عا لم اب گل میں ،، میں ایک د
یہاڑی دار تھا ،اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پا لنے کے لیے مجھے روز کما نا
پڑتا ،،ایک دن اگر میں کام پر نہ جاؤں تو یقیناً پیٹ کے لیے ہاتھ پھیلا نے
پڑتے ،،جو مجھے گوارا نہیں تھا ،صبح سویرے میں اپنے رزق کے حصول کے لیے
نکلتا ،اور شا م ڈھلتے لوٹتے ہوئے پنچھی کی ما نند میں بھی گھر کو لوٹ
آتا،،لمبی مسا فت کر کے جیسے کوئی پر ندہ ،اپنے گھو نسلے میں پہنچتا ہے تو
اس کے ننھے منے بچے چوں چوں کر کے اپنی چونچ کھولتے ہیں ،تو وہ سب میں
تھوڑی تھوڑی کر کے خوراک ڈالتا ہے ،جب سب ختم ہو جاتی ہے ،تو اس کے بچے
مسلسل اپنی چونچ کھول کے رکھتے ہیں ،،،،شائد ان کا پیٹ ابھی تک نہیں بھرا ،یا
شائد تھوڑا اور مل جائے، میری کہانی بھی کچھ اسی طرح کی تھی ،،،، جو کماتا
وہ مشکل سے پورا کرتا ،، پھر اگلے روز پیٹ کو بھرنے کے لیے کسی پرندہ کی ما
نند مجھے بھی پرواز پکڑتا پڑتی ، اور ساتھ ساتھ الله کا شکر بھی ادا کرتا
،، مگر پھر بھی کچھ حسرتیں کچھ چھوٹی خواَہشیں میرے اندر ایسی بھی تھی تو
جو مجھے تڑپا کے رکھ دیتی تھیں ،جو میرے ذہین میں ایک طوفان سا برپا کر کے
رکھتی تھیں ،مثال کے طور پر ..میرا بچہ جب کسی طفل کو سائیکل چلاتے ہوے
دیکھتا ،تو وہ مجھ سے اس کی فرمائش کر بیٹھتا مگر میرا جواب خاموشی ہوتا ..یا
کسی تہوار میں، میں اپنے اہل و عیال سے نظریں چرائے رکھتا ، یہ میری بے بسی
، میری مفلسی تھی ،،یہ سلسلہ کب تک چلتا ، روز میں اپنے بچوں کی حسرتوں کو
نہیں دبا سکتا تھا ،، میں اپنے بچوں کی خواہشوں کی تکمیل چاہتا تھا، ،میں
اب غریبی کے ہاتھوں بے بس ہو چکا تھا، اس لئے میں نے آج فیصلہ کر لیا تھا ،
کہ کچھ بھی ہو ،میں کچھ ایسا کروں گا ،جس سے میری بے بسی ختم ہو سکے ، جس
سے میں اپنی بچوں کی حسرتوں کو پورا کر سکوں ،،،آج میں نے فیصلہ کر لیا تھا
،کہ رزق کے حصول کے لیے ،میں اب ماضی کی کہا نی نہیں دہراؤں گا ،میں آج کچھ
نیا کروں گا ،، کچھ ایسا جس سے میری بے بسی ختم ہو سکے ،،اس لئے آج گھر سے
نکلتے کے بعد راستے میں چلتے ہوئے میں تھوڑا رکا ، کچھ لمحہ سوچا ،مگر پھر
اپنے سر کو ایک جھٹکا دیتے ھوئے آگے کی جانب چل دیا ،،میرے شعور میں لا
تعداد خیالات گردش کر رہے تھے ،جس میں کچھ خوف اور اس خوف کے اثرات نمودار
تھے ، مگر میں فیصلہ کر چکا تھا ،راستے میں ،، میں نے اپنے ایک دوست کو
اپنے ساتھ لیا اور ہم دونوں منزل کی جانب گا مزن ہو گئے ،میرے دوست کے پاس
زیست کو موت میں بدل دینے وا لا الہ بھی موجود تھا .جو ہمارے لینے با عث
