تعلیمی انحطاط کاذمہ دار کون؟

اﷲتعالیٰ نے پاکستان کوبے شمار نعمتوں اوروسائل سے نوازا ہے لیکن اِس کے باوجودہردورمیں اِس پاک سرزمین کو بہت سے مسائل ومشکلات کاسامناکرنا پڑا۔بطورِخاص عصرِحاضرمیں پاکستان خلفشار کاشکار نظرآتاہے۔ اِتناسب کچھ ہونے کے باوجودایساکیوں ہے؟اقوامِ عالَم میں پاکستان کوکیوں کوئی قدرومنزلت حاصِل نہیں؟ اِس کا جواب صرف یہی ہے کہ اِس مملکت خداداد میں مثالی قیادت کا ہمیشہ سے بحران رہا ہے۔ قیادت کے فرائض ہمیشہ اُن لوگوں نے سرانجام دیئے ہیں جنہیں اِس مملکت کے مفادات سے کوئی سروکار نہ تھا۔اُنہیں اپنے مفادات عزیز تھے۔قائدِاعظمؒ کے بعدہمیں کوئی بھی ایسارہنمامیسر نہ آسکاجوقومی وبین الاقوامی مسائل میں ہماری صحیح رہنمائی کرتا۔

پچھلے تمام اَدوار میں ہر حکومت نے قر یبًا ملتے جُلتے اِقدامات کے ذریعے عوام کی اُمنگوں کے برعکس پالیسیاں اپنائے رکھیں۔ بالخصوص تعلیم کے شعبہ کو ہمیشہ ناعاقبت شناس اَربابِ اختیار نے خوب نشانہ بنایا۔موجودہ تمام صورتِ حال کا ذمہ دار کسی ایک فرد یا حکومت کو قراردینا بھی دانشمندی ہر گِز نہیں۔ البتہ بعض اِقدامات کے سلسلے میں جوافراداور حکومتیں زیادہ مشہور ہوئیں، بطورِمثال اُن کا نام توپیش کیا جاسکتا ہے۔ بدنامِ زمانہ آمر پرویزمشرف کے دور میں تعلیمی اصلاحات کے نام سے جو نظامِ تعلیم کوتباہ کرنے کاسلسلہ شروع ہوا وہ پیپلزپارٹی کے سابقہ دورِ حُکومت میں زوروشور سے جاری رہا۔ اس قوم کُش اقدام میں مسلم لیگ کی موجودہ حکومت بھی کسی سے پیچھے ہر گز نہیں رہی۔

اِس تعلیمی اِنحطاط کی تمام ترذمہ داری صِرف سابقہ حکومتوں پر ڈال دیناقرینِ اِنصاف نہیں۔ اِس اَلمیے میں من حیث القوم ہم سب ملوّث ہیں۔ پاکستان کی فلاح وبہبود کے لئے ہمارے اندرکوئی قومی سوچ اور اُمنگ بھی ہرگِز پیدانہیں ہوئی۔ جہاں چند شعبہ ہائے زندگی میں قومی پیمانے پر ہم نے ترقی کی منازل بھی طے کی ہیں وہیں بعض شعبوں میں ہم زوال پذیر بھی ہوئے ہیں۔ بطورِخاص ہم تعلیم کے میدان میں ہم حوصلہ افزاء کردار ادا کرنے سے قاصِر ہی رہے ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعدقومی مطالبہ تھا کہ دیگر شعبہ جات کی طرح تعلیم کے شعبہ میں بھی قومی اُمنگوں اور جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کی جائیں۔ یہ مطالبہ فطری بھی تھا لیکن بدقِسمتی سے پاکستان کے نظام ِتعلیم اور نصابِ تعلیم میں کوئی خاص تبدیلیاں نہ لائی گئیں۔ نصابِ تعلیم میں مختلف اوقات میں کچھ تبدیلیاں لانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بھی ٹاٹ میں مخمل کے پیوند کی طرح ثابت ہوئیں۔ لارڈمیکالے کے مرتب کردہ نظام ونصاب ِ تعلیم میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ لائی جا سکی۔ ہر دور میں قوم کی طرف سے قومی زبان اور قومی نصاب کا مطالبہ زور پکڑتا رہا حتّٰی کہ کئی تعلیمی پالیسیوں اور ۱۹۷۳ء کے آئینِ پاکستان میں اس کے بارے میں شقیں بھی منظور کی گئیں۔ لیکن افسوس کہ قوم کے غدّار اور انگریزکے وفادار نام نہاد حکمرانوں نے قوم کا یہ خواب کبھی شرمندہ ٔ تعبیر نہ ہونے دیا۔

