امام جلال الدین رومیؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ
ایک آدمی ہتھیاروں کا شوقین تھا لیکن دل کا بزدل انسان تھا وہ دکھاوے کیلئے
جسم کے ساتھ ہتھیار باندھ کر گھوڑے پر بیٹھا گھوم رہا تھا اور بہت بڑا
بہادر سالار دکھائی دے رہا تھا ایک تیر انداز کی نظر اس پر پڑی تو اس نے
سوچا کہ یہ کوئی خطرناک آدمی ہے اس نے تیر تان لیا اور نشانہ باندھ لیا جب
سوار نے تیر کا رخ اپنی جانب دیکھا تو چیخنے لگا ارے تم نے مجھ پر نشانہ
کیوں باندھ لیا خدا کے بندے مجھ سے تجھے کون سا خوف ہے میرے ڈیل ڈول پر نہ
جا میں اندر سے بڑا بزدل ہوں میں تمہیں کیا ماروں گا میں تو خود ڈر گیا ہوں
مجھے معاف کرو اس پر تیرانداز بولا ٹھیک ہے جو تم بول اٹھے ورنہ میں تمہیں
مار ڈالتا کیونکہ میں تم سے ڈر گیا تھا امام رومیؒ اس حکایت کی تشریح کرتے
ہیں کہ بہادروں کی طرح جینے کے لیے دل گردہ بھی ویسا ہی چاہیے ہوتا ہے شیر
کی کھال میں گیدڑ کچھ نہیں کر سکتا۔
قارئین! صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اور یقین جانیے صرف کہا
ہی جاتا ہے ملک میں اس وقت چار لاکھ کے قریب افراد صحافت کے پیشے سے وابستہ
ہیں اور ان میں 90فیصد سے زائد دوست اپنے ’’شوق، جذبے، جنون‘‘ کی وجہ سے
صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں یا پھر وہ ’’ٹہکے، اشرافیہ سے تعلقات بڑھانے
یا پھر ٹھوہ ٹھاہ‘‘ کے چکرمیں صحافت کے شعبے میں آجاتے ہیں اور اسی طرح ایک
طبقہ ایسا بھی ہے جسے تمام دنیا ــ’’ ییلو جرنلسٹ یا بلیک میلر ‘‘ کے نام
سے یاد کرتی ہے ایسے لوگ بھی صحافت کے پیشے میں گھس چکے ہیں کہ جو کوئی نہ
کوئی غیر قانونی کاروبار کر رہے ہوتے ہیں اوریا پھر قانونی کاروبار کرتے
ہوئے اپنے سرمایے کو تحفظ دینے کے لیے صحافت کو ایک چھتری کے طور پر
استعمال کرتے ہیں۔ اردو صحافت میں مولانا ظفرعلی خان، چراغ حسن حسرت،
مولانا محمد علی جوہر، حمید نظامی، شورش کاشمیری سے لے کر جب بڑے بڑے ناموں
کو دیکھتے ہوئے ارتقاء کے تخریبی مراحل سے گزر کر تھوڑا آگے دیکھتے ہیں تو
سر پر رکھی ہوئی ٹوپی زمین پر جا پڑتی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ ٹوپی اوجِ
ثریا کی طرف دیکھتے ہوئے پیچھے کی طرف گرنے کی بجائے ذلت کی گہرائیوں میں
اترنے والے معیار کا مشاہدہ کرتے ہوئے آگے کی جانب جا گرتی ہے۔ صحافت بلا
شبہ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کا مشکل ترین پیشہ ہے اگر آپ سچ لکھنے،
بولنے اورکہنے کا تہیہ کر چکے ہیں بڑے بڑے مافیاز، بین الاقوامی استعمار،
بڑی بڑی حکومتیں، سرمایہ دار کمپنیاں، جاگیر دار اور اجارہ دار طبقہ،
اشرافیہ، بین الاقوامی بدمعاشوں سے لے کر گلی کوچوں میں گھومنے والے غنڈے
اور چور اچکے بھی ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر آپ کے دشمن بن جاتے ہیں
اردو صحافت میں دیوان سنگھ مفتون نام کی ایک بہت بڑی شخصیت موجود ہے تقسیم
ہند سے پہلے دیوان سنگھ مفتون درجنوں ہندوستانی ریاستوں کے مہاراجوں،
نوابوں، نوابزادوں سے لے کر برٹش راج کے ساتھ سینکڑوں بار ٹکر لی اور حیران
کن طور پر سینکڑوں مقدمے نہ صرف بھگتے بلکہ جیتے ۔ دیوان سنگھ مفتون اپنی
آپ بیتی میں صحافیوں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ صحافی ہرمظلوم شخص کا وکیل ہے