بھا د ری تھا ،ہم دونوں کسی انجان شخص کی تا ک میں بیٹھ گئے ،، تھوڑی د یر
بعد ہماری امید یں بر لایں ،ایک شخص جو تنہا تھا میرے دوست نے مجھے اشارہ
کیا ،،،،اور پھر ہم نے اسے د بو چ لیا ،،،وہ دہشت زدہ انسان بے سکت کھڑا
رہا ،، ہم نے اس سے کچھ نقدی اور سامان نکالا ہمارا یہ عمل جاری تھا کہ
اچانک ایک شور برپا ہوا اور پھر دوسرے لمحے کچھ سیکورٹی کے لوگ بھی وہاں
پہنچ گئے ،،،ہم نے بھاگ جانے کا سوچا ،، مگر ہماری یہ سوچ ،،سوچ تک ہی
محدود رہی ،میرے نا دان دوست نے سیکورٹی والے پر گن سے حملہ کر دیا ،مگر
جوابی حملے میں نجانے کیا ہوا ،، مجھے ایسے لگا ،،جیسے کسی قوی چیز نے میرے
تن بدن کو چیر ڈالا ہو ،،اور اس کا درد اتنا ہیبت ناک تھا کہ میں سہ نہ سکا
،میں نیم بے ہوشی کی حا لت میں ،،تماشہ مخلوق تھا ،،میری منزل مجھے بہت
قریب لگنے لگی ،،اچانک میری سماعتوں میں کچھ دل ہلا دینے والی آوازیں
ٹکرانے لگی ،کسی نے کہا لٹیرے تھے ،کسی نے دہشت گرد ،اور کسی نے ہمیں
طالبان کا نام دیا ،اور کسی نے تو یہاں تک کہا ،خدا کا شکر ہے ہم مارے
گئے،،نہیں تو ملک کسی بڑی تباہی کا سبب بن جاتا ،اور پھر میں کچھ نہ جان
سکا ،،سما عتوں سے ٹکرانے والی آوازیں اب مدھم پڑنے لگی تھیں ،نگاہوں میں
دور دور تک روشنی کا نشان تک نہیں تھا ،میری اکھڑتی ہوئی سانسوں کی ڈور اب
ٹوٹنے لگی تھی ،،ذہن جو کچھ لمحہ پہلے اپنے بچوں کو سوچ رہا تھا ،اب مفلوج
ہونے لگا تھا ،ان کی حسرتیں میرے سا تھ دفن ہونے والی تھی ،،،،،اور میں
عالم اب گل سے بہت دور تھا ،،،پاس میرے عد ن ،عیناب ،انجھور تھا ،،،،،کسی
حسین وادی کا سرور تھا ،،،اورپھر میں نے خود کو عالم ارواح میں پایا ،،یہاں
پر مجھے دنیا چھوت جانے کا کوئی غم نہیں ہے ،،یہاں میں بہت خوش ہوں ،یہاں
پر کوئی غریب نہیں ہے ،،یہاں پر کوئی امیر نہیں ہے ،،یہاں پر کوئی خواَسہن
نہیں ہے ،،یہاں پر کوئی خواہش ابھارنے والا بھی نہیں ہے، ،میرے بعد نجانے
میرے جگر گوشے کیسے ہوں گے ، مگر اتنا ضرور جانتا ہوں ، کہ ظالم سماج ،،بے
پرواہ حکمران ،ان کی غریبی کو تا ل نہیں سکے ہوں گے ،اور خوایش ابھرنے والے
امراان کی حسرتوں کو کبھی دبا نہیں سکے ہوں گے ،،وہ ابھی بھی حسرتوں کی
تکمیل کے طالبگار ہوں گے ،میرے عمل سے کچھ کمزور ضرور پر گئے ہوں گے ،،یہاں
پر نجانے کتنے میرے جیسے آتے ہیں ،ان میں اکثر کی کہانی میرے جیسی ہوتی ہے
،وہ بھی اسی غریبی کا رونا رو کر یہاں آتے ہیں ،اور نجانے کتنے یہاں اور
آئیں گے ،،یہ سلسلہ شاید ایسے جاری رہے جب تک یہ حکمران جگ نہیں جاتے ،، |