ہم اکثر الگ الگ محفلوں میں الگ
الگ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ باتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ پہلے کا دور اچھا
تھا،اب تودن بہ دن ہم نہ جانے کس طرف جا رہے ہیں، کیا ہوتا جارہا ہے، کچھ
سمجھ میں نہیں آتا۔لیکن پھر کبھی کبھی یہ خیال بھی ذہن میں آتا ہے کہ کیا
واقعئی پہلے کا دور اچھا تھا ،یا پھرہماری عُمر اور عقل کو اُس دور میں
موجود بُرائیاں اور نیگیٹو پوائنٹس دیکھنے سمجھنے اور پرکھنے کا ادراک اور
آگہی نہیں تھی؟
کیونکہ ہم اِس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتے کے جب سے ہم نے ہوش سنبھالا
ہے، تب سے ہی مُلک میں خون اور نفرت کی ہولی سرِعام کھیلی جاتی ہوئی دیکھی
ہے،کبھی قومیت پہ جھگڑاتو کبھی فرقہ ورانیت پر،کبھی سیاسی دنگل تو کبھی
دہشت گردی۔ لیکن اس بات پہ بھی کوئی شک نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے مُلک میں
جو بدلاؤہر حوالے سے پچھلے تیرہ چودہ سالوں میں آیا ہے وہ شاید ہی پچھلے
چالیس سالوں میں آیاہو۔اسی لئے کثرت میں یہ کہا جاتا ہے کہ پہلے کا دور
اچھا تھا۔اور اگر مجموعی طور پہ دیکھا جائے تو اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ
پہلے کا دور آج کے دور سے اچھا تھا،اور ہم آج کے پاکستان میں اِس وقت ایک
پہلے سے بُرے دور میں زندگی گُزار رہے ہیں۔ظاہری طور پہ ہوجانے والی ترقی
کے باوجود ہم باطنی طور پہ ہر لحاظ سے پیچھے جا رہے ہیں،اور نہیں تو کم سے
کم رشتے ناطے،لحاظ ،حیا ،شرم،اپنائیت ،مُحبت،احترام ،ایک دوسرے کا احساس ،
انسانیت ، رسم و راج اور اپنے مذہب تک کوکھو دینے والی قوم کو ترقی کرنے
والی یا آگے جانے والی نہیں بلکہ پستی اور پیچھے کی طرف جانے والی قوم
سمجھا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔
اُوپر سے ہماری قوم کویہ گُمان ہی ختم نہیں ہوتا ہے کہ ہم ایک عقلمند قوم
ہیں،اور ہم جو بھی سوچ رہے ہیں اور عمل میں لا رہے ہیں وہ ایک عقلمندانہ
حرفِ آخر اور بہترین قدم ہے۔آپ اس قوم کے سیاسی لیڈروں سے لیکر اُن کے
کارکنوں تک،پٹیوالوں سے لیکر ججوں تک،کسی چھوٹے سے اخبارکے رپورٹر
زاورصحافیوں سے لیکرنامورقلم کاروں اوراینکروں تک،آپ کے علائقے کی کسی خاص
شخصیت سے لیکرعام آدمی تک،کہنے کا مقصد یہ ہے ،کہ آپ کسی بھی فیلڈ کے کسی
بھی شخص کو اُٹھا کر دیکھیں،اِن میں سے پانچ دس پرسنٹ لوگوں کو چھوڑ کر ہر
آدمی آپ کو اِس بات کا علمبردار نظر آئے گا کہ میری سوچ میرا فلسفہ سب سے
زیادہ مظبوط ہے،اور میں جو سوچتا کہتا اور کرتا ہوں وہی حرفِ آخر ہے۔
جبکہ جو قوم علاقے کے بیوروکریٹس اوراِسی قوم کے ووٹوں سے جیت کے اسمبلیوں
میں بیٹھنے والے عوامی نُمائندوں کے بارے میں ٹھیک طریقے سے یہ بھی نہیں
جانتی ہو کہ در حقیقت یہ لوگ ہماری نوکری کے لئے ہیں ، ہمارے خادم
ہیں،سیدھے لفظوں میں ڈاریکٹ یا اِن ڈاریکٹ یہ لوگ ہمارے نوکر ہیں،تو پھر
ایسی قوم کو کیا کہاجاسکتا ہے،اورکیا کِیاجاسکتا ہے ؟
اب آپ ہمارے مُلک کے نوجوانوں کو ہی دیکھ لیں،آپ رات گیارہ بجے کے بعد اپنے
گھر سے نکل کر دیکھیں،آپ یقین جانیئے آپ کوہرگلی ہرمُحلے میں جہاں تک بھی
آپ جائیں،اپنے گھروں کے باہر تھلّوں پر،سڑک پر،یا پھر کسی ہوٹل کے کونے میں
کوئی نہ کوئی نوجوان لڑکاکسی صنفِ نازک سے موبائل پہ بات کرتا ہُوا ملے
گا،اور یہی حال ہمارے مُلک کی نوجوان لڑکیوں کا ہے، اُن میں سے بھی
بیشتررات کی اِ ن اوقات میں اپنے بستر میں ، یا پھر گھر کی چھت پراِسی کام
میں مصروف رہتی ہیں۔جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اِ ن میں سے سیونٹی فائیو
پرسنٹ لڑکے اور لڑکیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں ہوتا۔عجیب ہی رمز ہے
بس چلے جا رہے ہیں۔
مجھے معلوم نہیں ہے کہ میں آج کیا لکھتا جا رہا ہوں،اور کیوں لکھتا جا رہا
ہوں، میری آج کی یہ تحریر شاید ایک بے ربط تحریر ہے۔
ہاں تو ہم نوجوانوں کے حال کا ماتم کرنے سے پہلے ہماری قوم کے اپنے ہاتھوں
سے بنائے ہوئے جھوٹے خُداؤں بیوروکریٹس اور عوامی نمائندوں کے حوالے سے بات
کر رہے تھے۔آپ یقین جانیئے ہماری قوم کو اگر یہ بات سمجھ میں آجائے کہ یہ
لوگ ہم پہ حاکمیت کرنے کے لئے نہیں بلکہ ہماری نوکری کے لئے رکھے گئے ہیں،
تو ہم نہ جانے کیا سے کیا کر جائیں،کیونکہ اصل مسئلہ ہوتاہی آپ کی سوچ
اورآپ کے خیال کا ہے،جس دن ہم نے اپنے ذہن میں اِنکے اصل کام مقام اور
اوقات کے مُطابق تصویر بنانا شروع کردی ،سمجھو کے وہ دن اِن کی اجارہ داری
کا آخری دن ہوگا۔
اشفاق احمد صاحب اپنے پی ٹی وی کے لئے کئے ہوئے پروگرام ’’زاویہ‘‘ کے ایک
لیکچر ’’خیال کی قوت‘‘(جسے بعد میں ’’زاویہ‘‘کے نام سے کتابی صورت میں پبلش
بھی کِیا گیا)میں فرماتے ہیں کہ ’’میں بڑی بہادری کے ساتھ اُنکے سامنے جاکر
کھڑا تو ہو گیالیکن جب ہاتھی آگے کو جُھکا تومیں ڈر کے مارے پیچھے کی طرف
ہوگیا۔میرے ساتھ میرے والد صاحب بھی تھے جو ویٹرنری ڈاکٹر بھی تھے اور
ہاتھی کا ٹمپریچر لینے آئے تھے۔میرے والد نے مجھ سے کہا کے اِسکی
سونڈپکڑولیکن میں ڈرا۔اس پر میرے باپ نے پوچھا کہ تم ڈرے کیوں؟میں نے اُنسے
کہا کہ میں ڈرا اس لیئے ہوں ابو کہ یہ ہاتھی جس’’کلے‘‘ کے ساتھ باندھا گیا
ہے وہ بڑا کمزور ہے اور میرا خیال ہے کہ زمین میں فٹ ڈیڑھ فٹ سے زیادہ گہرا
نہیں ہے۔یہ اگر زور دے تو یہ اِسے اُکھاڑ پھینکے گا۔میرے والد نے کہا یہ
ایساکر نہیں سکتا کیونکہ یہ’’کلے‘‘کے ساتھ نہیں بندھا ہُوا یہ اس خیا ل کے
ساتھ بندھا ہُوا ہے کہ ’’کلا‘‘مظبوط ہے۔اگر یہ اپنے خیال میں تبدیلی لائے
تو پھرالبتہ یہ ضرور ’’کلے‘‘کو اُکھاڑے گا‘‘۔
ہماری قوم اگراپنی سوچ اپنے خیال کو بدلنے پر محنت کرے تو اِن جھوٹے خُداؤں
کے ’’کلے ‘‘کواُکھاڑنا کوئی زیادہ مُشکل کام نہیں ہے ، لیکن اگریہ عقلمند
قوم چاہے تو۔
ہم کچھ دیر پہلے نوجوانوں کا ذکر کر رہے تھے، آپ یقین جانئیے جتنا نقصان
ہمارے نوجوانوں کو موبائل فون نے ،انٹرنیٹ نے ،کوایجوکیشن سسٹم نے اور
ہمارے مُلک ،مذہب ،قوم ،تہذیب اور روایات کو دُشمنوں کے ایجنڈے کے مطابق
بیشتر ٹی وی چینلز نے ہمیں کیبل کے ذریعے گھر بیٹھے پُہنچایا ہے،شاید ہی
کوئی پُہنچا پاتا۔سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا ہے،کیونکہ ہماری قوم بُہت
عقلمند قوم ہے،کسی اچھی سے اچھی چیز سے غلط کام کیسے لینا ہے ،وہ شاید ہی
کوئی قوم ہماری قوم سے زیادہ جانتی ہو۔میں پاکستان کے حوالے سے کسی خدشے کا
شکار نہیں ہوں،اور نہ ہی نا اُمید ہوں۔لیکن ہمارے مُلک کی قوم اور خاص طور
پر نوجوانوں کی جہالت اور بے راہ روی دیکھ کر رونا آتا ہے۔ |