’’پاکستان زندہ باد‘‘کشمیری طلباء کا جرم ٹھہرا

بنگلہ دیش میں ہونے والا میچ اور میرٹھ یونیورسٹی میں شاہد آفریدی کے چھکے لگانے پر کشمیری طلباء کی خوشی پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو نہیں بھائی۔بھارتی فوج نے تو کشمیری مسلمانوں پر مظالم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔گولیاں کھانے ،عصمتیں لٹوانے،جانیں قربان کرنے کے باوجود کشمیریوں کے منہ سے پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الااﷲ کے نعرے ہی لگتے ہیں جو بھارت کے کے منہ پر طمانچہ ہوتے ہیں۔بھارت خود اقوام متحدہ میں گیا تھا کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے گا مگر ہندو بنیے نے کشمیریوں کو حق دینے کی بجائے باوردی فوج مسلط کی ہوئی ہے ۔آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی اور مسلمانوں پر مظالم کے سلسلے تو برسوں سے چل رہے ہیں مگر کشمیریوں کی تحریک آزادی میں کبھی کمی نہیں آئی بلکہ اسے جتنا دبانے کی کوشش کی جائے اتنا زیادہ ابھرتی ہے۔بھارتی ریاست اترپردیش کی میرٹھ یونیورسٹی میں ہندو انتہا پسندوں کے بدترین تشدد کا شکار کشمیری طلباء نے مقبوضہ کشمیر پہنچنے پر یونیورسٹی انتظامیہ کے جھوٹ اور غلط بیانیوں کا پول کھول دیا۔ 2010ء کی جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک کے دوران بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی طرف سے اعلان کے بعد سکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم کیلئے بھارت جانے والے کشمیری طلباء کا کہنا ہے کہ پاکستان کے میچ جیتنے کی خوشی میں ہم نے نعرے بازی نہیں کی بلکہ بھارت کو ہارتا دیکھ کر ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کے طلباء ونگ نے انہیں پاکستانی دہشت گردکہا اور بدترین تشدد کیا گیا۔ میرٹھ یونیورسٹی سے زبردستی بے دخل کر کے مقبوضہ کشمیر بھجوائے جانے والے کشمیری طلباء کے گھروں پر پہنچنے کے بعد کشمیریوں کی بڑی تعدا دنے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور بھارت کے خلاف سخت غم و غصہ کا اظہار کیا گیا۔یونیورسٹی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان یکم مارچ کو ہونے والے ایشیا کپ ٹورنامنٹ کے دوران پاکستان کی جیت کے بعد کشمیری طلباء نے بھارت مخالف نعرے بازی کی اور آپس میں مٹھائی تقسیم کی لیکن کشمیر پہنچنے پر ان طلبہ نے ان تمام باتوں سے انکار کیا ہے۔ متاثرہ طلباء کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے طلباء ونگ سے تعلق رکھنے والے ہندو انتہا پسند طلباء نے بھارتی ٹیم کی پوزیشن کمزور ہوتے ہی اشتعال انگیز نعرے بازی شروع کر دی اور کشمیریوں کو دہشت گرد کہہ کر انہیں یونیورسٹی سے نکالنے کا مطالبہ شروع کر دیا تھا۔ بانڈی پورہ سے تعلق رکھنے والے بلال احمد جو میرٹھ یونیورسٹی میں بی ٹیک کی ڈگری کے لیے داخل تھے‘ ان کا کہنا ہے کہ سب لوگ باہر ٹی وی پر میچ دیکھ رہے تھے۔ آخری اووروں کے دوران جب ہوسٹل کے وارڈن نے ہندو طلبہ کی شرارتوں کا مشاہدہ کیا تو انھوں نے ٹی وی بند کرنا چاہا، لیکن طلباء نے ٹی وی پر قبضہ جما لیابعد میں انھوں نے کشمیریوں پر کْرسیاں پھینکیں، گالیاں دیں اور ہمیں پاکستانی دہشت گرد کہا۔ لیکن ہمارے سینئرز ہمیں ضبط سے کام لینے کی تلقین کرتے رہے۔بلال احمد نے کہاکہ ہندو طلباء رات بھر ہوسٹل پر پتھراؤ کرتے رہے، اور دوسرے روز حکام نے 60 سے زائد کشمیری طلبہ کو تین روز تک یونیورسٹی سے معطل کیے جانے کا نوٹس مشتہر کر دیا۔ بارہ مولہ کے محمد مقبول کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا یونیورسٹی میں بی بی اے کر رہا ہے، اور وہ ابھی تک گھر نہیں پہنچا‘ہم پریشان تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ رشتہ داروں کے یہاں چلا گیا ہے، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ہم ناراض ہوں گے۔لیکن مقبول کہتے ہیں کہ وہ یونیورسٹی کے اس فیصلے پر مطمئن ہیں‘جس طرح کا وہاں ماحول ہے، ایسے میں بچوں کو واپس روانہ کرنا بہتر تھا، کیونکہ جو کچھ ہم سن رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہاں خون خرابہ بھی ہوسکتا تھا۔اکثر طلبہ کا کہنا ہے کہ انھیں پولیس کی تحویل میں نئی دہلی کے ریلوے سٹیشن پہنچایا گیا اور کرایے کے لیے اصرار کے باوجود کوئی پیسہ نہیں دیا گیا۔ دہلی میں مقیم بعض دوستوں کی مدد سے وہ جموں کے لیے ٹرین پکڑ سکے، لیکن وہاں سے انھیں سرینگر پہنچانے کے لیے ایک سیاسی تنظیم کے کارکنوں نے ان کی مدد کی۔حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی، حریت کانفرنس(ع) کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق، جے کے ایل ایف کے چیئرمین یٰسین ملک ، دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی،جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر، مسلم لیگ مقبوضہ کشمیر اور دیگر جماعتوں کے قائدین نے کشمیری طلباء پر بغاوت کا مقدمہ درج کرنے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ حالیہ واقعہ نے بھارت سرکار نے نازیوں جیسا طرز عمل اپنا رکھا ہے۔انہوں نے کہاکہ دنیا کا دستور ہے کہ کھیل کود کے مقابلوں میں پسندیدگی یا ناپسندیدگی جیسے اختلاف کو کبھی ہوا نہیں دی جاتی ۔ایسے رویے کو خود بھارتیوں نے بارہا نسل پرستی جیسے القابات سے نوازا ہے لیکن میرٹھ میں ایک کرکٹ میچ میں ہار کے بعد اسکا نزلہ کشمیری طلباء پر گرانا ہر لھاظ سے بھارتی ذہنیت کی پستی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے کشمیر ی طلباء پر غداری کے مقدمے اور انہیں یونیورسٹی سے نکالے جانے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر کشمیری طلباء پاکستان آنا چاہتے ہیں تو ہمارے تعلیمی ادارے اوردل ان کے لئے کھلے ہیں۔ ان کو پاکستان کی خوشی منانے پر غدار قرار دیا جاتا ہے یہ افسوناک بات ہے۔حکومت پاکستان کا رد عمل خوش آئند ہے ۔اب انڈیا کی ساتھ دوستی و تجارت کرنے والوں کو سوچ لینا چاہئے کہ انڈیا کو صرف پاکستان کی کرکٹ کی فتح قبول نہیں ۔اور پاکستان کے میچ جیتنے کی خوشی میں جن طلباء کو انڈیا نے خود سکالر شپ دی ان پر غداری کا مقدمہ ،اب حکومت کو عالمی دنیا کے سامنے انڈیا کے اس مکروہ ،گھاؤنے چہرے کو بے نقاب کر نا چاہئے۔پاکستان میں دفتر خارجہ کے علاوہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی آواز بلند کرنے والے ،انڈیا جن کے خلاف امریکہ کے ساتھ ملکر بے بنیاد اور جھوٹا پروپیگنڈہ کرتا ہے حالانکہ خود انڈیا کے چہرے سے نقاب اتر چکا ہے ۔امیر جماعۃ الدعوۃ پروفیسر حافظ محمد سعید بھی کشمیری طلباء کے لئے کھل کر بولے اور پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی کی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے میچ جیتنے پر خوشی کا اظہا رکرنے کے جرم میں کشمیری طلباء پر بدترین تشدد سے انڈیا کا ظالمانہ چہرہ ایک بار پھر کھل کر دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے۔ایسی مذموم حرکتوں سے تحریک آزادی میں اور زیادہ تیزی آئے گی۔ وزارت خارجہ کی جانب سے متاثرہ کشمیری طلباء کو پاکستانی یونیورسٹیوں میں داخلہ کی دعوت دینا نہایت قابل تحسین اقدام ہے۔ مذہبی و سیاسی جماعتوں کو اس مسئلہ پر پوری قوت سے آواز بلند کرنی چاہیے۔ پوری پاکستانی قوم کشمیری طلباء کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنے کیلئے تیار ہے۔ بھارت سرکارکشمیری طلباء پر تشدد جیسے ہتھکنڈے اختیار کر کے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ چھیاسٹھ برسوں سے شاندار تحریک جاری ہے۔ اس سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی مزید تیز ہو گی اور ان کے جذبات اور زیادہ بھڑکیں گے۔ ان کے درمیان اتحاد مزید پختہ ہو گا ‘ پاکستان کو اس موقع پر بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے کشمیریوں کے وکیل ہونے کا حق ادا کرنا چاہیے اور ہماری وزارت خارجہ کے ڈیسک کو خصوصی طور پر اہمیت دیکر پوری دنیا میں اس حقیقت کا اجاگر کرنا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح کشمیری طلباء پر تشدد کے مسئلہ پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے اسی طرح مسئلہ کشمیر کوحق اور انصاف کی بنیادوں پر پوری دنیاکے سامنے اٹھانا چاہیے اور بھارت سرکار کی ریاستی دہشت گردی کو کھل کر بے نقاب کرنا چاہیے۔ پاکستان کے جیتنے پر کشمیریوں کی طرف سے خوشی کا اظہار اچھی بات ہے اس سے کشمیریوں کے پاکستانی قوم سے رشتوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ پوری قوم اس مسئلہ پر متحد ہے اور ان سے یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انڈیا پاکستان کے خلاف ناقابل یقین حد تک دشمنی رکھتا ہے۔کھیل کے میدان میں پاکستان کے میچ جیتنے پر اگر کشمیری طلباء نے خوشی منائی ہے تو اس پر ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر دیا گیا۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ شروع دن سے کشمیریوں کو اسی صورتحال اور ظلم و جبر کا سامنا ہے۔ہم صاف طور پر کہتے ہیں کہ اگر انہیں انڈیا میں اس قسم کے ناروا سلوک اور بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو پوری پاکستانی قوم ان کے استقبال اور ان کے ساتھ ہر ممکن مددوتعاون کیلئے تیار ہے۔
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 176831 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.