خواتین کا عالمی دِن اور اُن کے تحفظ کے قوانین

وطن عزیز پاکستان کی 52% فیصد آبادی عور توں پر مشتمل ہے اوریہ خواتین کم تعلیم یا فتہ اور غیر ہر مند ہونے وجہ کی سے ملکی تر قی میں اپنا کر دار مو ثر طور پر ادا کر نے سے قاصر ہیں ہماری قوم کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ وہ خواتین کو دوسرے کا شہری سمجھتے ہیں حالانکہ اگر ہم تھو ڑی سے تو جہ دے اور اپنی عور توں کو تعلیم اور شعو ری آگا ہی سے ہمکنار کر یں تو ہم بحیثیت قوم تر قی اور خو شحالی کی منا ز ل طے کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں خواتین کو یونین کونسل، ضلع صو بائی اور قومی سطح پر جب تک سیا سی عمل میں شریک نہیں کیا جا تا اور مکمل با اختیار نہیں بنا یا جا تا یا خواتین کو جدید علوم اور ہنر مند نہیں بنا یا جا تا اُس وقت تک ہم معا شرے میں کوئی بھی تبدیلی لانے میں کر دار ادا نہیں کر سکتے جس ملک کی نصف سے زائد آبادی بے کا ر ہو وہاں معا شی خو شحالی ممکن نہیں جمہوریت کو مستحکم کیلئے عورتوں کو بلدیاتی نظام کا حصہ بنا یا ہو گا گذشتہ چند پر سوں میں کئی خواتین اور پالیساں بنائی گئیں تا کہ عورتوں پر تشدد کی مختلف شکلوں کو ختم کیا جا سکے۔ تشد د کی ان قسموں میں جبری شادی ،تیزاب کا پھینکا جا نا، جنسی لحاظ سے ہر ا ساں کرنا اور عورتوں کو وراثت سے محرو م کرنا شامل ہیں ۔ نئے قوانین اور موجودہ قانون میں ترامیم کے ذریعے اسی رواثتی رسومات کو جرم قرار دیا گیا ہے جو عو رتوں کو زندگی ۔ آزادی اور مساوی قانونی تحفظ جیسے بنیاد ی حقوق سے محروم کر تی ہیں اور اِن کو بلا روک ٹو ک تشدد کی وجہ بنتی ہیں ۔ نومبر2011ء میں منظور کر دہ قانون کے تعزیرات پاکستان میں عو رتوں کے خلاف جرائم کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں نافذ کیں۔ یہ قوانین عو رتوں پر تشدد کی چند بنیاد ی شکلوں سے تحفظ دیتے ہیں جن میں جبری شادی کی مختلف قسمیں تیزات یا ایسے ہی کسی دوسرے ما دے کے ساتھ عورتوں کو جلانے اور دفتروں سمیت عوامی جگہوں پر انہیں طور پر ہراساں کرنا شامل ہے۔ عورتوں پر تشدد کو قانونی جرم قرار دینے کے علاؤہ ایسی عورتوں پر تشدد کو قانونی جرم قرار دینے کی علاؤہ ایسی عو رتوں کیلئے امدادی سہولتوں کو بھی بہتر کیا گیا ہے جو کسی مصیبت سے دو چارہوں یا قیدی ہوں۔ سو ل سوسائٹی کی تنظیموں نے حکومتی اداروں سے ملکر عورتوں کیلئے جو قانونی سازی کی ہے ۔ اُس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں کیونکہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے اب قوانین موجودہ ہیں گھریلو ں تشدد روک تھام و تحفظ کا بل 2012ء گھریلو ں تشدد کے قانون کی خلاف ور زی کرنے والے کو جرمانے اور قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ عدالتی حکم عدو لی پر پہلی بار چھ ماہ قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہو تی ہے۔ اگر دوسری یاتیسری بار حکم عدولی ہوتو دوسال قیدکم از کم دو لاکھ روپے جرمانہ ہوتاہے جرمانے کی رقم متاثرہ خاتون کو ادا کی جاتی ہے۔خواتین مخالف کاروائیوں کی روک تھا فوجداری قانونی میں ترامیم مسودہ2011ء۔ اس قانون تحت درج زیل سزائیں ہوئی ہیں ۔ بدلہ صلح اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ جائیداد میں حصہ نہ دینے کی صورت میں5 تا10 سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ خواتین پر تیزاب پھینکے جیسے جرائم کی روک تھام کا قانونی مسو دہ 2010اِس قانون کے تحت جرائم نا قابل ضما نت ہیں۔البتہ ملزم کی گرفتار ی کے لیے وار نٹ ضروری ہے ۔ عمر قید اور کم از کم پانچ لاکھ روپے جرمانے سزا دی جا سکتی ہے خلاف وزی صو ر ت میں درآمد ، بر آمد اور تیاری کا لائسنس بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے عدالت متا ثر ہ شخص کی معا ونت کے لیے ملزم کی تنخواہ اور جائیداد کی رقم سے ادائی کا اختیار بھی رکھتی ہے ۔ تا ہم ادائی کے لیے یہ سہولیات نہ میسر نہ ہوں تو عدالت کے پاس کو ئی متبادل موجود نہیں ۔ اِس قانون میں زہر یلے یا نقصان دہ کیمیائی مواد کی تیاری فروخت اور خرید کے حوالے سے تفصیلی ضابطہ موجو دہے۔ خلاف وزی کی صو ر ت میں ایک سال قید ایک لاکھ روپے جر مانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں ۔ جا ملا زمت پر خواتین کو جنسی ہر اساں کرنے خلاف قانونی مسو دہ 2010ء اِس قانون کے جرم کے مر تکب شخص کی ضمانت منسوخ ہو جا تی ہے ۔ جبکہ ملزم کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا سکتا ہے دفعہ 509کے تحت تین سال قید ۔ جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ جنسی طور پر ہراساں کرنے پر فوجداری کا قانون مسعو د ہ 2009ء اِس قانون کے تحت جرم مرتکب شخص کی ضمانت منسو خ ہو جا تی ہے جبکہ ملزم بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا سکتا ہے ۔ خواتین کا تحفظ فو جداری ترمیم 2006 ء اِس قانون کے تحت کسی عور ت سے زبر دستی شادی کی خاطر اِس کے اغوہ یا حبس بے جا میں رکھنے کی پا دا ش میں عمر قید اور جرمانے ، جنسی لذت کے حصول کے لیے اغواء یا جس بے جا رکھنے میں 25سال قید و جرمانہ جسم فرو شی کے لیے کسی شخص کی خرید و فروخت پر 25سال تک قید جرمانہ زنا کی صو ر ت میں سزا ئے مو ت اگر چہ مذکورہ بالا اصلاحات بہت حد تک پاکستان میں عور ت کی سماجی و معا شر تی زندگی پر دور رس نتائج مر تب کریں گی۔فوجداری مقدمات کا قانونی مسو دہ غیر ت کے نام پر جرائم 2004ء یہ قانون ملک بھر میں لا گو ہو تا ہے غیرت کے نام پر قتل کی صو ر ت میں 25سال قید ہے 1973ء کے آئین کے مطابق پاکستانیوں کے بنیاد ی حقوق کے مطابق تمام شہریوں کو یکساں قانونی تحفظ حاصل ہے کسی بھی شخص کو مذہب قومیت ، جنس ، جائے پیدائش اور رہائشی کی بنا پر تعریف نہیں کی جائے گی۔

اقوام متحدہ کی رپو ر ٹ برائے انسانی تر قی 1994تمام انسان کو پیدا ئشی طو ر پر سب حقوق مسا وی بنیاد پر حاصل ہوں۔ آج خواتین کے حقوق کا عالمی دن ہے اور آواز فو رم کے تحت خواتین کی سیا سی عمل میں شرکت ، خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ۔ مقامی حکومتوں سے لیکر وفا ق تک جمہوری نظام میں شامل کرنا ۔ اور خواتین کو شعو ری آگاہی دیکر ا یک با وقار شہری بنانے میں اہم کر دار کر رہا ہے اور گوجرانوالہ کی دس یونین کونسل نے SPO میں آواز پروگرام کے تحت اس اہم کام کی ابتداء کر دی ہے
جب اپنا قافلہ عزم یقین سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے راستہ وہی سے نکلے گا
Tahir Saeed
About the Author: Tahir Saeed Read More Articles by Tahir Saeed: 6 Articles with 6146 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.