ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں

بنگلہ دیش کے شیر بنگال سٹیڈیم میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم آہستہ آہستہ شکست کی طرف گامزن تھی۔ سٹیڈیم میں موجود گنے چنے پاکستانی سپورٹرزاور پاکستان میں ٹی وی پہ میچ دیکھتے ناظرین مایوسی کی انتہاوں کو چھو رہے تھے۔ بھارت کے کمنٹیٹرز اس صورت حال کا پورا فائدہ اٹھا کے ایشیاٗ کپ جیتنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ بنگالیوں کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ اپنے سارے جادوگروں کے ساتھ طنزیہ قہقہے لگا رہے تھے۔ انہوں نے خوشی میں پورا سٹیڈیم سر پہ اٹھا رکھا تھا۔حسینہ واجد نے پاکستان کی یقینی شکست کو دیکھتے ہوئے اپنے سپیچ رائٹر سے ایک اور چبھتا ہوا اور توہین آمیز بیان بھی لکھوا لیا تھا۔پاکستانی کپتان بھی آوٹ ہو گیا تھا۔ گیارہ رنز سے اوپر کی اوسط میں فواد عالم کا ایک ایک رن پاکستان کو آہستہ آہستہ شکست کی طرف دھکیل رہا تھا کہ ایک وکٹ اور گر گئی۔پاکستانی شائقین کے چہروں سے امید کی آخری امید بھی مٹ گئی۔ اب شاہد آفریدی نے میدان میں آنا تھا۔شاہد خان آفریدی نے اپنے پچھلے ہی میں میچ میں بھارت کو متواتر دو چھکے مار کے چھکا بنا دیا تھا لیکن شاہد خان آفریدی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لوگ کہتے ہیں چائنا کا کھلاڑی ہے چل گیا تو بھلے صدیوں تک چلے لیکن نہ چلے تو ہو سکتا ہے پہلی ہی بال پہ واپس چلا آئے۔شاہد کھلاڑی جیسا بھی ہو پاکستانی نمبر ون ہے۔ اسے خبر تھی کہ آج کے میچ میں شکست اس کے ملک کو فتح کی دوڑ سے باہر کر دے گی جبکہ بھارت کو ایک نئی امید مل جائے گی۔

وہ یہی سوچ کے میدان میں اترا تھا۔ اسے اپنے ملک کو جتوانا بھی تھا اور بھارتی ٹیم کو اس کپ کی دوڑ سے باہر کر کے ان کے بگ تھری کے بڑ بولے دعویٰ کی مٹی بھی پلید کرنی تھی۔ محبت بڑاجذبہ ہے اور اپنے ملک سے اپنی جان سے بڑھ کے محبت کرنے والے اس کھلاڑی کے دل میں اپنے محبت کا یہ سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔پہلی بال پہ چھکا مار کے آفریدی نے اس محبت کا اظہار کر دیا تھا اور اس ارادے کا بھی کہ وہ کرنا کیا چاہتا ہے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب آپ کے سامنے ہے۔ بنگالی خواتین کے دھاڑیں مار کے روتے چہرے،بنگالی کھلاڑیوں کی میدان کے اندر بے بسی اور پاکستانی سپورٹرز اور ناظرین کی دعائیں یہ سب دیکھنے والا منظر تھا۔پاکستان کا اکیلا شیر بنگالی ٹائیگرز کے جبڑے چیر کے یقینی فتح ان سے چھین لایا تھا۔ پھر اس کوشش میں اس کا پٹھہ چڑھ گیا۔ اس کے باوجود جب اس نے ایک اور چھکا مارا تو کمنٹری کرنے والا بھی کہنے پہ مجبور ہو گیا کہ آفریدی سنگل بنا سکے یا نہ بنا سکے لیکن چھکا مارنے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ بنگلہ دیش کیا ہارا۔حسینہ واجد کا پاکستان کو دکھی کرنے والا بیان دھرے کا دھرا رہ گیا۔ بنگالی جادوگروں کے سارے جادو اور بنگالیوں کی پاکستان کو نیچا دکھانے کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔ بھارت بھی اپنا سا منہ لے کے رہ گیا اور پاکستان اب ایشیا کپ کے فائنل میں ہے۔