اس نظامِ تعلیم کی خرابی کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان بنے چھیاسٹھ سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج تک ہم ایک قوم نہیں بن سکے۔ جس قوم کاکوئی قومی لباس، کوئی قومی زبان اور کوئی یکساں نظامِ تعلیم نہ ہو ،وہ ایک قوم بن بھی کیسے سکتی ہے؟ اسی نظامِ تعلیم کی وجہ سے اب ایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آ چکا ہے جو سِرے سے قیامِ پاکستان کا ہی مخالف ہے۔ آئے روز ہمیں ایسے لوگوں سے پالا پڑتا رہتا ہے۔ نظریہ پاکستان کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ اب پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اﷲــ والے نعرہ کی مخالفت کرنے والے کوئی غیرنہیں۔

اب تعلیمی انحطاط کی انتہا دیکھئے کہ سرکاری سکولوں کو بے وُقعت و بے وقارثابت کرنے کی سازش پر تیزی سے عمل جاری ہے۔غیرمُلکی غیرسرکاری تنظیموں کے ایماء پر سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو نااہل قرار دینے کارواج چل نکلاہے حالانکہ اُن کو نااہل کہنے والے اَربابِ اِختیار اُن اساتذہ سے فیضیاب ہوکر ہی اعلٰی مناصب پربراجمان ہوئے ہیں۔ اساتذہ کرام کواعلٰی حکام کی طرف سے ہروقت ہدفِ تنقید بنایاجارہاہے۔اُن کی نگرانی پرکئی قسم کی ایجنسیاں مامور کردی گئی ہیں۔ سب معاینہ کاروں کے تیروں کا رُخ بے چارے اُستاد ہی کی طرف ہوتاہے۔ اُساتذہ کوگوناگوں مشکلات کی دلدل میں بُری طرح سے دھنسایاجارہاہے۔ اُستاد کبھی پولیو کے قطرے پلانے پرمامور ہے توUPکا ڈیٹا اکٹھاکرنے پرمجبور، کبھی خانہ شماری اُستادکرتاہے اورمردَم شُماری بھی اُسی کے ذمہ ہے۔انتخابات کے اِنعقاد کابھی وہی ذمہ دار ہے اورافسران کی جھڑکیاں سہنے کا بھی وہی حقدار۔ تدریس کے فرائض سرانجام دیناتو اُس کے فرائض میں شامل ہے ہی لیکن اُسے دیگرمعاملات میں بُری طرح اُلجھادیاگیاہے۔

بے شک ہرشعبہ میں کالی بھیڑیں موجودہوتی ہیں، اُن کی وجہ سے پورے شعبہ کو بدنام کرناکہاں کاانصاف ہے؟ کیا باقی تمام محکموں میں عملہ کے تمام لوگ اپنے اپنے کام میں واقعی اہل اورگوناگوں صلاحیتوں کے مالک ہیں؟ اور کیا تعلیم کے مقدّس پیشہ کے ساتھ منسلک سبھی لوگ نااہل اوربے کارہیں؟ اگر ان سوالوں کا جواب نہیں میں ہے توپھرکیونکرصرف اِس شعبہ پر اِس قدریلغارکی گئی؟ سرکاری سکولوں کی اِصلاح کے لئے ہروقت بے تاب رہنے والے مُلک وقوم کی فلاح کے دعویدارجب اپنے بچوں کوسرکاری سکولوں میں بھیجنے کے لئے آمادہ ہی نہیں ہیں تووہ کیوں کر اِن کی اصلاح پرتوجہ دے سکتے ہیں؟ خُدارا اِن اِداروں میں زیرِتعلیم غریب عوام کے بچوں پر ہی ذرا ترس کھائیں اورتعلیم کوتجارت بنانے سے باز آئیں۔

