موجودہ دور کی نسل خصوصاً چھوٹے
بچّے یا تو جانتے نہیں یا بھولتے جا رہے ہیں کہ اخلاقیات کیا چیز ہے۔ تعلیم
حاصل کر لینے کے باوجود بھی اُن کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ گھر کے اندر یا
گھر سے باہر کس قسم کا رویّہ اختیار کرنا ہے۔ بسا اوقات وہ جانتے بھی ہیں
لیکن پھر بھی جان بوجھ کر مثبت و اچھے رویّے اپنانے کے بجائے منفی رویّہ
اختیار کرنے میں اپنی بڑائ اور فخر محسوس کرتے ہیں۔ اِس مرض کے اسباب پر ہم
بحث نہیں کریں گے بلکہ یہ باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ تعلیم یافتہ انسان
اچھے اخلاقی رویّہ کے بغیر اَن پڑھ جاہل ہی کہلائے گا۔ لہٰذا تعلیم کے ساتھ
ساتھ تربیّت نہایت ضروری ہے جو بنیادی طور پہ گھر سے شروع ہوتی ہے۔ تعلیم
تو مسلسل جاری رہنے کا عمل ہے لیکن مثبت تربیّت کی ایک مرتبہ مضبوط بنیاد
رکھ دی جائے اور ہم یہ تحیّہ کر لیں کہ اِس مثبت رویّہ سے ہم زندگی میں کسی
بھی لمحے روگردانی نہیں کریں گے تو ہماری شخصیّت میں ایک ایسی تبدیلی آتی
ہے کہ نہ تو ہمیں اِس کے اعادہ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی زندگی میں کبھی
کوئ ہم پر انگلی اُّٹھا سکتا ہے۔
بہت کم گھروں میں معا شر تی تربیّت پہ توجّہ دی جاتی ہے اور بہت کم اسکولوں
میں اِس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ نہ صرف ہماری زندگی کو معیاری بنانے
بلکہ ایک مثالی معاشرہ اور ایک بہتر ُملک بنانے میں یہ کس قدر اہم ہے۔ میں
نے اسی اہمیّت کے پیشِ نظر ایسے موضوعات پر مبنی ایک کتاب لکھی ہے جن کے
ذریعے ہم گھر میں اپنے بچّوں کی زندگی کے ہر زاویے سے اچھی تربیّت اور مثبت
رویّے کی ایسی مضبوط بنیاد رکھ سکیں جس پر عمل پیرا ہو کر آنے والی نسلیں
ایک تہذیب یافتہ معاشرہ فراہم کر سکیں اور ہمارا ملک بھی کم از کم تہذیب
یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے۔
معاشرتی تربیّت کے نتیجہ میں جو مثبت عنصر نمایاں ہوتا ہے وہی کسی قوم کا
چہرہ ہوتا ہے اور کسی بھی قوم کی شناخت میں سب سے پہلے نمبر کا اہم کردار
ادا کرتا ہے۔ اِس تربیّت کے نتیجہ میں جو شعور اُجاگر ہوتا ہے اُس کو
انگریزی میں Social Sense یا Civic Sense بھی کہتے ہیں۔ اِس کے بغیر کسی
بھی قوم کو جاہل یا پَس ماندہ سمجھا جاتا ہے خواہ اُس میں تعلیم یافتہ
افراد کا تناسب زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً کوئ قوم ایٹم بم اور میزائل تو
بنا لے لیکن ٹریفک سگنل کی سُرخ بتّی کو خاطر میں نہ لائے یا ٹرین کا ٹکٹ
حاصل کرنے کے لئے سب کو دھکّے دیتا ہؤا کھڑکی تک جا پہنچے۔
مندرجہ بالا باتیں کوئ نئی نہیں اور نہ ہی میں پہلا شخص ہوں جو یہ موضوع
لیکر بیٹھا ہوں لیکن اِس اعادہ کے پیچھے میری ایک تمنّا ہے اور وہ یہ کہ ۶۸
سال گذرنے کے بعد بھی مندرجہ بالا شعور کے آثار میرے ملک میں کہیں نظر نہیں
آتے تو کوئ بات نہیں، اب تک کی نسلوں نے جو شرمندگی اُٹھا لی سُو اُٹھا لی
لیکن میرے اِس اعادہ کو آج اگر مُلک کے تمام پرائمری اسکولوں کے نصاب کا
لازمی حصّہ بنا دیا جائے تو شاید آئندہ آنے والی نسلیں بین الاقوامی دنیا
میں شرمندگی کی زندگی نہ گزاریں۔
اصل میں ہمارا مرکزی نکتہ (Focus) اخلاقیات ہے نہ کہ قانون پہ عملدرآمد ،
جو کہ ریاست اور حکومت کی ذمّہ داری ہے، لہٰذا ہم قانون کی خلاف ورزیوں اور
اُن کے نتائج کے بجائے زندگی کے ہر قدم پر اخلاقیات کے ہماری شخصیت پر
اثرات کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ایک بہتر ، تہذیب یافتہ
معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
قانون کی پاسداری سزا کے خوف کے بجائے اخلاقی ذمّہ داری سمجھ کر کی جائے تو
ہم بہتر انسان کہلانے کے مستحق ہونگے۔ اگر ہم اخلاقی پستی کا شکار ہوں اور
قانون بھی اپنی ذمّہ داری پوری نہ کرے تو نتیجہ یہی ہوگا جو آج ہمارے سامنے
ہے۔ اس کتاب میں کسی مذہب ، ثقافت یا علاقائ روایات کو نہ تو موضوع بنایا
گیا ہے اور نہ ہی تقابلی جائزہ لیا گیا ہے بلکہ اشرف المخلوقات جنابِ حضرتِ
انسان اور حیوان کے درمیان اُس تفریق کا اعادہ کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر
معاشرہ اور اقوام کی پہچان ہوتی ہے۔ آج ہم جِس ذہنی پَستی اور اخلاقی
دیوالیہ پن کا شکار ہیں اِس کا میری نظر میں محض ایک ہی حل ہے کہ ہم اپنے
بچّوں کو اُس َروِش پر چلنے سے پہلے تہذیب یافتہ اقوام کی صَف میں کھڑا
ہونے کے قابل بنا نے کی کوشش کریں۔ |