بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اسلامی نظام حیات نے ایسی جامع اقدارمتعارف کرائی ہیں جو اس پورے نظام کا
خاصہ ہیں اور اس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔اسلامی تصورزندگی کا
وہ سیاسی نظام ہو کہ اقتصادی ڈھانچہ،مذہبی رسومات ہوں یا پھر معاشرتی
روایات کا مجموعہ یا مجرد انفرادی و اجتماعی شخصیت کی تعمیر کے منفرد زاویے
ہوں یا پھر تعلیمی سرگرمیوں کامرکزومحور ہو،غرض یہ اقدارایسے شاہ کلید ہیں
جن سے پورے نظام کے مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں اور انہیں جن جن مسائل کے
بڑے بڑے سے تالوں کے سوراخ میں گھماتے رہیں وہ تالے چشم زدن میں کھلتے
نظرآتے ہیں۔انسانی زندگی کی بے پناہ الجھی ہوئی معاشی واقتصادی ڈورکا بھی
ایک سرا اگر ان گرانقدراقدارکے ہاتھ میں تھما دیا جائے تووہ سارے گنجل ایک
ایک کر کے کھلتے اور سلجھتے چلے جائیں جنہیں صدیوں سے انسانی عقل نے
سلجھانے کی فکر میں اس قدر الجھادیاہے کہ بظاہر ان کا کوئی حل نظر ہی نہیں
آتااور اگرایک طرف سے کوئی سلجھاؤ کی صورت بنتی ہے تو چاروں دیگراطراف اسے
مزید گنجلک تر کر دیتے ہیں اور اس دلدل میں انسان ناک تک اتر کر قبر میں
سدھارجاتاہے اور منوں مٹی اگلی نسل کے کندھوں پر آن پڑتی ہے۔
مساوات برابری کو کہتے ہیں،یعنی سب انسان برابر ہیں ،اس لیے بھی کہ وہ سب
انسان ہیں اور اس لیے بھی کہ وہ سب ایک ہی باپ اور ماں کی اولاد ہیں۔مساوات
کا جو درس اسلام نے عالم انسانیت کو دیاہے وہ کسی اور نظریہ حیات میں نہیں
ملتا۔مذہب عیسائیت اس وقت دنیاکاسب سے بڑامذہب ہے لیکن آج تک اس مذہب کا
ایک پوپ بھی یورپ کے علاوہ سے نہیں آیاحالانکہ عیسائیوں کی بہت بڑی
تعدادہمیشہ سے افریقہ اور ایشیا سے متعلق رہی ہے،جبکہ اسلام کا پہلا موذن
ہی افریقہ سے تھا۔،یہوی مذہب میں کوئی داخل نہیں ہوسکتاسوائے اس کے کہ جو
یہودی عورت کے بطن سے ہو،ہندؤں نے انسانیت کو چارذاتوں میں تقسیم
کیاہواہے،پوری یورپی دنیاامریکہ سمیت انسانیت کاراگ الاپنے والے کسی
غیریورپی و غیرہ امریکی فردکولالچ اور مطلب کے بغیر اپنی قومیت دینے پر
آمادہ نہیں ہیں اور نہ ہی اسے اپنے ملک میں داخل ہی ہونے دیتے ہیں،غرض
دنیاکاہر مذہب ہر قانون اورہر ضابطہ انسانوں کے درمیان فرق کرتاہے لیکن
واحد اسلام ایک ایسانظریہ حیات ہے جس میں محض ایک کلمہ میں بیان کی گئی
حقیقتوں کااقرارکرلینے سے کسی بھی فرد کو وہ تمام حقوق و مراعات حاصل
ہوجائیں گے جو صدیوں سے قائم مسلمان معاشرے کے اندرکسی بھی فرد کو حاصل
ہیں۔قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے کہ:
’’لوگوہم نے تم کوایک مرداورایک عورت سے پیداکیااورپھرتمہاری قومیں اور
برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔درحقیقت اﷲ تعالی کے نزدیک تم
میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ متقی
ہے،یقیناََ اﷲ تعالی سب کچھ جاننے والااورباخبر ہے۔‘‘49سورۃ حجرات آیت13
’’لوگواپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیداکیااور اسی جان سے اس کا
جوڑا بنایااور ان سے بہت سے مرداورعورتیں دنیامیں پھیلادیے ۔‘‘4سورۃ نساء
آیت1
’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کوبزرگی دی اور انہیں خشکی و تری
میں سواریاں عطاکیں اور انکو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیااوراپنی بہت سی
مخلوقات پر فوقیت بخشی۔‘‘17سورۃ بنی اسرائیل آیت70
’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یازمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور
وجہ سے قتل کیا تو اس نے گویاتمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی کو
زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخژ دی۔‘‘5سورۃ مائدہ آیت32
’’تم میں سے جولوگ صاحب فضل ہیں اور صاحب مقتدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ
کھابیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار،مسکین اور مہاجر فی سبیل اﷲ لوگوں کی مدد نہ
کریں گے۔‘‘24سورۃ نورآیت22
’’کیاتیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟؟دنیاکی زندگی میں ان کی
گزربسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں،اوران میں سے کچھ
لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہافوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے
خدمت لیں اور تیرے رب کی رحمت اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو یہ سمیٹ رہے
ہیں۔‘‘43سورۃ الزخرف آیت32
’’اور نگاہ اٹھاکر بھی نہ دیکھو دنیاوی زندگی کی اس شان و شوکت کوجو ہم نے
ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے ،وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں
ڈالنے کے لیے دی ہے اورتیرے رب کا دیاہوارزق حلال ہی بہتراور پائندہ
ترہے۔‘‘20سورۃ طہ آیت131
معاشیات میں مساوات انسانی فطرت کے برعکس ہے،وہ اس لیے کہ معاش کا تعلق پیٹ
سے ہے اور پیٹ ہر ہر شخص کا برابر نہیں ہوتا،ہر ہر فرد کی بھوک الگ الگ
ہے،ہرہرفرد کی اکل و شرب میں پسندناپسند الگ الگ ہے اور ہرہرفردکی
جسامت،اسکے کام کی نوعیت اور ذہنی و جسمانی مشقت کے بعد جسم کے اکلی وشربی
تقاضے مختلف ہیں۔اس کے باوجود بھی اسلام نے معاشی نظام کو اس حد تک
پابندکیاہے کہ بنیادی ضروریات کے میدان میں معاشرے کے سب باشندوں کو برابر
کے حقوق میسرہوں۔ سب کم ازکم پیٹ بھرکرسوئیں،بیماری کے عالم میں سب کو علاج
کی کم ازکم سہولیات ضرور میسرہوں،بغیرکسی تفریق کے سب بچوں کوکم ازکم
بنیادی تعلیم کے مواقع حاصل ہوں وغیرہ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگرکسی بستی میں
کوئی بھوکاسوگیاتو اس پر سے اﷲ تعالی ذمہ داری ختم ہوگئی۔اسی طرح ایک اور
حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ روزقیامت اﷲ تعالی پوچھے گاکہ
میں بھوکاتھا تو نے مجھے کھانانہیں کھلایا؟؟بندہ کہے گااے بارالہ تو تو
بھوک سے پاک ہے تب اﷲ تعالی جواب دے گا کہ میرافلاں بندہ بھوکا تھا اور
تجھے معلوم تھا پس اگرتواسے کھانا کھلاتاتو وہاں مجھے پاتا،پھراﷲ تعالی
پوچھے گاکہ میں بیمارتھاتونے میری عیادت نہیں کی؟؟بندہ کہے گاتوتواس کمزوری
سے پاک ہے کہ بیمارہو،اﷲ تعالی جواب دے گا کہ میرافلاں بندہ بیمارتھااگر تو
اسکی بیمارپرسی کرتاتو وہاں مجھے پاتا،پھراﷲ تعالی پوچھے گاکہ میں
ننگاتھاتونے مجھے کپڑے نہیں پہنائے ؟؟تب بندہ کہے گاکہ توکیسے ننگاہوسکتاہے
اس پر اﷲتعالی کہے گامیرافلاں بندہ ننگاتھااگرتواسکی سترپوشی کرتا تو وہاں
مجھے پاتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فکروفلسفہ و نظام عمل نے معاشرتی مساوات کے ذریعے سے
معاشی عدم مساوات کے خاتمے کی کوشش کی ہے ،جیسے نماز ،روزہ،حج۔زکوۃ اور
جہاد کے اجورثواب میں امیراور غریب کو اکٹھاکر دیاتقوی،ذکر،فکر،عبادت و
ریاضت اورحصول علم کے درجات میں امیروغریب کو اکٹھاکر دیا،فکرآخرت اوراتباع
نبوی ﷺ میں امیرو غریب کو جمع کردیا۔لیکن اس طرح بھی معاشی مساوات کا خواب
ایک دھوکہ کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا،جن جن انسانی دانشوروں نے معاشی مساوات
کے نعرے لگانے کی کوشش بھی کی ہے تو منہ کی کھائی ہے کیونکہ انسانی فطرت کے
خلاف کوئی عمل دیرپانہیں ہوسکتا۔لیکن اس سے یہ مراد بھی نہیں لینی چاہیے کہ
اسلام کا جھکاؤ سرمایاداری نظام کی طرف ہے اس لیے کہ دوزخیوں کی طرف جب
زہریلے جانور بڑھیں گے تو وہ دور بھاگے گا تب وہ جانور کہیں گے کہ ہم وہی
تو سرمایا ہیں جو دنیامیں سینت سینت کر رکھتاتھااب ہم سے دور کیوں
بھاگتاہے؟؟۔ ایک بار غریب مسلمانوں کا ایک وفد خدمت اقدسﷺ میں حاضر ہوااور
عرض کی امیرلوگ تو خوب نیکیاں سمیٹ گئے کیونکہ نمازیں ہم بھی پڑھتے ہیں وہ
بھی،روزے ہم بھی رکھتے ہیں وہ بھی لیکن وہ اﷲ تعالی کے راستے میں خرچ کرتے
ہیں جب کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔آپ ﷺ نے ان مسلمانوں کو چنداذکار
تعلیم فرمادیے کہ نماز کے بعد یہ یہ اذکار پڑھ لیاکرو تو آپ لوگوں کو بھی
اتنا ثواب مل جایاکرے گا۔کچھ عرصے کے بعد وہ لوگ پھر حاضر خدمت ہوئے اور
عرض کی کہ یارسول اﷲﷺ ہمارے ماں پاب آپ پر فداہوں وہی اذکارتوامیرلوگوں نے
بھی شروع کر دیے ہیں،اس پر محسن انسانیت ﷺ نے قرآن مجید کی آیت ارشاد
فرمائی کہ یہ اﷲ تعالی کا فضل ہے وہ جس کو چاہے جتنادے۔پس خدائی تقسیم اٹل
ہے وہ کسی کو وسائل حیات دے کر آزماتاہے تو کسی کومحروم کرکے اور کسی کارزق
دوسرے کے دسترخوان پر اتارتاہے اوردیکھتاہے کہ حق حقدارتک پہنچاکہ
نہیں۔درحقیقت یہ دنیادارالامتحان ہے جبکہ دارالجزا کہیں اور ہے۔ |