ایک طرف ایلمنٹری سطح پرمفت کتب کی فراہمی کاڈھنڈورا پیٹاجاتاہے تودوسری طرف غریب کے بچے کے لئے اعلٰی تعلیم کے دروازے بندکئے جاتے ہیں۔ جنہیں دو وقت کی روٹی میسّرنہ ہووہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بھاری فیسیں کہاں سے اداکریں؟ تعلیم کوتجارت بنانے والے کس منہ سے اﷲ کی عدالت میں پیش ہونگے۔ جس ملک میں عوام غربت کے ستائے ہوئے ہوں اور اپنے اہل وعیال کی گزربسرکے لئے اپنے گُردے بیچنے پر مجبورہوں یا بیوی بچوں سمیت خودکُشی پرآمادہ، بھلا ایسے دیس میں تعلیم کوکمائی کا ذریعہ بناناکہاں کاانصاف ہے؟

قوموں کی زندگی میں تعلیم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسی انسانی جسم میں خون کی۔ جیسے خون کے اثرات جسم کے ہر حصے تک پہنچتے ہیں ایسے ہی تعلیم سے قومیں براہ ِراست متأثر ہوتی ہیں۔ اگر خون صاف اور بیماریوں سے پاک ہو تو جسم تندرست رہتا ہے۔ کسی مریض کو خون لگوانا ہو تو سب سے پہلے چیک کیا جاتا ہے کہ خون بیماریوں سے پاک ہو کیوں کہ بصورت دیگر خون میں موجود بیماری دوسرے فرد میں بھی منتقل ہونے کا خدشہ رہتاہے۔ بالکل اسی طرح تعلیم میں کوئی چیز اپناتے ہوئے اُسے دیکھ لینا چاہیے کہ کہیں اُس میں کوئی مُضِراثرات تو نہیں جس سے قومی زندگی متأثر ہو جائے؟

جس طرح کسی قوم لئے دفاع کا شعبہ بہت ضروری ہے ، کیوں کہ اِس سے ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی جاتی ہے ، اسی طرح تعلیم کا شعبہ اِس سے بھی زیادہ ضروری ہے کیوں کہ اس سے نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ زندہ قومیں ہمیشہ اِن دونوں شعبوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرتی ہیں۔اور دفاع کے ساتھ ساتھ تعلیمی محاذ پر بھی دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں۔ جس طرح کسی ملک کی سلامتی اور حفاظت کے لئے محکمہ دفاع کو وفاقی محکمہ قرار دیا جاتا ہے اِس سے بھی زیادہ ضروری ہیے کہ تعلیم کا شعبہ بھی وفاقی ہو۔

اور ماہرینِ تعلیم اِس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم میں نصاب سازی انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے اِسی وجہ سے نصاب سازی کے وقت عصری تقاضوں کے ساتھ ساتھ قومی اُمنگوں، تہذیبی و دینی اقدار، سیاسی ومعاشی حالات کا لحاظ بھی رکھا جاتا ہے۔ کسی بھی قوم کو متحد ومتفق رکھنے کے لئے بھی ایک قو می زبان اور قومی نصاب کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عصرِ حاضر میں دنیا پر غلبہ کی شوقین طاقتیں آج اسی تعلیم کے ذریعے ترقی پذیرممالک میں عمومًااور اسلامی ممالک میں خصوصًا اپنی مرضی کے مطابق انقلاب لانے کے لئے ہر طرح کے وسائل بروئے کار لا رہی ہیں۔لھٰذا وہ اِس سلسلے میں ہر محاذ پر برسرِپیکار ہیں۔اسی وجہ سے آج کل استعماری وطاغوتی طاقتوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اپنے نشانے پہ رکھا ہوا ہے حالانکہ اِس سے پہلے بھی تاجِ برطانیہ کو اپنی دورِ حکمرانی میں انگریزی انقلاب بذریعہ تعلیم میں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ناکام ونامرادہوکرجانا پڑا تھا۔

