نعت شریف
(ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوی ہے ہمارا)
(حدائق بخشش: کلام از امام اہلسنت ،امام عشق و محبت، اعلی حضرت الشاہ امام
احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ)
ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوی ہے ہمارا
خاکی تو وہ آدم، جد اعلی ہے ہمارا
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ خاک (مٹی) ، ٭ ماوی (ٹھکانا، اصل جوہر)، ٭ جد اعلی ( سب سے اوپر والا
داد)
تشریح:
ہماری اصل اور بنیاد مٹی ہے کیونکہ ہم سب حضرت آدم علیہ اسلام کی اولاد ہیں
اور وہ ہمارے جد اعلی ہیں یعنی کہ ہمارے سب سے اوپر والے دادا۔ اور حضرت
آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے مٹی سے بنایا اور ہم نے مرنے کے بعد مٹی
کی قبر میں دفن ہونا ہے اس لیے ہمارا ٹھکانا بھی مٹی ہے
اللہ ہمیں خاک کرے اپنی طلب میں
یہ خاک تو سرکار سے تمغا ہے ہمارا
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ طلب (چاہت) ، ٭ تمغا (عزت کا نشان، میڈل) ، ٭ خاک (عاجزی و انکساری کے
معنی میں ہے)
تشریح:
ایک مشہور معقولہ ہے کہ غرور کا سر نیچا ، متکبر شخص اللہ عزوجل کو سخت نا
پسند ہے اور جو اللہ کے لیے عاجزی و انکساری اختیار کرے وہ اللہ عزوجل کا
محبوب بن جاتا ہے ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہمیں اپنی محبت میں اپنی
چاہت میں خاک کر دے یعنی جیسے خاک عاجزی کی علامت ہے ہمیں بھی خوب عاجزی و
انکساری عطا فرماۓ اور ہمہ وقت اپنی رضا میں راضی رہنے والا بناۓ کیونکہ اس
عاجزی و انکساری کی وجہ سے ہم اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
محبوب بن جائیں گے اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محبوب بن
جانا کوئی معمولی بات نہیں یہ تو بہت بڑا عزت کا نشان ہے ہمارے لیے اور
ہماری اخروی نجات کا ضامن اور یہ عزت کا نشان یہ تمغا ہمیں حضور سید عالم ،
سرور کون و مکان جان عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں اور ان کی
غلامی کی وجہ سے ملا لے کیونکہ اللہ عزوجل کے فرمان کا مفہوم ہے کہ اگر تم
مجھ سے محبت کا دعوی رکھتے ہو تو میرے محبوب کی اتباع کرو میرے محبوب کی
غلامی میں آجاؤ پھر تمہیں انعام کیا ملے گا اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میں رب
کائنات ، خالق کائنات تم سے محبت کرونگا۔ سبحان اللہ ! سرکار صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی غلامی کا پٹا گلے میں پہن لینے کی برکت سے اللہ کا محبوب بن
جانے کا شرف ملتا ہے اور یہ بہت بڑی سعادت ہے ۔
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم
اس خاک پہ قرباں دل شیدا ہے ہمارا
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ سید عالم (کائنات کے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ٭ شیدا (دیوانہ)
تشریح:
ہمارے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قدم مبارک سے جس خاک کو
بابرکت کیا اور جہاں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک لگ گۓ
وہ مٹی، وہ گلیاں ،وہ راستے ہمیں اتنے محبوب ہو گۓ کہ ہمارا دیوانہ دل جو
ان راستوں کے عشق سے بھر پور ہے ہر وقت اس خاک پر، ان راستوں پر قربان ہو
رہا ہے اور کیوں نہ ہو جب ان راستوں کو اللہ تعالی اتنا محبوب رکھتا ہے کہ
قرآن میں اس راہ گزر کی قسم ارشاد فرما دیتا ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے قدم مبارک لگے تو ہماری کیا اوقات ہے ہم کیوں نہ اس راہ گزر پر ہر
وقت قربان ہوتے رہیں۔ واللہ لاکھوں جانیں ہوں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے قدموں کے نیچے آنے والی خاک پاک پر قربان کریں تو اس خاک کے ادب کا
حق ادا نہ ہوا۔
خم ہو گئی پشت فلک اس طعن زمین سے
سن! ہم پہ مدینہ ہے یہ رتبہ ہے ہمارا
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ خم ہونا (جھک جانا) ، ٭ پشت (کمر) ، ٭ فلک (آسمان) ، ٭ طعن (طنز ، طعنہ
مارنا)
تشریح:
آسمان کو دیکھیں تو مشرق اور مغرب میں اور شمال جنوب میں آسمان کے کنارے
زمیں سے ملتے معلوم ہوتے ہیں اور درمیان سے آسمان بلند ہے اور اس نظارے کو
دیکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے آسمان کی کمر جھکی ہوئی ہے اس میں خم آ
گیا ہے، اب وجہ کیا ہو سکتی ہے اس کے خم ہونے کی ۔۔ اس کو اعلی حضرت رضی
