جعلی مسلمان

اس بات میں کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں کہ پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک جن جن لوگوں نے ہم پر حکمرانی کی ہیں۔ ان میں اکثریت کے سینے خوف خدا اور حب وطن سے خالی نظر آئے۔ اور شائد یہی وجہ ہیکہ آج اکیسویں صدی جیسے ترقیافتہ دور میں بھی پاکستان انتہائی اہم اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی میں باقی دنیا سے کافی پیچھے ہے۔ آج پاکستان کے کسی بھی شعبے پر اگر نظر ڈالی جائے تو بہتری کے اثار بہت کم نظر آتے ہیں۔ تعلیم، صحت، صاف پانی، امن و امان کی صورتحال سمیت کوئی بھی پہلو ایسا نہیں ہیکہ جس کے بارے میں بندہ کوئی اچھا امید قائم رکھے۔ لیکن سوال یہ ہیکہ یہ سب کچھ آخر ہم اہل پاکستان کا مقدر کیوں؟ تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ہم عوام کا بھی بہت بڑا قصور ہے۔ اقبال نے تو بہت پہلے کہا تھا کہ :
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔

تو بات ہی دراصل یہ ہے کہ عوام خود ہی نہیں چاہتی کہ انکے حالات سدھر جائیں۔ اب جب عوام ہی اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہوجائے تو پھر تو نااہل حکمرانوں کا ہمارے اوپر مسلط ہونا باعث تعجب نہیں۔ اور یہی کچھ آجکل ہورہا ہے کہ نہ عوام صحیح اور نا ہی حکمران۔ مثلاً: پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اسی نظریئے کی وجہ سے ہی آزادی وطن کے وقت لاکھوں لوگوں نے خوشی خوشی جان دے دی۔ اس لیے کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہماری قربانیوں سے بننے والا ملک پاکستان کل اسلام کا قلعہ اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا بنے گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آج ہر پاکستانی کو کردار کے لحاظ سے غازی ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ نظریہ پاکستان اور بزرگوں کی قربانیوں کا ہم سے اول روز سے ہی یہ تقاضہ ہیکہ ہم اس پاک وطن میں کوئی ایسا کام نہ کریں، جن سے شیطان اور اس کے چیلے خوش ہوجائے۔ لیکن آفسوس کہ ایسا کچھ نہ ہوسکا جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں۔ مثال کے طور پر چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ اس سے آپ خود اندازہ لگائیں کہ ہم کس جانب محو پرواز ہیں۔ (1) کچھ دن پہلے خبر آئی تھی کی مزار قائد کے عین نیچھے جہاں قائد کا قبر موجود ہے، اس قبر کے برابر والے کمرے میں نوجوان جوڑے روز پیسے دیکر ’’پیاسِِ،، بجھانے آتے ہیں اور فراغت حاصل کرنے کے بعد تشریف لیکر چلے جاتے ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ مزار قائد کا انتظام و انصرام کس کے ہاتھ میں ہے اور یہ کہ ایسا کوئی کام ان کے تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ بقول شاعر کہ : گھر کو آگ لگ گئی گھر کی چراغ سے (2) رکن پارلیمان جمشید دستی نے انکشاف کیا ہیکہ پارلیمنٹ لاجز میں سالانہ چار،پانچ کروڑ روپے کی شراب پی اور پلائی جاتی ہیں۔ جناب دستی نے اس حوالے دو، تین نام بھی افشاء کیئں ہیں بلکہ انہوں نے اس حوالے سے ثبوت بھی اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کردئیں ہیں۔ جمشید دستی کے ان انکشافات کے بعد بخوبی اندازہ لگاہا جاسکتا ہے کہ: آئین پاکستان کے تحفظ کا حلف اٹھانے والوں کا دامن کس قدر داغدار ہیں۔ لیکن اس سے بڑھکر جو بات آفسوس ناک ہے۔ وہ یہ کہ جو ارکان اس ’’ کار خیر،، میں حصہ لے چکے ہیں۔ ان کو منتخب کرنے والے ہم عوام ہی ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیکہ ہم اپنے بزرگوں کی قربانیوں کوکس قدر اہمیت دیتے ہیں۔ ایک اور خاص بات کہ جسکی وجہ سے میں یہ کالم لکھنے پر مجبور ہوا وہ ایشیاء کپ کے پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش کے حوالے سے نظر قارئین ہیں۔ منگل 4 مارچ کو جو میچ پاکستان نے بمقابلہ بنگلہ دیش کھیلا ۔ وہ اس لحاظ سے تو اچھا تھا کہ پاکستان جیت گیا تھا۔ لیکن اسکا جو آفسوس ناک پہلو ہے اسے بہت کم لوگوں نے توجہ دی ہیں۔ جس وقت مذکورہ میچ نے سنسنی خیز شکل اختیار کیا۔ اس وقت کراچی میں عشاء کی اذانیں ہورہی تھیں۔ لیکن آفسوس کہ مسلمانان پاکستان کے ایک بڑے طبقے نے اذانوں کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی وہ بدستور کھیل سے ’’لطف اندوزِِ،، ہوتے رہے۔ ایک بات جو میں نے خود نوٹ کی ۔ وہ یہ کہ ایک مسجد سے جب حی علی الصلوۃ کی صدا بلند ہوئی ، تو عین اسی وقت قریب ہی واقع ہوٹل سے تالیاں بجانے کی زوردار آواز کے ساتھ زبردست نعرے بازی کی گئیں۔ شائد اس وقت شاہد آفریدی نے کوئی زوردار اسٹروک کھیلا تھا۔ اس کے بعد جب جماعت کھڑی ہونے کا وقت قریب آیا تو میں نے دوچار مساجد کا سروے کیا ۔ آپ یقین کیجیئے کہ دو مساجد میں نمازیوں کی تعداد بالترتیب پانچ اور چھہ رہی۔ جبکہ آخری مسجد جس میں مین نے خود بھی نماز آدا کی اس میں بمشکل تمام ایک صف ہی نمازیوں سے بھر گیا تھا۔ حالانکہ عام دنوں میں اس مسجد میں تین ، ساڑھے تین صف نمازی موجود ہوتے ہیں۔ ان مساجد کے قریب جو دو ہوٹل واقع ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تین سو سے لیکر ساڑھے تین سو تک تماش بین ان دو ہوٹلز میں موجود تھے اور انہوں نے یہ بھی نا سوچا کہ قریب ہی واقع مساجد میں نماز ہو رہی ہیں بلکہ وہ بدستور شور غوغا کرتے ہوئے میچ سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ کچھ اور علاقوں میں موجود دوستوں سے جب معلوم کیا ، تو پتہ چلا کہ اس دن مساجد میں نمازیوں کی شدید قلت رہی۔ واضح رہے کہ ان دنوں کراچی کے بیشتر علاقوں میں عشاء کی نماز 8 بجکر 30 منٹ پر ادا کی جاتی ہیں۔