برصغیر پاک وہند پرانگریزوں کاقبضہ ہواتواُنہوں نے مقامی باشندوں کو ہمیشہ اپناغلام بنائے رکھنے کے لئے تعلیم کوبطورِہتھیار استعمال کیا۔لارڈمیکالے کالایاہوانظام ونصابِ تعلیم اسی سلسلے کی اِک کڑی ہے۔اِسی تعلیمی انقلاب کو شاعرِمشرق علامہ اقبالؒ نے یوں موضوعِ سُخن بنایا:
؂ تعلیم کے تیزاب میں ڈال ان کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے اُدھر پھیر
تائثیر میں اکسیرسے بڑھ کر ہے یہ تیزاب سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اِک ڈھیر
اکبر اِلٰہ آبادی نے اِس بارے میں فرمایا:
؂ یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا :
؂ شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے
دِل بدل جاتے ہیں تعلیم بدل جانے سے

جیسی تعلیم ہوگی قوم بھی ویسی ہی ہو گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک قوم بنیں اور پاکستان ایک آزاد،خودمختار،مضبوط اور مستحکم اسلامی مملکت کے طور دنیا میں اُبھرے تو ہمیں ایک قومی زبان ، قومی پہچان (لباس) اور قومی نظامِ تعلیم ویکساں نصاب ِ تعلیم کو اپنانا ہوگا بصورتِ دیگر ہم پانی سمجھتے ہوئے سراب کے پیچھے بھاگتے رہیں گے جس کا نتیجہ سوائے موت کے کچھ برآمد نہ ہوگا۔

ہمارا قومی المیہ ہے کہ قوم جس چیز کا مطالبہ کرتی ہے ، اقدامات ہمیشہ اُس کے اُلٹ کئے جاتے ہیں۔ قومی زبان کا مطالبہ تو قیامِ پاکستان سے بھی پہلے کا ہے۔ قائدِ اعظمؒ نے اِس بارے میں وضاحت بھی کی تھی کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہوگی۔ اِسی طرح قومی نصاب کا مطالبہ بھی بڑا دیرینہ ہے۔ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ ایک سازش کے تحت سابقہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں تعلیم کو صوبائی محکمہ قرار دے دیا گیا اور قومی زبان کی رہی سہی ساکھ بھی تباہ کر دی گئی تاکہ اس قوم کے ایک بننے کے امکانات بھی ختم ہو جائیں اور ہر طرف میر جعفر اور میر صادق طرز کے بیرونی آقاوئں کے وفادار قوم کے غدّار پیدا ہوتے رہیں۔

اِس سے بھی بڑا افسوس اِس بات پہ ہے کہ صوبہ پنجاب ، جو وفاقِ پاکستان کی علامت سمجھا جاتاہے ، میں نظریاتی جماعت ہونے کے دعویدار حکمرانوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی اور اپنے نظامِ تعلیم کو ۲۰۰۹ء کو DSDؒٓٓ (ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ ) لاہور میں کئے گئے معاہدے کے تحت برطانیہ کے ہاتھ گروی رکھدیا۔ اب پنجاب میں تعلیم سے متعلق تمام اُمور برطانوی روڈ میپ کے تحت سرانجام پاتے ہیں۔ اِس سلسلے میں برطانوی مائیکل باربر اور امریکی ریمنڈ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تعلیمی شعبہ میں مشیرِ خاص کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر صوبہ پنجاب میں تعلیمی سال ۲۰۱۳ء میں نصابِ تعلیم میں وہ تبدیلیاں لائی گئیں کہ شاید اُن کا خواب تو لارڈمیکالے نے بھی نہ دیکھا ہوگا اور جو کام ہزاروں لارڈمیکالے نہ کر سکتے تھے وہ ایک اکیلے خادمِ اعلیٰ نے کر دکھایا۔
موجودہ نصاب میں جماعت پنجم سے لے کر دہم تک اُردو سمیت مختلف مضامین میں سے سیرت النبی ﷺ ،اسلام کے ابطال (ہیروز) اور تاریخِ اسلام و تاریخِ پاکستان سے متعلق تمام مواد کو خارج کردیا گیا ہے۔ معمولی سی فہم و فراست کے حامِل افراد بھی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ نصابِ تعلیم کے اثرات نسلوں تک جاری رہتے ہیں۔ بجائے اِ س کے کہ قومی زبان و قومی نصاب کو پروان چڑھایا جاتا ، اُلٹا قومی زبان وقومی نصاب کی باقیات کو بھی اپنے ہاتھوں ملیا میٹ کر دیا گیا۔ آنے والے وقت میں کِس طرح کے افراد تیار ہونگے اِس بارے میں اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ سورج کی تیز روشنی میں ستارے کسی کوکب نظر آتے ہیں اسی طرح ڈالروں کی چکا چوند میں کب اِس ملک و ملت کے نگہبانوں کو نصاب کی تبدیلی سے ہونے والا قومی زیاں دکھائی دے سکتاہے؟
؂ وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس ِزیاں جاتا رہا