جو بھی فرد روپے پیسے کے لالچ میں یا کسی بڑے آدمی کا قرب حاصل کرنے کے لیے
اس کی ’’منشی گیری‘‘ کا فریضہ انجام دے کر اپنے آپ کو صحافی سمجھتا ہے تو
یہ اس کی بھول ہے صحافی اس انسان کو کہتے ہیں کہ جو کسی بھی معاملے کو
خوردبینی نگاہ سے دیکھ کر معاشرے کی بہتری کیلئے منطقی نتائج اخذ کر کے
واقعات کو رپورٹ کرے اور اس فرض منصبی کی ادائیگی کے دوران بڑے سے بڑے
امتحان میں بھی ثابت قدمی کیساتھ کھڑا رہے یہی اصل صحافت ہے اور مشکل مراحل
سے گزرنے والے اس انسان ہی کو صحافی کہا جا سکتا ہے ۔
قارئین! آج کے کالم کے عنوان سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ آج ہم کون
سی دیوار کے ساتھ ٹکر مارنے والے ہیں گزشتہ روز تارکین وطن کے شہر میرپور
میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا میرپور میں گزشتہ تیس سال سے صحافت
کے پیشے سے وابستہ سینئر صحافی روزنامہ چنگاری کے ایڈیٹر انچیف شاہد محمود
مرزا پر مبینہ طور پر شعبۂ طب سے تیس سال سے زائد عرصہ سے وابستہ ڈاکٹر
امین چوہدری سابق صدر پی ایم اے و سابق چیئرمین ایم ڈی اے اور ان کے بیٹے
واصف امین چوہدری نے بیس کے قریب ’’جوانوں و متوالوں‘‘ نے حملہ کیا ان کا
دفتر توڑا اس کے بعد انہیں توڑا، گالیاں دیں، جوتے مارے، بے عزتی کی اور
کپڑے پھاڑ کر شاہد مرزا کو گھسیٹتے ہوئے ان کے دفترسے باہر نکال کر سڑک پر
لا کر ان کے منہ پر موبل آئل یا کالا تیل پھینک کر شاہد مرزا کا ’’منہ
کالا‘‘ کیا اور مبینہ طور پر انہیں اغواء کرنے کی کوشش کی جمعے کی نماز کا
وقت تھا اغواء کرنے کی کوشش کے دوران بقول شاہد محمود مرزا علامہ اقبالؒ کے
ان شاہینوں نے انہیں آگ لگانے کی کوشش کی تو پاس سے گزرنے والے راہگیر
نمازی اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے ان نوجوانوں کو لعن طعن کر کے منتشر کر دیا
شاہد مرزا چونکہ دل کے مریض بھی ہیں اور بلڈ پریشر کی زیادتی کا عارضہ
انہیں عرصہ دراز سے لاحق ہے انہیں اس صدمے کی وجہ سے ایک ہلکی نوعیت کا
ہارٹ اٹیک ہوا اور انہیں فوری طور پر کشمیر انسٹی ٹیو ٹ آف کارڈیالوجی
ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کیا گیا جہاں ان کا علاج ہنگامی بنیادوں پر شروع
ہوا راقم نے واقعہ کے فوراً بعد ہسپتال پہنچ کر آزاد کشمیر کے سب سے پہلے
لائیو ویب ٹی وی چینل کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو
ٹاک ود جنیدانصاری اور راجہ حبیب اﷲ خان‘‘ کے لیے ان کا انٹرویو ریکارڈ کیا
اس انٹرویو میں شاہد مرزا نے بتایا کہ بیس کے قریب نوجوانوں نے ایک منصوبہ
بندی کے تحت ڈاکٹر امین چوہدری کے صاحبزادے واصف امین چوہدری کی قیادت میں
ان کے دفتر پر باقاعدہ ریکی کر کے حملہ کیا اور گزشتہ دو دنوں سے یہ لوگ
میرے دفتر کے چکر لگا رہے تھے اور آج دفتر میں آکر پہلے انہوں نے مل کر
مجھے مارا،ڈنڈوں کے ساتھ پٹائی کی اور میرے کپڑے پھاڑنے کے ساتھ ساتھ دفتر
کی ہر چیز چکنا چور کر دی ان لوگوں نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ مجھے گھسیٹتے
ہوئے دفتر سے باہر سڑک پر لا کر مجھ پر کالا تیل پھینکا اور آگ لگانے کی
کوشش بھی کی اور اغواء کرنے کی نیت سے جب گاڑی میں ڈالنے لگے تو ارد گرد
