ذہنی اثاثے کی نقل مکانی

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے
یہ شعر پڑھتے ہی میرے ذہن میں ایک بات آئی کہ شاعر حضرات بڑے غریب اور نہایت ہی ناشکرے ثابت ہوئے ہیں ۔ اس میں ان کا قصور نہیں ہے۔ انسان کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ جس چیز تک پہنچ نہ ہو اس کی خواہش کرنا، اور جب اسے پا لینا تو یہ جان لینا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ۔اس کی تو کوئی حیثیت نہیں،اور پھر دل مچلنے لگتا ہے، پھر ارمان نکلنے لگتے ہیں۔۔۔ کچھ یہی حال پاکستانی عوام کا ہے۔۔۔ پاکستان ایک ایسا واحد ملک ہے جس میں ہر طرح کی ورائٹی پائی جاتی ہے۔ چاہئے وہ سیاست دان ہوں، انسان ہوں، غریب ہوں یا پھر جانور ہوں۔۔۔ہر ورائٹی اپنی قسم میں بڑی لاجواب اور پائیدار ہے ۔ انسانوں کو ہی لے لیں تین قسم کی انسان پائے جاتے ہیں ۔ پاکستان میں ، ایک بے وقوف طبقہ، دوسرا پڑھا لکھا طبقہ اور تیسرا جاہل اور تماشگیر طبقہ۔۔۔ بے وقوف طبقے میں پاکستانی عوام آتی ہے۔ جس کو تماشگیر طبقہ یعنی سیاست دان بڑے شوق سے استعمال کرتے ہیں ۔ یہ بے وقوف طبقہ دھوبی کے کتے جیسا ہے۔ جس کو اپنا سردرد دور کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، کچھ سیاست دان اس طبقے کو نسوار کی طرح منہ میں دبائے رکھتے ہیں اور کچھ تو پان کی طرح چبا کر پھینک دیتے ہیں۔ یہ بے وقوف طبقہ ریاکاری کے جذبات سے برہ مند ہیں ہر وقت دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں ، دھماکوں میں مرنے کے لیے خوشی سے تیار ہو جاتے ہیں نعرے لگانے میں بے حد مہارکھتے ہیں۔ یہ بے وقوف عوام ہی تو ہے جس سے سیاست دان اپنی روزی روٹی کا دستہ چلائے ہوئے ہیں ۔ انھیں کو سامنے لا کر ہمسایہ ممالک سے امداد کی اپیل کی جاتی ہے، اور یہی امداد خون کو گرم اور تر و تازہ رکھنے کے لیے استعمال ک جاتی ہے۔ غربت سے گھبرایا ہوا یہ طبقہ بالکل اس بے بس عورت کی طرح ھے جس کا شوہر چار چار شادیاں کر چکا ہو۔ مگر لاچار، بے بس اور کمزور عورت بولتی تھوڑا ہے بس نام نہاد مجازی خدا کے رحم و کرم پر زندگی گزار دیتی ہے۔۔۔

پاکستان کا دوسرا طبقہ ایسا ہے جس کو تعلیم نے بگاڑ دیا ہے۔ نازک حالات میں پاکستان کو اس پڑھے لکھے طبقے کی بے حد ضرورت تھی لیکن اسے موقع پر اس طبقے نے پاکستان کو مایوسی کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا۔ انھوں نے اس ملک سے نفرت کا اظہار کیا، اپنے حال کو مایوس کن اور مستقل کو تاریک سمجھتے رہے، اور فیصلہ کر بیٹھے کہ جو ہنر ہم نے پاکستان سے حاصل کیا ہے اس کا استعمال سمندر پا ر جا کر کریں گے ۔ اس پڑھے لکھے طبقے نے فلاح کے لیے کوئی کام نہ کیا بلکہ بیرون ملک مقیم ہونے کے لیے تیا ر ہو ھے۔ یہ لوگ ایسے ممالک کا چناؤ کرتے ہیں جو مالی لحاظ سے مظبوط ہوں، قانونی تحفظ مہیا کرتے ہوں اور اس کے علاوہ کرنسی سے شرح تبادلہ کم از کم ۷۰ فیصد زیادہ پیش کرتے ہوں ۔ایسے ممالک میں یہ پاکستانی پڑھا لکھا طبقہ اپنے ہنر کو استعمال کر کے ان کی اقتصادی حالت کو مظبوط تر سے مظبوط ترین بناتے ہیں۔ اس عمل کو Brain Drain یا دماغوں کی ہجرت کہا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ برین ڈرین کی ترکیب کسی بھی ملک کے لوگ اس وقت کرتے ہیں جب انھیں اپنے ممالک سے خاطر خواہ فائدہ نہ مل رہا ہو اور وہ اپنی Job Satisfaction کے لیے دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں۔

بے روزگاری اور دہشت گردی ایسے پھوڑے ہیں جو پاکستان میں پھٹ چکے ہیں۔ ان پھوڑوں نے پاکستانی عوام کو اذیت میں لپیٹ رکھا ہے۔ دہشت گردی میں پسی عوام ماری جارہی ہے اور بچی ہوئی پڑھی لکھی عوام اس بے روزگاری کے درد سے بچنے کے لیے باہر جانے کے لیے بے تاب ہے۔ اس طبقے میں ڈاکٹر، بینکار، صنعت کار، آئی ٹی کے ماہرین، اور دوسرے بہت سارے شعبوں کے ماہرین شامل ہیں ۔ جنہیں اپنا ملک’’ گھر کی مرغی دال برابر ‘‘لگ رہا ہے اور باہر مستقل سکونت اختیار کرنے کے خواہش مند ہے بلکہ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے ۳۶۰۰۰ پڑھے لکھے لوگ ہجرت کر کے مختلف ممالک میں بسیرا ڈل چکے ہیں ۔ بیرونی طاقتوں نے پاکستانی پڑھے لکھے نوجوانوں کی امیگریشن کی درخواستوں فراح دلی سے قبول کرنے کا شیوہ اپنا لیا ہے۔۔۔تا کہ ان کے ہنر کو استعمال میں لایا جا سکے اور پاکستان کو مزید پستی کی طرف دھکیل دیا جائے ۔ اس عمل کے تھوڑا گہرائی میں جائیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک گہری اور دور رس سازش کا جال بچھایا جارہا ہے۔۔۔ گورے نے "Devide and Rule} کے ذریعے طبقاتی معاشرہ کی بنیاد رکھی اس سازش کا مقصد صرف نا انصافی ، طبقاتی تعصب ملکی نفرت اور تقسیم کر نا تھا۔ گورے نے طبقاتی معاشرے کی سازش سے پاکستانی پڑھی لکھی عوام کے ذہنوں کو سراب کیا ہے۔۔۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ ہجرت کرنے یہ آمادہ ہوگئے۔ دوسروں الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ گورے نے پاکستانی بہترین ذہنی اثاثہ ڈالروں کے بدلے اپنے پاس بلا لیا ہے بالکل ایسے جیسے پرانے وقتوں میں نواب مہنگے داموں میں کوئی جاندار قسم کی طوائف خرید لاتے تھے۔۔۔ حکومت کو چاہئے کہ پاکستان کے قیمتی ذہنی اثاثے کو محفوظ کرنے اور کار آمد بنانے لیے کے لیے جو قر ضے نوجوانوں کو دیے جا رہے ہیں وہی قر ضے ان ہنر مندوں کو دیئے جایئں تا کہ اپنے ہنر سے یہ پڑھا لکھا طبقہ اپنا چولا بھی جلائے ا ور ملک و قوم کی خدمت بھی کرے۔
lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 38145 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.