انسان خطا کا پتلا ہے اسی لئے کسی بھی
انسان سے اکثر و بیشتر کسی نہ کسی قسم کی کوئی نہ کوئی دانستہ یا نا
دانستہ چھوٹی موٹی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں اور ایسا ہوجانا
روزمرہ زندگی میں عام سی بات ہے اس قسم کی غلطیوں کا سرزد ہو جانا اس قدر
معیوب نہیں جس قدر ہم انسان دوسروں سے نا دانستہ سرزد ہوجانے والی چھوٹی
موٹی غلطیوں کو سمجھنے لگتے ہیں
جب کہ اس کہ بر عکس جب ہم سے خود کوئی غلطی ہو جائے تو یہ چاہتے ہیں کہ
ہماری خطا سے درگزر کیا جائے جبکہ دوسروں سے کی گئی خطاؤں کی کڑی سے کڑی
سزا تجویز کرنا چاہتے ہیں بعض اوقات کسی سے سر زد ہوجانے والی چھوٹی سے
چھوٹی غلطی کے لئے بھی اسے دوسروں کے سامنے اس قدر ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے
جیسے کے اس سے کوئی شدید اور ناقابل معافی جرم کا ارتکاب ہو گیا ہے
اللہ کے بندوں جب اللہ اپنے بندوں کو ان سے سرزد ہوجانے والی خطاؤں کے لئے
انہیں معاف فرماتا ہے تو پھر ہم کہ جو اپنے آپ میں رب کے بندے ہونے کا
دعوٰی کرتے ہیں تو پھر ہم خود میں رب کے بندوں کو معاف کر دینے کا حوصلہ
کیوں نہیں پاتے
قرون اولٰی کے مسلمانوں کا یہی طور رہا ہے کہ وہ اپنے بڑے سے بڑے دشمن کو
بھی معاف فرما دیتے تھے ان کے اسی حسن اخلاق کی بدولت ہی دنیا میں اسلام
پھیلا مسلمانوں کو ہر میدان میں فتح و نصرت حاصل ہوئی اور مسلمان حکمرانوں
نے دنیا میں عظیم الشان اسلامی ریاستیں قائم کی آج بھی تاریخ عالم جس کی
ہمیں باہمی معاملات کی بابت یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہمارا رب اپنے بندوں
کو معاف فرما دیتا ہے ان کی دانستہ و نا دانستہ خطاؤں سے در گزر فرماتا ہے
اور ان پر ہمیشہ توبہ تربیت اور اصلاح کے دروازے کھلے رکھتا ہے بشرطیکہ
انسان توبہ کے بعد ان خطاؤں کو نہ دہرائے
تو پھر ہم خود میں رب کے بندوں کو معاف کر دینے کا حوصلہ کیوں نہیں پاتے ان
کی اصلاح کے لئے ان کی خطاؤں سے در گزر کیوں نہیں پاتے ان کی تربیت کے لئے
مثبت رویہ کیوں نہیں اپناتے ایک غلطی کی درستی کے لئے کیوں ہم خود بھی اپنی
تنگ نظری و بدسلوکی کے باعث ایک اور غلطی کر بیٹھتے ہیں جس کا نتیجہ بھلائی
کی بجائے برائی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے اصلاح کی بجائے مزید بگاڑ پیدا
کرنے کا باعث بنتا ہے
جب رب اپنے بندوں کو معاف فرماتا ہے انسان کی دانستہ و نا دانستہ خطاؤں سے
در گزر فرماتا ہے ان پر توبہ کے دروازے کھلے رکھتا ہے تو پھر ہم انسان کیوں
رب کے بندوں کی خطاؤں سے درگزر نہیں کرتے انہیں چھوٹی چھوٹی خطاؤں کے لئے
معاف کرنے کا حوصلہ کیوں نہیں پاتے اور ذرا ذرا سی بات پر غصے میں آکر مرنے
مارے پر تل جاتے ہیں کیا یہی ہمارے آبا واجداد کی تعلیمات اور تربیت کا
نتیجہ ہے
جو ہم انسان بے سوچے سمجھے خود اپنے آپ کو تباہی و ہلاکت کی طرف لے جا رہے
ہیں غلطی کا ہو جانا اتنا معیوب نہیں جتنا کہ اپنی غلطی کو تسلیم نہ کیا
جانا معیوب ہے دیکھا جائے تو غلطی اپنی غلطی کو تسلیم کر لینا بھی ایک طرح
سے غلطی کا ازالہ ہے جب کوئی مان لے گا کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے تو وہ
یقیناً غلطی کبھی دوبارہ نہیں دہرائے گا اور جب کوئی اپنی غلطی خود ہی
تسلیم کرلے تو پھر بار بار کسی سے سابقہ غلطی کا ذکر کرتے ہوئے بلاوجہ کسی
کو ملامت کرتے رہنے سے گریز کرنا چاہئیے کہ یہ اس طرح انسان میں مزید ہٹ
دھرمی اور ضد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی ضد اور ہٹ دھرمی انسان کو
پھر سے سابقہ کوتاہیوں کو دہرانے پر اکساتی رہتی ہے
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو کسی کے جتائے بغیر خود ہی اپنی
غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور یہی احساس اسے مزید غلطی سے روک دیتا ہے انسان