لوگ اکٹھے ہو گئے اور جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے جانے والے نمازیوں نے مجھے
ان وحشیوں سے چھڑایا ہم نے ان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ڈاکٹر امین
چوہدری یا ان کے صاحبزادے یا دیگر لوگ اس حد تک مشتعل ہو ئے کہ انہوں نے آپ
کی جان لینے کی کوشش کی تو شاہد مرزا نے جواب دیا کہ میں نے تین روز قبل
ڈاکٹرامین چوہدری کی کرپشن اور ان کے ’’دورِ چیئرمینی ادارہ ترقیات
میرپور‘‘ مختلف کارناموں کا ذکر خیر اپنے ایک خصوصی کالم میں کیا تھا اور
یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ ڈاکٹر امین چوہدری نے ایم ڈی اے کے چیئرمین کی
حیثیت سے اپنے سگے بھائی کو ساڑھے تین سو کنال زمین غیر قانونی طور پر الاٹ
کی تھی اس خاندان کے مختلف واقعات کا ذکر کرنے پر یہ لوگ اس سچ کو ہضم نہ
کر سکے اور انہوں نے میری زندگی لینے کی کوشش کی لیکن مارنے والے سے بچانے
والا بڑا ہوتا ہے میں حکومت آزاد کشمیر سے مطالبہ کرتا ہوں کہ سفید لباس
پہنے ہوئے ان سیاہ بخت لوگوں کو گرفتار کر کے ان کا احتساب کیا جائے شاہد
مرزا نے ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ میں نے ہمیشہ
آج تک سچ لکھا ہے اور ڈاکٹر امین چوہدری کے متعلق میں نے جو بھی باتیں لکھی
ہیں ان کے تمام دستاویزی ثبوت میرے پاس موجود ہیں۔
قارئین! جمعۃ المبارک ہی کی سہ پہر کو آزاد کشمیر کے سب سے بڑے پریس کلب
کشمیر پریس کلب میرپور میں سیدعابد حسین شاہ کی صدارت میں جنرل کونسل کا
ایک ہنگامی غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس میں میرپور کی صحافی برادری کے
تمام گروپس کی نمائندگی کرنے والے لوگ موجود تھے سٹیج سیکرٹری کے فرائض
جنرل سیکرٹری کے پی سی سجاد جرال نے انجام دیئے اس موقع پر ریڈیو آزاد
کشمیر کے سٹیشن ڈائریکٹر اور آزاد کشمیر کے تمام ریڈیو اسٹیشنز اور ایف ایم
93 کے انچارج چوہدری محمد شکیل، سینئر صحافی راجہ حبیب اﷲ خان، حافظ محمد
مقصود، محمد امین بٹ، خالد محمود انجم، محمد امین آہیر، شیرباز منیر
ایڈووکیٹ، عدنان جبار مغل، محمد رفیق مغل، ظفر مغل، ظفیر بابا، پرویز شہزاد
سمیت درجنوں صحافیوں نے خطاب کرتے ہوئے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے
میرپور کی انتظامیہ کو دس گھنٹوں کی مہلت دی کہ وہ شاہد مرزا پر قاتلانہ
حملہ کرنے والے ملزموں کو گرفتار کریں اگلے ہی روز ڈاکٹر امین چوہدری اور
ان کے حامیوں نے چوک شہیداں میں صحافی برادری کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ
کیا اور اس مظاہرے کے دوران عینی شاہدین کے مطابق صحافیوں کی شان میں
’’گالیاں‘‘دینے کے ساتھ ساتھ مختلف گستاخیاں کی گئیں خیر ہم اسے ان کا
’’جمہوری حق‘‘سمجھتے ہوئے یہ فیصلہ جمہور اور عوام کے سپرد کرتے ہیں کہ وہ
دشنام طرازی اور گالیوں پر مبنی اس گفتگو کے متعلق کیا خیال رکھتے ہیں
ڈاکٹر امین چوہدری گروپ کے مظاہرے کے فوراًبعد کشمیر پریس کلب میرپور سے
سید عابد حسین شاہ صدر کے پی سی کی قیادت میں ایک بہت بڑا جلوس ڈاکٹر امین
چوہدری کے ہسپتال اور پلازے کی جانب روانہ ہو گیا اور ان کے پلازے کے عین
سامنے بہت بڑے مجمعے نے دھرنا دیدیا آخری اطلاعات آنے تک یہ دھرنا جاری ہے
