ڈاکٹر ایم اعجاز علی
سابق ایم پی راجیہ سبھا
سرپرست آل انڈیا یونائٹیڈ مسلم مورچہ
یہ دونوں دفعات آئین میں کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ دفعہ370جموں کشمیر سے
جُڑا ہوا ہے۔ حالانکہ بغل کا دفعہ 371بھی شمالی مشرقی ریاستوں کے لئے اُتنا
ہی اہم ہے لیکن پچھلے66سالوں سے صرف دفعہ 370ہندو فاسٹوں طاقتوں کے نشانے
پر رہا ہے۔ جبکہ عام مسلمانوں کو یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ آخر جب
دفعہ370کو آئین میں جگہ ملی ہوئی ہے تو پھر تنازعہ کیسا؟ اور جب تنازعہ
دفعہ370 پرہے تو پھر دفعہ 341 پرکیوں نہیں؟ یہ دوغلی بات کیوں ہو؟ بہر حال
اس مضمون کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جن طاقتوں کے نظروں میں دفعہ370کھٹکتا
ہے اُن کو دفعہ 341کیوں نہیں نظر آتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا
سکتا ہے کہ دفعہ370کے معاملہ کو اسلئے تنازعہ کا شکار بنایا جاتا ہے کیوں
کہ اس ریاست میں مسلمانوں کی آبادی بہت زیادہ ہے اور انہیں آئینی آزادی بھی
ہے۔ ان کی آبادی و آزادی ،فاسٹ طاقتوں کو اگر کھٹکتی ہے تو پھر دفعہ 341پر
لگی مذہبی قید کیوں نہیں نظر آتی ہے جس نے بھارتیہ مسلمانوں کی بڑی آبادی
کو دلتوں سے بھی پیچھے کرنے کا کام کیا۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ آئین
ہند نے ملک کے تمام شہریوں کو برابری ، مذہبی آزادی اور یکساں مواقع کی
بنیاد ی حقوق ہے۔ دفعہ 12سے لے کر دفعہ 35تک کے بنیادی دفعات کے ذریعہ
حکمراں حماعت کو اسی بات کی تنبہہ کر دی ہے کہ ان دفعات کو کنارے کر کسی
طرح کاآرڈرلاناغیر آئینی ہوگا ۔ لیکن ان آئینی وارننگ کے باوجود 10اگست
1950کو مرکزی سرکار نے ایک صدارتی حکم نامہ لایا گیا جس کے پارا3میں یہ
لکھا گیا کہ دفعہ 341کے تحت ملنے والی مراعات (ریزرویشن) و قانونی تحفظ صرف
ان کو ملے گا جو ہندومذہب کے ماننے والے ہیں۔ واضح ہو کہ جب 1950میں آئین
نافذ ہوا اس وقت دفعہ 341،342کے تحت ہی قومی پیمانے پر ریزرویشن دینا طے
کیا گیا تھا۔ یہ دونوں ریزرویشن دراصل 1936میں انگریزی حکومت نے ڈاکٹر
امبیڈکر کی پہل شروع کیا تھا۔ حالانکہ ڈاکٹر امبیڈکر اچھوتوں کی لڑائی لڑتے
تھے لیکن انگریزوں نے ریزرویشن استحصال زدہ طبقات(DepressedClass) کے نام
سے دیا تھا جس میں پیشے کی بنیاد پر لسٹ ( فہرست) بنایا گیا۔ شروع میں اس
ریزرویشن کا دائرہ بہت وسیع تھا اور اس پر کسی طرح کا مذہبی قید نہیں رکھا
گیاتھا۔ مسلمانوں کی زیادہ ترآبادی چونکہ پیشہ ور ہے اس لئے 1936کے آرڈ ر
کے مطابق تیار کردہ لسٹ میں مسلمانوں کی بڑی آبادی شامل تھی اور مہاراشٹر
میں مسلمان اس کا فائدہ بھی اٹھارہے تھے لیکن ستم طریفی تو یہ ہے کہ آئین
میں اس ریزرویشن کو دفعات 340,341,342تین گروپ میں توڑا۔ لیکن اس وقت
دفعہ340کے تحت تو کسی ریزرویشن کا انتظام نہیں تھا اسلئے جو آبادی اس خیمے
میں ڈالی گئی اُسے تو ریزرویشن 42سال بعد ، 1992میں منڈل کمیشن کے ذریعہ
