تقاریب میں شرکت کا ایک فائدہ
ضرور ہوتا ہے، وہ دوست احباب جنہیں آدمی حالات کے جبر کی وجہ سے تقریباً
بھلا بیٹھتا ہے، ان سے میل ملاقات کا موقع میسر آجاتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک
ایسی ہی تقریب میں شرکت کا موقع ملا، جس میں بہت سے پرانے دوست مدعو تھے۔
ایک دوست سے کوئی 10 برس بعد ملاقات ہوئی، کام دھندوں کے چکر نے ہیلو ہائے
سے بھی محروم کردیا ہے۔ بہرحال! ملاقات میں پرانی یادیں تازہ کرتے رہے۔ اسی
دوران اس نے وہ بات بتائی جو آج کے کالم کی محرک بنی۔ ہمارا ایک مشترک دوست
چھ برس قبل اﷲ کو پیارا ہوگیا تھا، اس وقت اس کی عمر یہی کوئی 34,35 برس
رہی ہوگی۔ بیوی 7,8 برس چھوٹی تھیں، ان کا ایک بچہ تھا، وہ خاتون شوہر کے
انتقال کے بعد اپنے والدین کے گھر شفٹ ہوگئیں، جو ہمارے دوست کے پڑوس میں
ہی تھا۔ دوست نے بتایا اس خاتون کی حالت بہت بری ہے، بے چاری زندگی کے دن
پوری کررہی ہے۔ ہمارے مرحوم دوست نے اسے جس ناز ونخرے سے رکھا تھا، اس سے
ہم باخبر تھے بلکہ بعض اوقات دوست کو اس پر خوب چھیڑا بھی کرتے تھے، اب اس
کے حالات سنے تو صدمہ ہوا۔
ہمارے معاشرے میں بیواؤں کے معاملے میں بہت سی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔ سچی
بات تو یہ ہے کہ ہم نے بیواؤں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے، ان کا
کوئی پرسان حال نہیں۔ یوں تو ہر بیوہ ہی قابل رحم ہوتی ہے مگر ایسی لڑکی
جسے جوانی میں یہ روگ لگ جائے معاشرے کی خاص توجہ کی مستحق ہے۔ بوڑھی
بیواؤں کا زیادہ تر مسئلہ معاشی یا خاندان کی بدسلوکی ہوتا ہے، جبکہ نوجوان
بیواؤں کے لیے تو قدم قدم پر مسئلہ ہوتا ہے۔ یہ موضوع خاصا تفصیل طلب ہے،
کالم کی گنجائش کے مطابق دو، تین باتیں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
لڑکی شوہر کے انتقال کے بعد عموماً والدین کے گھر آجاتی ہے۔ اس کا خیال
ہوتا ہے وہ وہاں سسرال کی نسبت زیادہ سکون سے زندگی گزارسکے گی، مگر زیادہ
تر کے تجربات اس معاملے میں خاصے تلخ ہوتے ہیں۔ ماں باپ تو اپنی بیوہ بیٹی
کے لیے بازو پھیلادیتے ہیں لیکن بیشتر کیسز میں بیوہ کو بھابی، بھاوج کا
سرد اور توہین آمیز رویہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ہر وقت توتو، میں میں ہوتی
رہتی ہے۔ بھائی یا تو بیوی کے ساتھ ہوتا ہے یا پھر وہ اپنے کام کاج میں
اتنا الجھا ہوا ہوتا ہے کہ گھر میں جاری جنگ کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ ایسے
گھرانوں میں بیوہ کی حیثیت ماسی سے زیادہ نہیں ہوتی، دو وقت کی روٹی اور
پناہ کی قیمت اسے برتن مانجھ اور پوچھے لگاکر ادا کرنا پڑتی ہے۔ جو لڑکیاں
جاب پر ہوتی ہیں یا ان پر خودداری کا بھوت سوار ہوتا ہے ،وہ شوہر کے انتقال
کے بعد الگ گھر میں رہنے کو فوقیت دیتی ہیں۔ خاص طور پر وہ بیوائیں جن کے
بچے ہوں، وہ الگ گھر میں رہنے کو پسند کرتی ہیں۔ یہ طریقہ بھی کسی صورت
آئیڈیل نہیں، ایسی بیوہ خود کو خواہ کتنی ہی بہادر کیوں نہ سمجھتی ہو، تحفظ
کا مسئلہ ہر وقت اس کے سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔
صورت حال کے گہرے جائزے اور تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ بیوہ کے بیشتر مسائل
کا حل نکاح میں ہے ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس حل میں سب سے بڑی رکاوٹ خود
بیوائیں ہیں۔ جوانی میں شوہر کا انتقال بلاشبہ عورت کو اندر سے توڑکر رکھ