اس موقع پر سید عابد حسین شاہ نے کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی پر پوری دنیا سے
مخاطب ہوتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ آج پاکستان کی قومی اسمبلی کے سامنے
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ کی قیادت میں صحافیوں کی
مرکزی تنظیمیں احتجاجی مظاہرہ کر رہی ہیں اور اس سے اگلے دن افضل بٹ تمام
صحافی قیادت کے ہمراہ اسلام آباد سے میرپور پہنچ کر آزادی صحافت پر کئے گئے
اس حملے کے خلاف مظاہرے کی قیادت بھی کریں گے اور دھرنا بھی دینگے سید عابد
حسین شاہ نے کہا کہ میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کا شکریہ ادا کرتا ہوں
کہ انہوں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے ٹیلی فونک رابطہ کر کے مجرموں کی گرفتاری
کا وعدہ کیا ہے اور میں چیف سیکرٹری آزاد کشمیر خضر حیات گوندل اور آئی جی
پی ملک خدا بخش اعوان سے گزارش کرتا ہوں کہ انتظامی سطح پر وہ ضلعی
انتظامیہ اور پولیس کو حق اور سچ کے مطابق میرٹ پر کام کرنے کا حکم دیں ہم
نے اس موقع پر محکمہ پولیس کے سینئر آفیسر ڈی ایس پی اظہر اقبال اور اسسٹنٹ
کمشنر چوہدری امجد سے موقف لیا تو انہوں نے بتایا کہ پولیس نے حملہ کرنے
والوں میں سے تیرہ افراد گرفتار کر لیے ہیں اور صحافیوں کا مظاہرہ ختم ہونے
کے بعد باقی حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس روانہ ہو جائے گی۔ ہم
نے اس دوران صدر پریس کلب عابد حسین شاہ کے حکم پر چیف سیکرٹری خضر حیات
گوندل اور انسپکٹر جنرل پولیس ملک خدا بخش اعوان سے موبائل فون پر رابطہ
کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی مصروفیت کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا۔عابد شاہ
نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف مسلم لیگ ن
کے مرکزی صدر ہیں اور راجہ فاروق حیدر خان آزاد کشمیر مسلم لیگ ن کے صدر
ہیں ہم ان دونوں شخصیات سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنی صفوں میں موجود ایسی گندی
مچھلیوں اور غنڈہ گرد کرپٹ عناصر کو پہچان کر انہیں فوراًپارٹی سے فارغ
کریں ہم تین دن کا وقت دے رہے ہیں بصورت دیگر ہمیں مجبوراًپہلے مرحلے میں
مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کی تمام کوریج کا بائیکاٹ کرنا پڑے گا۔
قارئین! دوسری جانب بریکنگ نیوز بھی آپ کو دیتے جائیں پاکستان میڈیکل
ایسوسی ایشن، جنرل پریکٹشنرز ایسوسی ایشن، ہاسپٹلز آنرز ایسوسی ایشن سمیت
ڈاکٹرز کی تمام تنظیموں کے مشترکہ اجلاس نے بعض صحافیوں کی جانب سے ڈاکٹر
امین چوہدری، ان کے والد مرحوم اور ان کے بیٹے واصف امین چوہدری کے بارے
میں کیے جانے والے بے بنیاد پراپیگنڈے اور پولیس میں درج کرائے جانے والے
جھوٹے مقدمے کی شدید ترین مذمت کرتے ہوئے وارننگ دی ہے کہ اگر یہ پرچہ خارج
نہ کیا گیا تو آزاد کشمیر کے تمام ڈاکٹرز ہڑتال پر جانے پر مجبور ہو جائیں
گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت اور انتظامیہ پر ہوگی اس اجلاس میں
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر جاوید چوہدری، سابق صدر چیمبر آف
کامرس ڈاکٹر اکرم چوہدری، الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر ریاض احمد، چیئرمین