کو غلطی کا احساس ہو جائے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتا اور اسکی توبہ کا
طلبگار ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کا رب غفور الرحیم ہے اپنے بندوں کی
خطاؤں سے درگزر فرماتا ہے اور اپنے بندے کے لئے ہمیشہ توبہ کا در وا رکھتا
ہے وہ کبھی طالب کی طلب کو نہیں ٹھکراتا جبکہ طالب سچے دل سے اس کے رحم و
کرم کا طلب گار ہو انسان کے لئے اپنی اصلاح و تربیت کا در ہمیشہ وا رہتا ہے
بشرطیکہ وہ خود چاہے
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی ایسا کام جو بظاہر خوب معلوم نہ ہو
لیکن ممکن ہے کہ اس سے حاصل ہونے والے نتائج خوب ہوں تو وہ کار بد تو نہ
ہوا بلکہ ریاضی کے کلیے منفی جمع منفی برابر منفی کی بجائے مثبت کے مثاوی
ہوا
تو اگر کوئی خطا کے بعد اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے رب کے حضور پشیمان ہو
کر عاجزی و انکساری سے توبہ کا طلبگار ہو کر راہ راست پر آ جاتا ہے تو یہ
خطا سے اصلاح کی منزل پا لیتا ہے تو ایک انسان کے لئے اس سے زیادہ کار خیر
اور کیا ہوگا کہ وہ خود اپنی تربیت و اصلاح کر سکے
انسان وہی ہے کہ جو اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی تربیت و اصلاح
کرتے ہوئے آئیندہ کے لئے خود کو سابقہ کوتاہیوں کی زد میں آنے سے محفوظ
رکھتا ہے اور اپنی اصلاح کا مسلسل عمل جاری رکھتا ہے جبکہ اس کے برعکس ایسے
لوگ بھی دنیا میں دکھائی دیتے ہیں جو خود کو ہر قسم کی غلطی اور کوتاہی سے
مبرا سمجھتے ہیں اور یہ بات مانتے ہی نہیں کہ وہ کبھی کسی بھی معاملے میں
غلط بھی ہو سکتے ہیں غلطی کا کر گزرنا اس قدر برا نہیں جس قدر برا اپنی
غلطی کو تسلیم نہ کرنا ہے اور ایسا وہی شخص کرتا جو اپنی غلطی تسلیم نہ کرے
وہ آئیندہ بھی پے در پے غلطیاں کرتا رہتا ہے لہٰذا ایسے شخص کی اصلاح بھی
اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کا دل تکبر سے پاک نہ ہو جائے
شریعت کی رو سے تکبر ایک روحانی و اخلاقی بیماری ہے جو انسان کو سوائے
ہلاکت کے کچھ نہیں دیتی متکبر انسان چاہے خود کو کتنا ہی طرم خان کیوں نہ
سمجھے اپنی دانست میں خود کو کتنا ہی بلند و بالا خیال کیوں نہ کرے اس کا
تکبر ایک دن اسے ایسی پستی میں لا گراتا ہے کہ دوسروں سے تو کیا وہ خود سے
بھی نظر ملانے کے قابل نہیں رہتا متکبر شخص کا تکبر اس کے دل سے رفتہ رفتہ
جذبہ انسانیت ختم کر دیتا ہے جس شخص کے دل میں انسانیت باقی نہ رہے اسے
کوئی پسند نہیں کرتا انسان متکبر شخص کے قریب رہنا پسند نہیں کرتے
اللہ تعالیٰ انسان کے لئے تکبر کو قطاً پسند نہیں فرماتا اور نہ ہی کسی
متکبر انسان کو پسند فرماتا ہے انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اپنے رب کی رضا کے
لئے کرتا ہے اللہ انسان کے لئے عاجزی و انکساری پسند فرماتا ہے اور منکسر
المزاج انسان کی دعائیں بھی ضرور قبول فرماتا ہے جبکہ متکبر انسان اپنے
تکبر و رعونت کے سبب رب کی رحمت اور دعاؤں کی قبولیت سے محروم رہ کر اپنے
تکبر و رعونت کے سبب ہلاکت و تباہی کو اپنا نصیب بنا لیتا ہے کہ متکبر شخص
کی عبادات و مناجات بھی بارگاہ الٰہی میں پسندیدہ و مقبول نہیں ہوتیں اور
یہ کون چاہے گا کہ اس کی درخواست اس کے رب کے حضور رد کر دی جائے یا قبولیت
کا درجہ نہ پائے یقیناً کوئی بھی ایسا نہیں چاہے گا
آخر میں یہی گزارش ہے کہ اپنے دلوں سے ایک دوسرے کے لئے کدورتیں ختم کریں
باہمی تعاون و جذبہ محبت کو فروغ دیں آپس میں اخوت و بھائی چارہ قائم کریں
عدل و مساوات سے کام لیں اپنے دل میں تکبر کو بالکل نہ آنے دیں دوسروں کی
کوتاہیوں سے در گزر کرنے کی حتی المکان کوشش کریں لڑائی جھگڑوں سے بچیں
پیار محبت سے رہیں خوشیاں بانٹیں اور خوش رہیں نفرت اور سختی کی بجائے
متضاد روش اختیار کرتے ہوئے اپنی اور اپنے پیاروں کی تربیت و اصلاح کے عمل
کو ممکن بنائیں |