ہم ا من کی پیاس سے اتنے بد حال ہیں اور ہماری جان لبوں
پر ہے کہ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کچھ لوگ کیوں مذاکرات کے سراب سے دھوکہ
کھاتے رہے ہیں ،اس ناتوانی کے عالم میں ہمارا اجتماعی ذہن سوچنے، سمجھنے،
اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ
دہشت گردی کی کہانی مسلسل جاری کسی ڈرامہ سیریل کی مانند ہم دیکھتے رہے ہیں
۔جس مقام پر ہم اس وقت کھڑے ہیں وہ اونچی چٹان کا آخری کنارہ ہے کہ ایک قدم
غلط اُٹھایاتو گہری کھائی میں جا گریں گے۔ایسے لمحے جب پہلے آئے تھے تو
صورت حال اتنی سنگین نہیں تھی ۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک نئے باب کا آغاز اس
وقت ہو ا جب گزشتہ سال 9 ستمبر کو کل جماعتی کانفرنس نے اتفاق رائے سے
مذاکرات کا مطالبہ کیا ۔اب افواج پاکستان نے اس کے بعد کی دہشت گردی کے
اعداد و شمار جاری کیئے ہیں ،ان واقعات میں 460بے گناہ افراد ہلاک ہوئے،ان
میں سے308عام شہری،114فوجی،اور38 پولیس اہلکار شامل ہیں ۔کمال کی بات یہ ہے
کہ دہشت گردی کی اس لہر میں سونامی کی سی شدت اس وقت پیدا ہوئی جب گزشتہ
مہینہ کے شروع میں مذاکرات کے لیئے حکومت اور طالبان نے اپنی کمیٹیاں قائم
کیں۔پہلے تو طالبان نے کراچی میں پولیس اہلکاروں کی بس پر حملے کی ذمہ داری
قبول کی اور پھر وہ ناقابل یقین المیہ ظہور میں آیا کہ فرنٹیر کو رکے
ان23سپاہیوں کے گلے کاٹ دیئے گئے جو طالبان کی قید میں تھے ۔گزشتہ ہفتے
شمالی وزیر ستان کے کچھ علاقوں پر پاک فضائیہ نے جو بمباری کی ہے اور جس
میں کئی دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کی خبر ہے تو فوری طور پر باقائدہ کسی
آپریشن کا اعلان نہیں کیا گیا۔کچھ اشارے ایسے ہیں جن سے لگتا ہے کہ موجودہ
حکومت کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے ،ویسے یہ پیمانہ شائید کسی مٹکے سے
بھی بڑا ہے اور ممکن ہے کہ اس میں اب بھی کوئی گنجائش باقی ہو ۔ لیکن جہاں
تک حساس اور بالغ رائے عامہ کا تعلق ہے تو یہ بات انہیں ہمیشہ سے معلوم تھی
کہ مذہبی انتہا پسندی، عدم برداشت، اور قرون وسطیٰ کی فرسودہ روایات کو
پالنے کے نتائج کیا ہو ں گے ۔اب گزشتہ ہفتے طالبان کے اس ویڈیو کے بارے میں
چند اخباروں میں خبر شائع ہوئی کہ جس میں چترال میں رہنے والے چھوٹے سے
کیلاش قبیلے اور اسمعیلیٰ برادری کو خوفناک دھمکیاں دی گئی ہیں۔کیا اس خبر
نے حکمرانوں اور پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ؟ بالکل نہیں۔پیر کے دن جب
طالبان کی ویڈیو کی خبر مل چکی تھی ،تو پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے ممبران
اگر غصے میں تھے تو اس کی وجہ کچھ اور تھی ایک تو انہیں یہ شکایت تھی کہ
پارلیمنٹ لاجز کی دیکھ بھال ٹھیک سے نہیں ہو رہی،دوسرا انہوں نے عمران خان
کے ایک بیان پر شدید احتجاج کیا کہ جس میں تحریک انصاف کے سر براہ نے کوئی
ایسا بیان دیا تھا جس میں سینیٹ کے ممبران کی نظر میں ان کی تضحیک کی گئی
تھی ۔یہ شائید اس حقیقت کا ایک پہلو ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے اور حکمران
کسی اور دنیا میں رہتے ہیں ۔خدا جانے وہ موجودہ حالا ت میں خود کو محفوظ
کیوں سمجھتے ہیں ۔یہ دیکھ کر خود کو تسلی ہوئی کہ چیف جسٹس تصدق حسین
جیلانی نے طالبان کے ویڈیو کا از خود نوٹس لیاہے،اور گزشتہ ہفتے انہوں نے
اٹارنی جنرل اور خیبر پختونخواہ کے ایڈووکیٹ جنرل کو اس سلسلے میں نوٹس
جاری کیئے ہیں ۔خدا کرے اسی بہانے پاکستان کت شہریوں کو معلوم ہو جائے کہ
چترال کی جنت نظیر وادی پر کس نوعیت کے جہنمی سائے منڈلا رہے ہیں ۔غور سے
دیکھیں تو یہ تاریک سائے پورے ملک پر پھیلے ہوئے ہیں۔وزارت داخلہ نے قومی
اسمبلی میں ایک رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ پورا ملک دہشت گرد حملوں
کے خطرے سے دوچار ہے ،اور مشرقی اور مغربی سر حدوں سے دہشت گردوں اور
ہتھیاروں کی آمد جاری ہے ،رپورٹ میں یہ واضح کہا گیا ہے کہ سندھ،پنجاب، اور
خاص طور پر اسلام آباد کو دہشت گرد تنظیموں سے خطرہ ہے ۔ایک خوفناک انکشاف
یہ ہے کہ اسلام آباد میں القائدہ،طالبان،لشکر جھنگوی کے خوابیدہ سیل مو جود
ہیں ۔طالبان کی اس یلغار سے پہلے بھی کراچی امن و امان کی حد تک ایک قبائلی
علاقہ رہاہے ۔کراچی میں جو آپریشن اتنے دنوں سے جاری ہے اس کے تسلی بخش
نتائج ابھی تک حاصل نہیں ہو رہے ۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بیج صرف ان
مدرسوں میں ہی نہیں بوئے جاتے جہاں غریب اور محروم خاندانوں کے بچے تعلیم
حاصل کرتے ہیں،یہی خودکش بمباروں کی فصل کاٹی جاتی ہے لیکن ایسے پڑھے لکھے
نوجوان ہیں جو مذہبی جذبے کے تحت جہادی منصوبوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔اصل
مئسلہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ کیسا ہے اور کدھر جا رہا ہے اس کو سمجھے بغیر
حکمرانی کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا،یعنی ہر کام کے کچھ اصول و قوانین ہو تے
ہیں جن کی پابندی لازمی ہوتی ہے اور وہ اصول و قوانین کیا ہیں جو ایک
معاشرے کو مہذب بنانے کے لیئے ضروری ہیں ۔
|