سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال کے
کارناموں میں سب سے بڑھ کر پریڈی اسٹریٹ کی تعمیر ہے۔ جس کے ذریعہ کراچی کے
عوام کو بندر روڈ کے متبادل ایک نیا راستہ ملا ہے۔ ابھی اس سڑک پر کئی
مسائل ہیں۔ سب سے بڑھ کر تو یہ کہ اس سڑک کی تعمیر سے لائینز ایریا کی
آبادی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ دونوں طرف کی آبادی کو ایک دوسری طرف جانے
کے لئے سڑک پر نہ تو درمیان میں کوئی کٹ دئے گئے ہیں، اور نہ ہی بچوں،
خواتین کو آنے جانے کے لئے کوئی محفوظ راستہ جس کی وجہ سے آئے دن حادثات کا
دھڑکہ لگا رہتا ہے۔ صدر میں ایمپریس میں ٹریفک آکر پھنس سا جاتا ہے۔ بس
والے بسوں کا آڑھا تیڑھا کر کے راستہ بند کردیتے ہیں۔ جس کے لئے ٹریفک
پولیس بھی بے بس نظر آتی ہے۔ نو تعمیر شدہ پریڈی اسٹریٹ صدر میں قائم
پتھارے، ٹھیلے اور دیگر تجاوزات قائم ہیں۔ جن سے سٹی حکومت کے اہلکار گزشتہ
چار دن سے نبرد آزما ہیں۔ اور اب یہ جگہ میدان جنگ بنی ہوئی ہے۔ دو دن پہلے
تجاوزات کرنے والوں نے فائرنگ کر کے ٹریفک مینجمنٹ پر مامور سٹی وارڈنز کے
6 اہلکاروں کو شدید زخمی کردیا تھا۔ جس کے باعث پریڈی اسٹریٹ صدر میں ٹریفک
معطل ہوگیا۔ اب بھی یہاں پولیس مامور ہے۔ اور کسی بھی ناخوشگوار حادثہ کا
امکان ہے۔ سٹی حکومت، اور ڈی سی او شہر سے گرانی، ذخیرہ اندوزی، ناجائز
منافع خوری کے خاتمے کے لئے سرگرداں ہیں۔ لیکن پھل فروش، سبزی فروش، دودھ ،چینی،
گوشت بیچنے والے اب کسی کی نہیں سنتے، قانون ان کے لئے موم کی ناک ہے، جسے
جب چاہے رشوت اور بھتہ دے کر جیسے چاہے موڑا جا سکتا ہے۔ رمضان المبارک میں
افطار اور سحر کے موقع پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگی عذاب کردی ہے۔
اس مستداد یہ کہ حکومت نے رواں سال اکتوبر سے بجلی کے نرخ میں بتدریج مزید
24 فیصد اضافے کا فیصلہ کرلیا ہے جس سے مجموعی طور پر بجلی کا ہر یونٹ 24
فیصد مہنگا ہوجائے گا۔ بجلی کے نرخوں میں اضافہ ان چند شرائط کا حصہ ہے جو
عالمی مالیاتی فنڈ نے حکومت پاکستان کو اضافی قرض فراہم کرنے کے لیے مقرر
کی تھیں۔ اس طرح حکومت کی جانب سے بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کردی
جائے گی۔
آٹے کے لئے پریشان اور غریب لوگوں کو ایک وزیر کی جانب سے تھپڑ مارنا باعث
افسوس ہے۔ چینل پر عوام کی بے توقیری کے مناظر عام ہیں۔ عوام کو آٹا بھیک
کی صورت میں دیا جا رہا ہے۔ حکومت گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کے خاتمے
میں ناکامی کا غصہ عوام پر نکالا جارہا ہے۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے کے
مؤثر اقدامات کرنے چاہیے تھے۔ شہریوں کو رعایتی قیمت 10روپے فی کلو کے حساب
سے آٹے کی فروخت ایسے بے ہنگم طریقے پر کی جارہی ہے، جس سے حکومت کا امیج
متاثر ہورہا ہے۔ اس پر عوام کے غم وغصے کا اندازہ اس سے کیا جاستا ہے کہ اب
تک سستے آٹے کے پانچ ٹرک عوام کی جانب سے لوٹے جاچکے ہیں۔ پھر اس آٹے کی
چور بازاری بھی ہورہی ہے۔
مہنگائی کے خلاف سٹی حکومت کے مجسٹریٹس نے گرانفروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن
جاری کر رکھا ہے۔ علاقوں میں اچانک چھاپے مار کر دکانداروں کو گرفتار کر کے
جیل کی سزا سنائی جارہی ہے۔ گرانفروشوں کے چالان کر کے لاکھوں روپے جرمانہ
کیا جارہا ہے۔ لیکن شہریوں کو مقررہ قیمتوں پر آٹا، چینی، فروٹ، سبزی اور
کریانہ آئٹمز کی دستیابی نہیں ہورہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر کراچی
سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزراﺀ ، مشیروں اور اراکین سندھ اسمبلی پر مشتمل
4 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو رمضان المبارک کے دوران قیمتوں کی نگرانی کریں
گی اور مختلف مارکیٹوں میں چھاپے ماریں گی۔ لیکن حکومت نے اس کوڑے کو بہت
تاخیر سے حرکت دی ہے۔ اب جبکہ پورا نظام خراب ہوچکا ہے۔ اور ہر گروہ من
مانی کر رہا ہے تو معاشرہ میں تبدیلی کیسے آئے گی۔ اس پر حکومت کو سوچنا
چاہیئے اور طویل المدت منصوبہ بنانا چاہیے۔ رمضان یکایک تو نہیں آئے نہ ہی
چینی اور آٹا اچانک مہنگا ہوا ہے۔ اس میں ہمارے پالیسی سازوں کا عمل دخل ہے۔ |