پاکستان اسلام کے نام پروُجود میں آنے والاواحد نظریاتی مُلک ہے اور اس کی بقا کاانحصار بھی اسی نظریے کی حفاظت کے ساتھ منسلک ہے لیکن ہمارے تعلیمی انحطاط کی انتہادیکھئے کہ ہم خوداپنے ہاتھوں اپنے نظریات کی بیخ کنی پرمجبورہیں۔ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے مختلف ادوار میں نظریہ پاکستان ونظریہ اسلام اورشعبہ تعلیم سے وابستہ ملازمین کے خلاف ایسے اقدامات سرانجام دئے ہیں جوتاریخ میں قومی جُرم پائیں گے اور یہ مسلّم اُصول ہے کہ:
؂فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

ذیل میں بطورِنمونہ ایسے اقدامات کی ایک فہرست پیش کی جاتی ہے جن سے تعلیمی انحطاط کی انتہاظاہرہوتی ہے :
۱۔ کنٹریکٹ پالیسی
۲۔ سرکاری اِداروں میں قومی لباس پرپابندی
۳۔ قومی زبان کی توہین
۴۔ مخلوط ٹریننگز کا انعقاد
۵۔ مردانہ اداروں میں خواتین اساتذہ کاتقرر
۶۔ انگریزی ذریعہ تعلیم کاجبری نفاذ
۷۔آرٹس ایجوکیٹرز کا استحصال
۸۔لڑکوں اور لڑکیوں کے سکولوں کاانضمام
۹۔ عرَبی زبان(لازمی) کی لازمی حیثیت کوختم کرنا
۱۰۔ نصاب تعلیم میں سے دینی مواد کا اِخراج وغیرہ...

مغرب کی اندھادُھندتقلید سے کسی خیر کی ہر گزتوقُّع نہیں کی جاسکتی۔ہمیں کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے اپنی تہذیب وتمدُّن کو بھی مدِّنظر رکھناچاہیے۔بقول شاعرِمشرق علّامہ اقبالؒ :
؂ اپنی ملّت پرقیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

تعلیمی سال ۲۰۱۳ء ۲۰۱۴-ء میں نصابِ تعلیم میں سے غیرمُلکی آشیرباد پر نظریہ پاکستان ونظریہ اسلام سے متعلق مواد کااِخراج توہمارے تعلیمی انحطاط کی بدترین مثال ہے۔ ایساتعلیمی انحطاط تودنیا نے دیکھاتک نہیں۔ اس طرح کی بھیانک تبدیلیوں سے توقومیں تباہ وبرباد ہوکر رہ جاتی ہیں۔ ان کی گئی تبدیلیوں میں سے چند مثالیں درج ذیل ہیں:
صوبہ پنجاب میں جماعت پنجم سے دہم تک معاشرتی عُلوم اور اُردو کے میں نصاب میں سے سیرت النبی ﷺ ، تاریخِ اِسلام وپاکستان سے متعلّق تمام مواد کو خارج کردیا گیااورنصاب کے ذریعے نسل کُشی کی اِس سے بد ترین مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔افسوس اِس بات کا ہے کہ ہمارے اپنے ہی اِس قومی خودکشی پرجشن منا رہے ہیں۔ذرا اِنصاف سے جائزہ لیجئے کہ کِس طرح کمال ڈھٹائی کے ساتھ سیرت النبی ﷺ سے متعلق اسباق کو نکالا گیا۔کیا یہ تمام اقدام کرنے والے مسلمان نہیں تھے؟ کیا وہ عاشقِ رسول ہونے کے دعویدار نہیں تھے؟کیاتاریخ ِاسلام اور تاریخِ پاکستان سے اُنہیں اِس قدرچِڑتھی کہ اُنہوں نے اُن سے متعلّق ایک سبق بھی برداشت نہ کیا؟