سٹی فورم ڈاکٹر سی ایم حنیف، سابق صدر پی ایم اے ڈاکٹر ریاست چوہدری، صدر
پی ایم اے آزاد کشمیر ڈاکٹر آفتاب میر، سابق جنرل سیکرٹری ڈاکٹرایوب قریشی
کے علاوہ دیگر نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے کہا کہ ہم ڈاکٹرز آزادی اظہار
اور آزادی صحافت کے قائل ہیں اور صحافیوں کی دل سے عزت کرتے ہیں صحافی
برادری سے ہماری درخواست ہے کہ وہ شاہد مرزا جیسے بلیک میلرز کو اپنی صفوں
سے باہر نکالیں اور ان کی ممبر شپ پریس کلب سے کینسل کریں انہوں نے کہا کہ
ہم حکومت آزاد کشمیر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے والے
اس زرد اخبارکی ڈکلریشن کینسل کی جائے۔ ڈاکٹرامین چوہدری اور ان کے والد
مرحوم کے متعلق اس نام نہاد صحافی نے گالم گلوچ کی زبان استعمال کر کے پورے
خاندان کے جذبات مجروح کیے ہیں اور ڈاکٹرز کمیونٹی ڈاکٹر امین چوہدری سے
اظہار یکجہتی کرتی ہے ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ پہلے مرحلے میں پورے آزاد
کشمیر میں ہڑتال کریں اور دوسرے مرحلے میں پورے پاکستان میں ہڑتال کی کال
دیدی جائے۔
قارئین!یہ تو وہ موقف ہے جو میڈیا پر ڈاکٹرز کی مختلف تنظیموں کے مشترکہ
اعلامیہ کی شکل میں جاری ہوا ہے ہم یہاں پر یہ کہتے چلیں کہ صحافت وہ معزز
اور مجاہدانہ پیشہ ہے کہ اس پیشے سے وابستہ سینکڑوں مجاہدین حق اور سچ کی
خاطر شہید ہو چکے ہیں آج پاکستان اور آزاد کشمیر صحافتی ماحول کے اعتبار سے
دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شامل ہو چکے ہیں پاکستان میں خود کش حملوں،
بم دھماکوں اور دہشتگردی کے مختلف واقعات میں جہاں پچاس ہزار پاکستانی شہری
شہید ہوئے ہیں وہیں پر دس ہزار کے قریب افواج پاکستان کے جوان بھی شہادت کے
رتبے پر فائز ہو چکے ہیں اور اسی طرح تین سو کے قریب قلمی مجاہد یعنی صحافی
شہید یا غازی بن چکے ہیں یعنی یا تو وہ پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی
کے دوران خالق حقیقی سے جا ملے انہیں گولی لگ گئی یا وہ کسی بم دھماکے کی
نظر ہو گئے اور یا وہ ان غازیوں میں شامل ہو گئے جو ان حملوں میں زخمی ہوئے
شاہد مرزا ایک بزرگ صحافی ہیں اور ان کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ اپنے
متعلق ، اپنی صحافی برادری کے متعلق اور زندگی کے ہر شعبے کے متعلق انتہائی
تنقیدی تحریریں لکھتے رہتے ہیں اور متعدد صحافی ان کے نشترنما قلم کانشانہ
ماضی میں بھی بنتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی اس کی قوی امید ہے اور راقم
بھی ایک مرتبہ ان کی قلم کی نوک کے نیچے آیا تھا اور آپ کو یاد ہو گا کہ
وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید نے کشمیر پریس کلب میرپور میں راقم
کے متعلق ایک سوال کرنے پر جو پھول پیش کیے تھے اس پر شاہد مرزا نے اپنے
ایک کالم میں انصارنامہ کے مصنف جنید انصاری پر تنقید کی تھی کہ ہمیں
وزیراعظم سے سوال نہیں کرنا چاہیے تھا شاہدمرزا نے اس تحریر میں راقم کے
متعلق یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ ہم مختلف کاروباری اداروں اور ہسپتالوں کے
مالکان سے ’’نذرانہ‘‘وصول کرتے ہیں ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے کیونکہ
ہم انہیں اپنا بزرگ اور سینئر سمجھتے ہیں اور ان کا پورا حق سمجھتے ہیں کہ