یہ ہم ہیں ۔ہم کیا نہیں کر سکتے ۔ہم سو سالہ غلامی کے بعد بے سرو سامانی کے عالم میں دنیا کے نقشے پہ دنیا کی سب سے بڑی مملکت قائم کر سکتے ہیں۔ ہم پیپر پن کی جگہ کانٹے استعمال کر کے اس مملکت کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ ہم دنیا کا سب سے بڑا مٹی کا ڈیم بنا سکتے ہیں۔ہم دوستوں کی عدم موجودگی میں ۶۵ ء کی جنگ میں اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے دانت کھٹے کر سکتے ہیں۔ہم بنانے پہ آ جائیں تو ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود ایٹم بم بنا سکتے ہیں۔ہم دنیا کے بہترین میزائیل بنانے والوں میں شامل ہیں۔ ہم ہی ہیں جو ایف ۱۶ سے بہتر جے ایف ۱۷ تھنڈر بنا رہے ہیں۔ہم مانگے تانگے کے کپڑے ریکٹس اور بال لے کے عشروں سکواش کے میدانوں میں راج کرنے والے،ہمارے سمیع اﷲ اور کلیم اﷲ کو دنیا کے ہاکی کے گراؤنڈ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ہم کرکٹ کے ورلڈ کپ کے فاتح ،ہم چاہیں تو شارجہ میں آخری چھکا مار کے اسے ہمت اور لگن کا استعارہ بنا سکتے ہیں۔

ہم ناممکن کو ممکن بنانے والی قوم ہیں۔ ہم نہ ہوتے تو امریکہ پوری کوشش کے باوجود بھی کبھی روس کو نہ توڑ سکتا۔ یہ ہمی ہیں جنہوں نے چین کو باہر کی دنیا سے روشناس کرایا تھا۔ ہمارے ہی لوگ تھے جن کی منصوبہ بندی اور مہارت کا مہاتیر جیسے لوگ بھی اعتراف کرتے ہیں۔ہمیں ہی اﷲ کریم نے خانہ کعبہ کو باغیوں سے پاک کرنے کا اعزاز بخشا تھا۔ہم ہی نے ہمیشہ اقوام عالم کو امن کے قیام کے لئے اپنا کندھا پیش کیا ہے۔یہ ہم ہی ہیں کہ پچھلے تیرہ سالوں سے دوستوں اور دشمنوں کی لگائی مشترکہ آگ کے مقابل سینہ تان کے کھڑے ہیں۔پچاس ہزار کے قریب اپنے لوگوں کی لاشیں اٹھا کے بھی ہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے۔بل گیٹس ہمارے ہی بچوں کو بلا کے ان کے ساتھ ڈنر کرتا ہے۔ ہمارے ڈاکٹرز جہاں کہیں ہیں مہارت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ہمارے انجنیئرز کی ذہانت کے سبھی قائل ہیں۔

ہاں ہم پاکستانی ہیں۔ ہم جب بھی متحد ہوئے۔ ہم نے جب بھی مل کے کسی کام کا بیڑہ اٹھایا ہے تو ہم نے وہ کام کر دکھایا ہے۔محبت یگانگت اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے۔ہم میں سے ہر ایک شاہد آفریدی ہے لیکن جس ملک میں لا تعلقی اور بے نیازی کا یہ عالم ہو کہ ایک ماں اپنے تین دن سے بھوکے بچوں کو خود اپنے ہی ہاتھ سے مارڈالے اس ملک میں عذاب آتے ہیں انعام نہیں۔
 

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269078 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More