نماز اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے اور علماء کرام فرماتے ہیکہ مرنے کے بعد سب سے پہلا سوال نماز ہی کے متعلق کیا جائے گا۔ لیکن ہم اس اہم اور بنیادی ذمہ داری سے کس قدر غا فل ہیں اسکا اندازہ آپ مذکورہ بالا واقعے سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔ جب ایک انتہائی اہم فریضے کی بجاآوری سے ہم بحیثیت مجموعی قاصر ہیں۔ تو پھر ہمارا یہ رونا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا کہ ہمارے حالات ٹھیک نہیں۔ لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے حالات درست ہوجائے تو سب سے پہلے ہمیں خود کو ٹھیک کرنا ہوگا اور اﷲ تعالیٰ سے ٹوٹا ہوا تعلق دوبارہ جوڑنا ہوگا۔ اگر ہم نے اﷲ پاک سے اپنی گناہوں کی معافی مانگ لی تو امید ہیکہ وہ عظیم ذات بھی ہمارے اوپر رحم کردے گا۔ لیکن اگر ہم یونہی غفلت میں پڑے خواب خرگوش سوئے رہے تو پھر خطرہ ہے کہ کہیں اﷲ پاک کا عذاب ہم پر نازل نہ ہوجائے۔

Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 105459 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More