اِن تمام تبدیلیوں کامقصد نسلِ نَو کو اسلام،تاریخ اسلام ، نظریہِ پاکستان،قومی زبان اورغیرتِ دین وملّت سے تہی دامن کرناہے ۔ اس مکروہ سازش میں ہمارے اپنے بھی پیش پیش ہیں۔
؂ دِل کے پھپھولے جَل اُٹھے سینے کے داغ سے اِس گھرکوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

اِس کے علاوہ حکومت کی اسلام وپاکستان دشمن پالیسیوں کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ نئے ہائرسیکنڈری سکولوں میں نو مضامین کی پالیسی اپنائی گئی ہے جن میں صرف سائنس مضامین اورانگریزی کو شامل کیاگیاہے۔حیرت اِس بات پہ ہے کہ ان مضامین میں نہ اسلامیات شامل ہے نہ عرَبی اور نہ مطالعہ پاکستان کیونکہ اِن کا تعلُّق اسلام اورپاکستان سے ہے اور اسلام کے نام پر وُجود میں آنے ملک میں اسلام اور اُس سے متعلَّقہ تمام مضامین بے یارومددگارہیں۔صرف ان قوم کُش تعلیمی پالیسیوں پر بَس نہیں کی گئی۔ ابھی آنے والے وقت میں ایسی تباہ کُن تبدیلیاں کی جائیں جن کے سامنے اب تک کی گئی تبدیلیاں ہیچ ہوکررہ جائیں گی۔ DEA ، ِE.Education اور نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۱۴ء اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

حق تو یہ تھا کہ اِس مملکتِ خداداد میں عوامی اُمنگوں کے مطابق اور ملکی وبین الاقوامی حالات اورجدید تقاضوں کے مطابق اپنے نظامِ ونصابِ تعلیم میں تبدیلیاں کی جاتیں اوراِس بارے میں کسی بھی بیرونی مُداخلت کو خاطر میں نہ لایاجاتا لیکن افسوس کہ سب کچھ اِس کے اُلٹ ہوکررَہ گیا۔ہمارے وطنِ عزیز میں پہلے ہی بہت سی طبقاتی ،گروہی ومسلکی ،صوبائی ولسانی اختلافات و تعصُّبات کی بہتات ہے۔ پہلے صرف پرائیویٹ سکولوں اورکالجوں میں انواع واقسام کے نصابِ تعلیم رائج تھے اب اِس خدمت میں سرکاری سکولوں کو شامل کردیاگیا ۔

اِن تمام ترخرابیوں کا علاج ناممکن ہرگز نہیں۔ اگر تعلیم کے شعبہ میں بیرونی مُداخلت پرپابندی لگادی جائے اور تعلیم کے شُعبہ میں اپنے قومی مفادات وضروریات کے مطابق اصلاح کرلی جائے تو تمام تعلیمی اِنحِطاط کو تعلیمی ترقی میں تبدیل کیاجاسکتاہے۔
؂ دل مُردہ دل نہیں ہے اِسے زندہ کردوبارہ
کہ اُمتوں کے مرضِ کہن کا ہے یہی اِک چارہ

اِس جنّت نظیر مملکتِ خداداد کے تحفّظ وسلامتی کے لئے تما م محبِّ وطن شہری اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے میدان میں آئیں اوراپنے حصّے کاکردارادا کرتے ہوئے جنت نظیر مادرِوطن کے تعلیمی اِنحطاط کاسدًباب کرتے ہوئے اِس کی جغرافیائی ونظریاتی سرحدوں کی حفاظت کویقینی بنائیں کیونکہ اِسی میں ہم سب کی فلاح وبقاکارازپنہاں ہے۔
؂ شکوہ ظلمت ِ شب سے تو کہیں بہترتھا
اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
 

Akbar Ali Javed
About the Author: Akbar Ali Javed Read More Articles by Akbar Ali Javed: 21 Articles with 58120 views I am proud to be a Muslim... View More