سستی ، کاہلی،فراغت، غیرذمہ دارانہ رویہ انسانی معاشرہ
میں بگاڑ کی وجوہات میں سے ہیں۔ جس طرح اچھا اور فعال کردار معاشرہ پر مثبت
اثرات مرتب کرتا ہے ویسے ہی سستی، کاہلی، غیرذمہ دارانہ کردار نہ صرف انسان
کی ذاتی زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے بلکہ پورے معاشرہ کو اجتماعی طورپرمتاثر
کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں بھی غیرذمہ دار کردار کو ناپسندکیا
گیا ہے۔ آج اجتماعی طور پر ہماری پہچان غیر ذمہ دار معاشرہ یا قوم کے طور
پر بن کر رہ گئی ہے۔
آج ہم سستی ، کاہلی ، پست ہمتی کا شکار ، نفسیاتی امراض کا شکار ہیں اور
ہمارا محبوب مشغلہ لہوولعب ، کھانا پینا اور فضول وقت ضائع کرنا ہے ۔کسی
بھی جگہ گھر، بازار، چائے اور سبزی کا ٹھیلہ لگانے والے سے سرکاری دفاتر،
سکول، کالجز،میڈیاغرض ہر جگہ ہرمقام پر ہم لوگ بیٹھے ملکی حالات اور بربادی
پرتبصرہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح ہر جگہ بے ایمانی،ملاوٹ، مہنگائی ،رشوت،
ناانصافی پر سیر حاصل گفتگو میں بھی ہمیں کمال حاصل ہے۔اﷲ کا خوف، احکام
الہی کی بجاآوری ،دیانت داری، اخلاص کے موضوع پرتقاریرمیں بھی کمی نہیں۔ ہم
میں ہر آدمی اپنی اپنی سطح پر ایک بہترین مقرر ہے۔ان تقاریر جن کا سامع ایک
آدمی ہو یا گروہ یا پھر بہت بڑا اجتماع سن کرلگتا ہے کہ ہم ایک آئیڈیل
معاشرہ میں زندگی گزار رہے ہیں اور پاکستان دُنیا کا سب سے پسندیدہ ، پرامن،
انصاف پسند، دُنیا میں رہنے کے لئے سب سے بہترین جگہ ہوگی۔ لیکن
عملََاــــــحالات ہم سب کے سامنے ہیں ۔ کراچی سے پشاور تک نہ کسی کی جان
محفوظ، نہ عزت محفوط، نہ مال محفوظ ہر طرف جنگل کا قانون ہے۔ جس کی لاٹھی
اُس کی بھینس۔ ٹریفک سگنل پر کھڑے سپاہی سے لے کرگھر کے اندر محصور بوڑھے
انسان تک ہر کوئی بے بس دکھائی دیتا ہے۔
دراصل ہم اپنے کردار، اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی بجائے، غیبت، ریاکاری اور
وقت گزاری جیسے عارضہ میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ زندگی میں ہر آدمی اپنا کردار
ادا کرنے لگے تو ہمارے رنج وفکر، حزن وملال اورنفسیاتی بیماریاں ختم
ہوجائیں۔ مجھے کالج کے ایک محترم اُستاد آج تک یا د ہیں۔ وہ کلاس کے دوران
فرائض کی ادائیگی،ذمہ داری، انفرادی اور اجتماعی حقوق کی ادائیگی ،اورہماری
معاشرتی تباہی وبربادی کی وجوہات جیسے موضوعات پر اتنے خوبصورت انداز میں
گفتگو کرتے کہ ہم جیسے سامعین حیران رہ جاتے۔ حیرانی کی وجہ موصوف کی تقریر
یاموضوع نہیں بلکہ محترم کا اپنا کردار تھا۔کیونکہ یہ تقریر ہمیں مہینہ
ڈیڑھ کے بعد ہی سننے میں آتی۔ باقی سارا عرصہ موصوف کاکام بلیک بورڈ پر آکر
تاریخ بدلنے کے بعد کلاس روم کے دروازہ پر کھڑے رہنا، دروازہ کے سامنے سے
گزرنے والے ہرشخص سے دعا سلام خیریت دریافت کرنا، تھوڑی دیربعد ایک زبردست
کمانڈو ایکشن سے کلاس میں فارغ بیٹھے طلباء کوخاموش کرانے کا کارنامہ
سرانجام دینا اور بس یونہی کسی نہ کسی طرح اپنا وقت گزار کرچلتے بننا۔ پورا