وہ کسی بھی وقت ہمارا کوئی سا بھی کان مروڑ سکتے ہیں یہاں ہم ڈاکٹر امین
چوہدری سے یہ گزارش ضرور کریں گے کہ جناب اگر شاہد مرزا کی تحریر میں کوئی
قابل اعتراض بات موجود تھی تو آپ کو کشمیر پریس کلب کے صدر عابد حسین شاہ
اور جنرل سیکرٹری سجاد جرال سے رابطہ کرنا چاہیے تھا بصورت دیگر قانونی
نوٹس بھجوانے کے لیے آزاد کشمیر کی عدالتوں کا دروازہ بھی کھلا تھا غصے میں
آکر آپ یا آپ کے فرزند نے بیس افراد کے ساتھ مل کر شاہد مرزا کے ساتھ جو
سلوک کیا ہے وہ اس رویے کی عکاسی کر رہا ہے جو صحافی برادری اور صحافت کے
متعلق آپ کے جذبات کا ترجمان ہے ہمیں امید ہے کہ اس کیس کو ٹیسٹ کیس کو لیا
جائے گا اور مسئلے کا مناسب حل نکالا جائے گا۔ شاہد مرزا پوری صحافی برادری
آپ کے ساتھ ہے ۔ بقول چچا غالب کہتے چلیں
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے؟
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا توپھر لہو کیا ہے؟
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟
رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے آرزو کیا ہے؟
بنا ہے شاہ کا مصاحب اور پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے؟
قارئین! اس وقت آزاد کشمیر اور پاکستان بھر کے صحافی انتہائی خطرناک ماحول
میں سچ کو عوام تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں اس کوشش کے دوران ولی الرحمن
بابر سمیت متعدد قلمی مجاہد شہید ہو چکے ہیں خدارا گندگی کی رپورٹ کرنے
والے قلم کو مت روکیے بلکہ گندگی کو صاف کیجئے کشمیر سے تعلق رکھنے والے
پاکستان اور اردو زبان کے سب سے بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے تحریر
کیا تھا کہ میں تختہ سیاہ پر سفید چاک کیساتھ لکھتا ہوں مجھ پر تنقید کرنے
والے فحاشی، گندگی اور جرائم کے ارتکاب کو روکیں میں تو ان واقعات کو رپورٹ
کر رہا ہوں رپورٹ کرنے والے قلم کو روکنے سے کرپشن ختم نہیں ہو گی بلکہ جب
جرائم کاارتکاب رکے گا تو قلم خود ہی صاف تحریریں لکھنا شروع کر دے گا منٹو
کے یہ الفاظ ہم من وعن تو نہیں لیکن مفہوم کے مطابق نقل کر رہے ہیں خدارا
صحافت اور صحافیوں کے ساتھ یہ سلوک مت کریں ورنہ معاشرہ بنجر ہو جائے گا
اور جنگل کا قانون آزاد کشمیر وپاکستان کا قانون بن جائیگا۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
مریض نے ڈاکٹر سے کہا
ــ’’ڈاکٹر صاحب میرے دونوں کان بند ہو چکے ہیں کچھ سنائی نہیں دیتا‘‘
ڈاکٹر نے پوچھا
’’آپ کی عمر کتنی ہے؟‘‘
مریض نے جواب دیا
’’نوے سال ‘‘
ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا
’’آپ نے بہت کچھ سن لیا ہے اب آپ کو مزید سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘
قارئین! یوں لگتا ہے کہ حکومتیں اور فیصلے کرنے والے بڑے بڑے لوگ بھی بہرے
ہو چکے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ بہتری کے خواب دیکھنے والے صحافیوں کے
کانوں، آنکھوں، زبانوں پر بھی پہرے لگا کر ان کے قلم کو توڑ دیا جائے
دیکھتے ہیں کہ قلم کی فتح ہوتی ہے یا تشدد کی۔۔۔؟
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا کہ زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے |