یوں تو بلا تفریق مذاہب و ملل ہر فرد و بشر کی دیرنیہ
خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ پُر سکون زندگی بسر کرے، امن و آشتی، راحت و آرام
اور فرح و انبساط کی فضا میں ہمہ دم اقبال و عروج کے مدارج طے کرے یہ کہنا
مبالغہ نہیں کہ اس نوع کے مختلف افکار و خیالات کا انسان کی معیت میں سایہ
کے مانند رہنا ایک فطری بات ہے، اب خوف و ہراس سے بالا تر ہوکر چین و سکون
کے ساتھ زندگی بسر کرنا اس وقت تک محال بلکہ نا ممکن ہے تاقتیکہ ہمارا
معاشرہ پُر سکون ہو ہو۔ یہ تمام چیزیں تو ہم تلاش کرتے ہیں مگر یہ تمام
چیزیں عمل اور اعمال سے ملتی ہیں، کیا ہمارے اعمال ایسے ہیں کہ ہم ان سب
چیزوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں، ضرورت ہے کہ ہم اپنے اپنے گریبانوں میں ایک
بار ضرور جھانکیں۔
اگر آج ہم یہ موازنہ کریں کہ چرخ زبانی ہمیں دین و دنیا سے کس طرح دور کر
رہا ہے، تو یقینا آپ کو یہ اندازہ ہوگا کہ ہم واقعی گناہوں کے دلدل میں
دھنستے چلے جا رہے ہیں ، دین و دنیا سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں، اس کا م
میں عام آدمی ہی نہیں بلکہ ملک کے چپے چپے میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے
چرخ زبانی کی وجہ سے ہم اپنے آپ کو دین سے دور کرتے جا رہے ہیں۔آج کا انسان
کس قدر پریشان حال ہے، قدم قدم پر مصیبتوں سے گھِرا ہوا ہے۔ اس کے رزق سے
برکت اٹھتی جا رہی ہے، اپنے آج کو سنوارنے میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں اور
اسی چکر میں زیادہ تر انسان کے لیئے حرام حلال ، اچھائی برائی غرض کہ ہر
چیز کی تمیز ختم ہوتی جا رہی ہے۔ آج کا انسان بس بھاگتا ہی چلا جا رہا ہے
نہ اُسے آخرت کی فکر ہے اور نہ ہی عالیشان ماضی کا کوئی نقش اس کے قدم روک
رہا ہے۔ اپنے آج کو کمانے کے چکر میں اس نے ایسی بُری عادتوں کو اپنا لیا
ہے جو منافقین کی ملامتوں میں سے ہیں۔ سب سے اوّل تو یہ کہ آج اس کی گرفت
اپنی زبان، اپنا معاشرہ، اپنا عقیدہ پر اس کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے ۔
وہ اپنے فائدے کے لیئے گالی گلوچ اور ایذا رسانی پر اُتر آیا ہے، جب کہ
رسولِ اکرم ﷺ کا فرمان ہے’’ شرک کے بعد بد ترین گناہ ایذا رسانی خلق
ہے‘‘اور اس ایذا رسانی کا یہ سارا کام ہماری زبان ہی تو کرتی ہے۔ اِس کی
بُرائی، اُس کی غیبت، مطلب یہ کہ تمام وقت آج کا انسان اپنے گریبان میں
جھانکنے کے بجائے دوسروں میں عیب کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
حضرت مالک بن دینار ؓ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ نے ایک موقعے پر فرمایا: ’’ جب
تو اپنے دل میں سختی پائے یا رزق سے محرومی پائے تو جان لے تو نے کوئی ایسا
بول بولا ہے جو تجھے نہیں کہنا چاہیئے تھا، اور جس نے اپنی شرم گاہ اور
زبان کو قابومیں رکھا اس کے لیئے اس کے لیئے حضورِ اکرم ﷺ نے جنت کی بشارت
دی‘‘ لیکن آج ہم زبان کی حقیقت اور اس کی چرخ زبانی کی وجہ سے اس کی اہمیت
کا اندازہ ہی نہیں کر پا رہے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر زبان کی گل افشانیاں
سننے سے تعلق رکھتی ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ کانوں پر ہاتھ رکھنے
پڑ جاتے ہیں مگر زبان ہے کہ رُکنے کا نام نہیں لیتی۔ یہ زبان جس کا دل
دُکھاتی ہوگی کیا اس دل سے نکلنے والی بد دعا سے اسے ڈر نہیں لگتا؟ کیا
انہیں یہ نہیں معلوم کہ جو لوگ اپنی زبان سے لوگوں کی عزت اچھالتے ہیں ان
کے پوشیدہ امور کے پیچھے لگے رہتے ہیں تو اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کی زبان کو
موت کے وقت کلمہ شہادت پڑھنے سے روک دے گا۔ حضورِ انور ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’
جس شخص زیادہ باتیں کرتا ہے اس کی لغزشیں یا گناہ زیادہ ہو جاتے ہیں اور جس
کے گناہ بڑھ جاتے ہیں وہ دوزخ کا حقدار بن جاتا ہے۔ ‘‘
آج کے انسان کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اُن میں برداشت کا مادّہ نہ
ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر آپے سے باہر ہونے کے علاوہ
جھوٹ، وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت جیسی بیماریوں کا شکار ہو چکا ہے وہ
قدم قدم پر جھوٹ بولنے میں محو ہے اور یہ سوچ کر خوش ہوتا رہتا ہے کہ اس کا
جھوٹ کسی کے سامنے نہیں آیا اور اس جھوٹ سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ لیکن اسے کیا
یہ نہیں معلوم کہ اس کا یہ جھوٹ چند روزہ ہے۔ آخرت میں تو اس کا حساب دینا
ہی پڑے گا۔ لیکن اگر دنیا میں ہی اس کے جھوٹ کی پول کھل گئی تو اس کا کیا
اعتبار رہ جائے گا۔ اگر ایک مرتبہ بھی اس کا جھوٹ سامنے آگیا تو اس کا
بھروسہ کون کرے گا۔ کیونکہ آدمی جب ایک جھوٹ بول دیتا ہے تو اس کی ہر بات
میں یہ خطرہ رہے گا کہ یہ ہر بات میں جھوٹ بولتا ہوگا۔ چاہے عادی ہو یا نہ
ہو۔ کسی بات میں سچ بول پڑنے کے بعد بھی اس کی باتوں پر کون یقین کرے گا کہ
وہ سچ ہی بول رہا ہے۔اس پر کوئی دوسرا تو کیا اس کے اپنے گھر والے بھی یقین
نہیں کریں گے۔ایک عام جھوٹ جو تقریباً گھر میں اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی
ملنے آتا ہے اور صاحبِ خانہ اس سے ملنا نہیں چاہتا تو اپنے سے کہہ دیتا ہے
کہ ’’ کہہ دو ابو گھر میں نہیں ہیں‘‘ کیا یہ جھوٹ نہیں ہے؟ جو ااپ بچوں کو
ان کے بچپن سے سکھا رہے ہیں اور بچپن کا دماغ تو صاف سلیٹ کی مانند ہوتا ہے
جس پر اوّلین نقش ہمیشہ کے لیئے ثبت ہو جاتا ہے۔ جھوٹ تو جھوٹ ہے پھر چاہے
چھوٹا ہو یا بڑا۔ اسے معمولی نہ سمجھیں کہ بچے سے ہی تو بولا ہے بیوی سے ہی
تو کہا ہے یا یوں ہی کہا ہے اسے اتنی آسانی سے نہ لیں کیونکہ جھوٹ پر اﷲ کی
لعنت ہے۔ یہاں تک کہ مذاق میں بولا گیا جھوٹ بھی حرام ہے۔ کسی حالت میں
جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے۔ مگر آج لوگ قدم قدم پر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں
اور سچے کو جھوٹا بنا کر خوش ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے کا مذاق اُڑانا
بھی بہت بُری عادت ہے جس سے معاشرے میں فساد اور بگاڑ کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
کسی کی گفتگو کی نقل اتارنا، کسی کے چلنے کے انداز کسی کی وضع قطع پر جملے
کسنا ایک ایسی بُرائی ہے جس سے پرہیز ضروری ہے۔ کیا پتہ اﷲ کی نگاہ میں جس
کا مذاق اُڑا یا جا رہا ہے وہ اس سے بہتر ہو جو مذاق اُڑا رہا ہو۔ اسی لیئے
مرد و عورتوں کو ایک دوسرے کا مذاق اُڑانے سے اجتناب کرنا ضروری ہے کہ یہ
نا تو اﷲ رب العزت کے نزدیک پسندیدہ ہے اور نہ ہی مہذب معاشرے کے شایان شان
ہے۔ ایک دوسرے کو طعنہ دینا اور احسان کرکے جتلانا انتہائی سطحی حرکت ہے۔
انسان کی اخلاقی سطح کی انتہائی پستی کی علامت ہے۔ بُرے القاب سے پکارنا
ایسی برائی ہے جس سے روکا گیا ہے۔ ایک دوسرے کو مختلف الٹے سیدھے ناموں اور
القاب سے پکارا جانا عام ہے۔ یہ ایک طرح سے دل آزاری ہے جسے ترک کر دینا
چاہیئے ، ہمیشہ صحیح نام سے مخاطب کریں کیونکہ ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے صحیح
نام سے پکارا جائے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
لہجے کی کاٹ خواہشِ دستار کھا گئی
یہ وہ دوا ہے جو کئی بیمار کھا گئی
آسائشوں نے چھین لیا سچ کا حوصلہ
رکھنے سے زنگ اور بھی تلوار کھا گئی
یہ چند ایسی معاشرتی بُرائیاں ہیں جن میں عام انسان تو عام انسان، ہمارے
ملک کے بڑے بڑے سیاستدان اور دیگر طبقے کے لوگ بھی بلا جھجھک بولتے ہیں، یہ
سوچے بغیر کہ انہیں بھی روزِ محشر اﷲ تبارک و تعالیٰ کو جواب دینا ہے۔ہم سب
کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اسلام میں حسنِ معاشرت کو بنیادی اہمیت دی
گئی ہے اور جھوٹ بولنا امانت میں خیانت کرنا، وعدہ خلافی کرنا، عیب جوئی ،
طعنہ زنی، برے القاب سے پکارنا، احسان کرکے جتلانا ، دوسروں کا مذاق اُڑانا
وگیرہ ایسی بد اخلاقی اور گناہ کے کام ہیں جن سے اﷲ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔
اس لیئے ان کاموں سے اجتناب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ |