کی بتیاں جلانے میں مصروف ہوگئے اور دوسری طرف پورے پاکستان میں کالم
نگاروں نے اپنے قلموں کو تکلیف میں ڈال دیا۔ میڈیا نے اس فیسٹیول کو بھرپور
کوریج دے کر اپنی روح کی تسلی کرلی، اور ٹاک شوز میں خاضرین اور ناظرین نے
اچھی طرح خون اور پسینہ ضائع کیا۔ یہی نہیں حکومت بجائے اس قدیم تہذیب کو
بچانے کے اقدام کرتی بلکہ خود بکری کی طرح جگالی کرتی اس تباہی سے بھرپور
لطف اٹھاتی رہی۔۔۔
کہنے کو تو یہ تقریب سندھ کی ثقافت کو عالمی سطح پر لانے کی ایک کوشش ہے۔
اس فسٹیول سے دنیا بھر میں لوگ سندھی ثقافت سے بھرپور آگاہ ہو جائیں گے۔ ہم
بھی نگاہ دوڑایں کہ آخر سندھی ثقافت ہے کیا۔۔۔۔۔۔؟ سندھ ایک ایسی سرزمین ہے
جہاں صوفیا کرام نے جنم لیا ، اس تقریب میں صوفیا نہ کلام، لوک موسیقی اور
سندھ کے نامور فنکاروں کی بجائے پوپ گلوکار بلائے گئے، یہی نہیں اس نازک
دھرتی پر ڈانسرنے دل کھول کر اچل کود کی، ایک گلوکارہ نے گانے کے دوران بے
ہودہ انداز میں بوسے بھی دیئے ۔۔۔ آخر یہ کس کی ثقافت ہے؟ دنیا کو شاید پتہ
نہیں کہ آتش بازی بھی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہوتی ہے۔۔۔۔ اور بلاول بھٹو
اپنے ساتھیوں سمیت اس پیش کردہ نام نہاد سندھی ثقافت سے اپنی آنکھوں کو
ٹھنڈا کرنے اور اپنی تھکی طبیعت کو آرام دینے میں مشغول رہے۔۔۔۔۔۔
جمہوریت کا جھنڈا بلند کرنے والوں نے عوام کا سر شرم سے جھکا تو دیا ہی تھا
مگر اب اس کو تن سے جدا کرنے کی تیاریوں میں لگے نظر آرہے ہیں۔ عوام جہاں
بجلی کو ترس رہی ہے، جمہوریت کے رکھولوں نے اس جشن بے جا چراغاں کیئے ، لوگ
غربت کی چکی پیس رہے ہیں مگر یہ نواب زادے اسی چکی میں سے اربوں روپوں کا
آٹا پسوا کر جشن میں شامل ہونے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کر رہے ہیں، اس
جشن میں مہمان اور میزبان دونوں ایک ہی بانسری کے سوراخ ہیں جن کی شکل ،رنگ
، آواز اور شوق سب الگ ہیں لیکن اس بانسری میں پھونک وہ سندھی ثقافت کی ما
رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
سندھی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ثابت ہوتا ہے ، سندھی بے پناہ مہمان نواز
رہے اور آج بھی ہیں ۔ سندھی سچے اور کھڑے لوگ ہیں شادی بیاہ کی سادہ لوح
تقریبیں دل موہ لیتی ہیں ، سندھی گیت روح کے سکون کا ایک الگ سامان ہے ۔
مختصر یہ کہ سندھی ثقافت اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔۔۔ لیکن مغرب کی
خوراک پر پلنے والے مرغے کو کیا پتہ ثقافت کس کا نام ہے ۔۔۔۔۔۔؟ سندھی
ثقافت کو جہاں ایک طرف بھٹو خاندان نے زخمی کرنے کی کوشش کو وہیں دوسری طرف
میڈیا نے سندھی ثقافت صفہ ہستی سے مٹانے کا بیڑا اٹھا لیا۔۔۔ جوں ہی میڈیا
کو آزادی ملی اس نے دھرادھڑ سندھ میں اسلحہ کلچر کو عام کرنا شروع کر دیا ۔
ڈراموں میں بے ہودگی کا تڑکہ لگایا گیا۔ جس سے سندھی نوجوانوں نے معاشرے کو
تباہ و برباد کر دیا۔ جرگہ نظام کو وسعیت ملی۔ یہی نہیں سندھی میڈیا نے
شراب، جلعساری اور زیادتی کے کلچر کو عام کیا۔۔ سندھی اجرک جو سندھ کلچر کی
جا ن ہے، اس میڈیا نے یہی سندھی اجرک عورت کے سر سے اتار کر مرد کے گلے میں
ڈال دی اور ایک نئے طرز کی ثقافت کو سامنے لایا۔۔۔سندھ پاکستان کا صوبہ کم
اور بھٹو کی سرزمین زیادہ نظر آتی ہے ۔ لیکن یہ لوگ بھول رہے ہیں کہ
پاکستان درخت کی مانند ہے ۔ اس کی شاخیں اس کے صوبے ہیں اور عوام پتوں کی
مانند ۔ اس ملک کی جڑیں بہت مظبوط ہیں جمہوریہ پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر
نہیں کہ شاخ کو کاٹ کر الگ کر کے اپنے خاندان کا نام دے دیا جائے۔۔۔ ضرورت
اس امر کی ہے کہ پاکستان کے اس درخت کے پتوں کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے
شاخوں کو مضبوط کرنا ہو گا نہ کہ انہیں کاٹنا۔۔۔ کلچر چاہیے سندھی ہو،
پٹھانی ہو یا پنجابی ، ہے تو پاکستانی کلچر، لہذا اپنے کلچر اور پہچان کو
برقرار رکنا سب کی ذمہ داری ہے۔ |