اللہ عنہ نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا کہ آسمان بلند ہے اور زمین پست
، آسمان پرسورج ہے ،چمکدار ستارے ہیں اور زمین پر مٹی کے زرات۔ آسمان کو
غرور تھا اپنی بلندی پر تو ایک دن زمین نے آسمان سے کہا کہ مانا کہ تیرے
پاس سورج ہے ، تیرے پاس ستارے ہیں تو بلند ہے مگر کیا تیرے پاس مدینہ ہے ؟
۔ میرے پاس تو مدینہ شریف ہے جس کی بدولت کائنات میں بہار ہے اور جس کی
بدولت کائنات کی عزت ہے۔ آسمان کی کمر اس طعنے کو سن کر خم ہو گئی کہ یہ
مدینہ شریف والا شرف میرے پاس نہیں میری ساری بلندی ، شان و شوکت زمین کے
اس شرف کے سامنے ہیچ ہے اور میری شان و شوکت زمین کی اس شان کے سامنے کوئی
وقعت اور حیثیت نہیں رکھتی۔
اس نے لقب خاک شہنشاہ سے پایا
جو حیدر کرار کہ مولی ہے ہمارا
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ لقب (وصفی نام) ، ٭ شہنشاہ ( بادشاہوں کا بادشاہ یعنی حضرت محمد مصطفی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حیدر (حضرت علی کا لقب مطلب شیر)، ٭ کرار (بار
بار حملہ کرنے والا) ، ٭ مولی (آقا ، محبوب ، مددگار)
تشریح:
حضرت علی رضی اللہ عنہ جن کہ بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے غدیر خم کے مقام پر فرمایا تھا کہ جس کا میں مولی اس کے علی مولی۔ اس
لیے ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولی علی کہتے ہیں اور حضرت علی کی والدہ
ماجدہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو حیدر کرار بعنی بار بار دشمن پر حملہ کرنے
والے شیر کا لقب بھی دیا تھا وہ فرماتی تھی کہ میرا یہ بیٹا شیر ہے ۔اور
حضرت علی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے "ابو تراب یعنی مٹی
والے " کے لقب سے بھی نوازا ہے اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک دفعہ حضرت
علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمۃ الزاہرہ طیبہ طاہرہ ساجدہ عابدہ رضی اللہ عنہا
سے کسی بات پر ناراض ہو کر مسجد نبوی کی ننگی زمین پر آ کر لیٹ گۓاور بدن
مبارک پر مٹی لگ گئی امام الاانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لاۓ اور
آپ رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک سے اپنے مقدس ہاتھوں سے مٹی صاف کرتے ہوۓ
محبت سے فرما رہے تھے "اٹھ اے مٹی والے ، اٹھ اے مٹی والے" آپ رضی اللہ عنہ
یہ سن کر بہت خوش ہوے
اب اس شعر میں اعلی حضرت رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ان
تینوں القابات کو بیان فرما رہے ہیں کہ حضرت مولی علی رضی اللہ عنہ نے حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لقب خاک (ابو تراب) پایا جو کہ حیدر کرار بھی
ہیں اور ہمارے مولی بھی ہیں
اے مدعیو ! خاک کو تم خاک نہ سمجھے
اس خاک میں مدفون شہ بطحا ہے ہمارا
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ مدعیو (مدعی کی جمع ،دعوی کرنے والا، مخالف) ، ٭ خاک نہ سمحجھے (اردو کا
محاورہ ہے یعنی تم کچھ بھی نہ سمجھ سکے) ، ٭ مدفون (دفن کیا ہوا) ، ٭ شہ
بطحا (مکہ کا بادشاہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
تشریح:
اے مدعیو ! اے مخالف لوگو ! تم کو اس خاک (مٹی) کی عظمت" خاک سمجھ آۓ گی"
کیا اس کی یہ عظمت کم ہے کہ اس خاک ميں ہمارے آقا و مولی دفن ہوے ہیں اور
اس لیے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ جو خاک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
جسم منور سے مس کر رہی ہے وہ عرش سے بھی اعلی ہے۔
ہے خاک سے تعمیر مزار شہ کونین
معمور اسی خاک سے قبلہ ہے ہمارا
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ معمور (بنایا ہوا) ، ٭ شہ کونین ( دنیا و آخرت کے بادشاہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم) ،
تشریح:
خاک کی یہ عظمت کچھ کم ہے کہ ہمارے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو
کہ دنیا اور آخرت کے بادشاہ ہیں کا مزار پرانوار بھی خاک سے تعمیر کیا گیا
اور ہمارا قبلہ خانہ کعبہ بھی مٹی سے بنایا گیا ہے۔
ہم خاک اڑائیں گے جو وہ خاک نہ پائی
آباد رضا جس پہ مدینہ ہے ہمارا
مشکل الفاظ کے معنی:
٭ خاک اڑانا ( محاورہ ہے مطلب آوارہ حیران و سرگرداں پھرنا)
تشریح:
اے احمد رضا ! اگر ہمیں اس پاک مٹی کی حاضری نصیب نہ ہوئی جس پر ہمارا مقدس
مدینہ شریف آباد ہے تو ہمارے سر پر خاک ! پھر اس محرومی پر ساری زندگی
حیران و سرگرداں و ماتم کناں رہیں گے ہم۔ |