ملا ۔ دفعہ341، دفعہ 342 کے زمرے میں تو 1950 سے ہی ریزرویشن ملا لیکن ان
دو زمرے میں توڑنے کااثر یہ ہوا کہ زیادہ تر مسلم آبادی دفعہ341کے دائرے
میں چلی گئی تھیں۔ زمرے میں تو ڑ ے جانے کے بعد دفعہ 341و 342دونوں پر
10اگست1950کو مذہبی قید لگا یا گیا۔ حالانکہ دفعہ 342سے 1952میں ہی مذہبی
قید ہٹا لیا گیا( تبھی تو کشمیر میں گُڈوال، گھوڑوال ، بکروال، گوجر، گدی
جیسی پیشہ ور جماعتیں STریزرویشن کی حق دار ہیں)لیکن دفعہ 341پر لگا یا گیا
مذہبی قید آج بھی جاری ہے۔ اس مذہبی قید کے نشانے پر مسلمانوں کی بڑی آبادی
تھی جو اپنے بنیادی ریزرویشن سے محروم ہوگئی۔ حالانکہ مذہبی قید کے چلتے
مسلمانوں کے ساتھ سکھ ، بودھ ،عیسائی بھی اس زمرے سے باہر ہوگئے لیکن ان کی
آبادی ہی کہاں تھی لہٰذا نشانے پر وہ نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کی بڑی آبادی
تھی جس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ بعد میں سکھوں و بودھوں کو دوبارہ شامل کر لیا
گیا لیکن مسلمانوں کی تقریباً 16کروڑ آبادی آج بھی اس زمرے سے باہر ہے۔بلکہ
ان مسلمانوں کے گردن پر تو یہ تلوار بھی لٹکی ہوئی ہے کہ مذہب بدل کر
ہندوازم قبول کرو تو یہ مراعات دی جائیگی۔ یہ دوسری شرط 23-7-1959سے نافذ
ہے۔ یہ دونوں آرڈر دراصل آئین کی روح کے خلاف ہے اور بنیادی حقوق کے دفعات
14,15,16,25کے منافی ہے لیکن جبراً اسے نافذ بھی کیاگیا اور جبراً ابھی بھی
جاری ہے ۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے بھی ان چاروں بنیادی حقوق کے د فعات کے
آئینے میں دفعہ341پر لگی پابندی کا جواز ،گذشتہ 21-01-2014کو مرکزی سرکار
سے جاننا چاہا یا لیکن آج تک سرکار نے جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔ یہ اپنے
آپ میں سپریم کورٹ کی ہتک عزّتی ہے لیکن معاملہ تو یہ ہے کہ دفعہ
341پرمذہبی قید در اصل ایک بہت بڑی سازش کی غمازی کرتا ہے، اسے یہ کیوں
ہٹائیں۔ اسے ہٹانے کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کو وہی ریزرویشن ملنے لگے گاجو
دلتوں یا آدیباسیوں کو ملتا ہے ، ساتھ ہی ساتھ یہ SC/ST Actکے دائرے میں
آجائیں گے تو پھر فرقہ فسادات ہی مکمل طو رپر بند ہوجائے گاجسے وہ بند نہیں
کرنا چاہتے ۔ بہرحال سوال یہ اٹھتا ہے کہ دفعہ341کا معاملہ پورے ملک کے
مسلمانوں کی بقا سے جڑا ہوا ہے تو پھر صرف دفعہ 370کو نشانہ بنانا کہاں کا
انصاف ہے ۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ دفعہ 370کے معاملہ کو اٹھاکر فاسٹ طاقتیں
مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دفعہ341پر لگی مذہبی پابندی
کے خلاف اگر کشمیر کے لوگ تحریک چلاتے ہیں تو پوری دنیا میں یہ پیغام جائے
گا کہ صرف کشمیر کے مسلمان ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے مسلمان مرکزی سرکار کے
ایک آئین مخالف آرڈر ( صدارتی حکم نامہ 1950)کے چلتے گذشتہ 65سالوں سے نا
انصافی کے شکار ہیں اور دلتوں سے بد تر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
|