سال جناب نے ہمیں سلیبس سے ایک حرف بھی نہیں پڑھایا۔ میں آج بھی سوچتا ہوں
کہ کاش اس طرح کے اچھے موضوعات پرگفتگوکرنے اور بلیک بورڈ پر تاریخ بدلنے
سے تاریخ بدل جاتی ، ہمارے حالات بدل جاتے۔مگر نہ تو تاریخ بدلی نہ حالات
بلکہ بلیک بورڑ کی طرح ہمارا مقدر سیاہ ترین اور حالات بدترین ہوتے جا رہے
ہیں۔
بولنا تو آسان اور کلام کی آرائش بھی آسان ہوتی ہے مگر عمل کرنا اور اپنے
آپ کو بڑے کاموں اور بلند اقدار میں ڈھالنابہت مشکل ہے ۔آج ہم میں سے کوئی
بھی اپنا کردار اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے کو تیار نہیں۔ ترجمہ:-ــ"کیا تم
لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ حالانکہ تم
کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں۔" (۲:۴۴)
ہم میں سے ہرشخص چاہے وہ ملازم ، زراعت پیشہ ،تاجر، سرمادار،صنعت کار،
مزدور الغرض زندگی کے جس شعبہ سے بھی منسلک ہے ۔ اُس کی جوبھی ذمہ داری ہے
اُس کے مطابق بڑا سخت حساب ہوگا۔ یہ نہ سمجھے کہ یہ پکڑ صرف آخرت میں ہوگی۔
ہم اپنے نفس کو خوش کرنے کی بجائے، اپنا کردار ، اپنی ذمہ داری ادا کرنا
شروع کردیں تو حالات بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔
ایک بُڑھیا بڑی اُمید اور آس سے اپناسوال لے کر حضرت عمربن عبدالعزیزؒکے
پاس آتی ہے۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؒکا لباس، آپ کی اہلیہ فاطمہؒ کی سادگی
اور خلیفہء وقت کے گھرکی حالت دیکھتی ہے تومایوس ہوکرکہتی ہے۔ کہ میں توبڑی
اُمید لے کرآئی تھی۔ آپ تو خود اس حال میں ہیں۔اسے جواب ملتاہے ـ"کہ تمھارے
حال سنوارنے کو ہی تو ہمارا یہ حال ہیـ"
جب تک انفرادی سطح پر اصلاح نہیں ہوتی تو معاشرہ یا من حیث القوم کبھی بھی
تبدیلی نہیں آسکتی۔ ہم اپنے آپ سے لیکر اشرافیہ تک موازنہ کرکے دیکھ لیں
تمام شعبہء زندگی سے تعلق رکھنے والے کسی نہ کسی طرح مُلکی ترقی یا تنزلی
میں حصہ دار ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم میں سے ہر کوئی اس نظام کا اہم
جزو ہے لیکن ہم خود کو تو بدلنے کے لئے تیار نہیں بلکہ ہماری خواہش ہے کہ
نظام بدل جائے۔ تبدیلی کی خواہش اچھی لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم
خود کو بدلیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نیک نیتی سے اپنا کردار ادا کریں، اپنے نفس
کی تربیت کریں اور معاشرتی ناہمواری، عداوت ، غصّہ اور خودغرضی کو ختم
کردیں۔ اگرچہ نفس پر قابو پانا آسان نہیں مگر مشکل بھی نہیں۔ اس کے لئے شرط
یہ ہے کہ ہمارے دِلوں میں اﷲ کا ڈر ہو۔ اندر کی آنکھ بینا ہو۔ آج سے عہد
کرلیں اور ہم سب اپنے آپ کو درست سمت پر ڈال دیں اورہم میں سے جو جس شعبہ
زندگی سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ ایمانداری ،خلوصِ نیت اور محنت کو اپنا شعار
بنا لے تواﷲ رب العزت ہماری تقدیر بدل دے گا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔۔۔نہ ہو جس کوخیال آپ اپنی حالت کے
بدلنے کا
|