دیتا ہے۔ وہ مدتوں اس صدمے سے نکل نہیں پاتی۔ ہمارے مشرقی معاشرے میں جہاں
بیوی اپنے آپ کو شوہر کی ذات میں فنا کردیتی ہے، وہ ایام بیوگی بھی اسی
محبت کے سہارے گزارنا چاہتی ہے۔ زندگی کی بعض حقیقتیں بہت تلخ ہیں، زندگی
کو محض محبت کی بنیاد پر گزارا نہیں جاسکتا۔ عورت کو قدم قدم پر مرد کی
ضرورت پڑتی ہے، ایسی بیوائیں جن کے بچے ہوں وہ بھی محض بچوں کے بڑے ہونے کی
امید پر تنہا زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں، یہ بھی محض جذباتی سوچ ہے۔
بچوں کے تحفظ اور اچھی پرورش کے لیے عقدثانی زحمت نہیں رحمت ہے۔ بیواؤں کو
پہلے شوہر کی محبت اور بچوں کے نام پر دوسرے نکاح سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔
جو گزرچکا وہ ایک خواب تھا، جو مسائل سامنے منہ کھولے بیٹھے ہیں، ان سے
نمٹنے کی فکر کرنا ہی عقل مندی ہے۔ جذبات اپنی جگہ مگر حقائق کو بھی
نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
بیواؤں کے نکاح میں ایک بڑی رکاوٹ ان کے گھر والے بھی ہوتے ہیں۔ وہ بے چاری
شرم وحیا کی وجہ سے نکاح کی خواہش کا اظہار نہیں کرپاتیں اور دوسری طرف گھر
والے بھی آنکھیں موند لیتے ہیں۔ یہ مجرمانہ غفلت ہے، کسی گھر میں جوان بیوہ
ہو اور گھر والے سکون کی نیند سوتے ہوں، یہ بہت افسوس ناک بات ہے۔ ایسے
گھرانوں کے سرپرستوں کی تو راتوں کی نیند اڑجانی چاہیے۔ اگر بیوہ نکاح پر
مائل نہ ہورہی ہو تب بھی سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ اسے مناسب طریقے سے
عقدثانی کے لیے راضی کریں۔ اسی سلسلے میں ایک افسوس ناک بلکہ قابل مذمت
معاشرتی رویے کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں بیواؤں کو ’’عیبی‘‘ تصور
کیا جاتا ہے، حالانکہ اگر کسی کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس میں اس بے
چاری کا کیا قصور ہے۔ بیواؤں کے لیے عموماً ایسے رشتے تلاش کیے جاتے ہیں جو
معروف معنوں میں ’’عیبی‘‘ ہوں۔ بوڑھے، جسمانی طور پر معذور یا ایسے لوگ جن
کی کسی وجہ سے شادی نہ ہورہی ہو، ان کو بیواؤں کے لیے فیورٹ سمجھا جاتا ہے۔
یہ سوچ سراسر جاہلانہ ہے۔ بیوہ بھی عورت ہے، اس کے لیے بھی ایسے رشتے تلاش
کیے جانے چاہئیں جو اس کی دوسری ہم عمر خواتین کے لیے کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی
سننے میں آیا ہے کہ بہت سی بیوائیں نکاح کی خواہش کے باوجود محض اس لیے
نکاح نہیں کرتیں کہ ان کے لیے بے جوڑ رشتے ڈھونڈے جاتے ہیں، نوجوان لڑکی
کسی بوڑھے ٹھیٹرے یا شرابی کبابی کی بجائے تنہا رہنے میں ہی بہتری سمجھتی
ہے۔
کوئی یہ نکتہ اٹھا سکتا ہے کہ یہاں تو کنواری لڑکیوں کے رشتے نہیں ہورہے،
بیواؤں کی فکر کون کرے؟ بلاشبہ یہ بات درست ہے مگر ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا
پڑے گا کہ رشتے نہ ہونے کی وجہ رشتوں کا موجود نہ ہونا نہیں ہے بلکہ شادی
کو پیچیدہ بنانے کی وجہ سے ہمیں اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اگر ہم
شادی کو سادی بنادیں تو بچیوں کے سروں میں چاندی اترنے کی بڑی وجہ ختم
ہوجائے گی۔ رشتوں کی کمی کے مسئلے کو دوسری شادی کو فروغ دے کر بھی حل کیا
جاسکتا ہے۔ اس موضوع پر زیادہ لکھنا ممکن نہیں، کیوں اخبار میرے گھر میں
بھی پڑھا جاتا ہے!
بیواؤں کے عقدثانی کا معاملہ ایسا نہیں ہے، جو ایک آدھ کالم سے حل ہوسکے،
اس کے لیے شاہ اسماعیل شہیدؒ اور مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒکی طرز پر مہم
چلانے کی ضرورت ہے۔ |