ملزم بچ کر نہیں جا سکتے،ملزموں کو کیفر کردار تک
پہنچائیں گے،تفتیش جاری ہے،ہم متاثرین کے ساتھ ہیں۔مجھے جلد از جلد رپورٹ
پہنچائی جائے،از خود نوٹس لے لیا گیا،ملزم قانون سے بچ کر نہیں جاسکتے
ہیں،یہ جنونیت ہے، ایسے واقعات دین سے دوری کی وجہ سے ہیں،سر عام پھانسی دی
جائے ملزموں کو نشانِ عبرت بنایا جائے وغیرہ وغیرہ
وہی پرانے دعوے، وہی دھوکہ دینے والے الفاظ ،وہی گھسے پھٹے ڈائیلاگ،وہی
جھوٹے وعدے،وہی دکھاوے،وہی چالاکیاں،وہی سیاسی چال بازیاں ،وہی پرانی
فرسودہ اور وقتی چھٹکارہ حاصل کرنے والی غلامانہ سوچ ۔وہی ریٹنگ بڑھانے کے
لیے مایوسی سے بھرپور ہتھکنڈے ۔وہی غیر ملکی این جی اوز اور سول سوسائیٹیز
کے ڈرامے۔
مظفر گڑھ:ہوس پرستوں کے ظلم کا نشانہ بننے کے بعدایک اور بیٹی قانون اور
قانون نافذ کرنے والے اداروں سے انصاف نہ ملنے کے سبب اقدام خود کشی کر
بیٹھی ۔پچھلے کچھ عرصہ کا مشاہدہ کریں تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا
بیٹیاں اﷲ تعالیٰ اسی لیے دیتا ہے کہ بااثر اور سیاسی قد کاٹھ رکھنے والے
ہوس پرست اپنی کبھی تیزاب پھینک کر تو کبھی سر عام برہنہ کر کے تو کبھی عزت
تار تار کر کے انھیں اپنی ہوس کا نشانہ بنائیں اور قانون سے’’ استثنیٰ
‘‘حاصل کر کے بلا خوف و خطر دھندناتے پھریں؟
یقینا یہ ایک بہت بڑا ظلم ہواہے اور اک مسلم ملک میں ایسے واقعہ کا ہونا نہ
صرف وہاں کے باسیوں کے لیے باعثِ شرم و ندامت ہے بل کہ اُس ملک کی بنیاد پر
بھی ایک کاری ضرب ہے تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت کی زندگی
بسر کر رہے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ ایسا ہو مگر فرق ہدایت و نور کا ہے زمانہ
جاہلیت میں عوام کے پاس ہدایت کے لیے کوئی واضح اور سچا راستہ نہیں تھاتب
لوگ بھٹکے ہوئے تھے مگر جیسے ہی ہدایت و نور کا سچاراستہ اُن کو ملا تو وہ
راہِ راست پر آگئے اور ایک ایسی مہذہب معاشرہ بنا جس کا ثانی تاریخ میں
نہیں۔جب کہ اب ہدایت کا سرچشمہ ہرگھر،ہر محلہ،ہر گلی ، ہر دکان اور بے شمار
سینوں میں ہے مگر جاہلیت کی انتہا۔۔۔۔۔۔۔۔اﷲ کی پناہ۔
جنونیت،جسمانی ہو یا دماغی ہو ،اندھا کردیتی ہے۔جنونیت انتقام کی آگ بجھانے
کے لیے استعمال کی جاتی ہے یا پھر طاقت کے نشے میں بد مست ہو کر جنونی بنا
جاتاہے، جنونی کو ذہنی مریض کہہ بھی دیا جائے تو کیا؟۔۔۔ظالم تو ظالم ہی
ہے۔۔۔ظالم کی چھوٹ نہیں ہے۔۔۔دنیا کی عدالت میں ظالم مختلف ہتھکنڈے استعمال
کر کے شاید چھوٹ بھی حاصل کر لے مگر اﷲ کی عدالت میں نہیں۔
جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والوں کو جنونی کہیں یا ذہنی مریض سزا ضروری
ہے۔جہاں تک سزائیں متعین کرنے کا تعلق ہے تو اس کے لیے کسی قانون دان،سیاست
دان،مفکریا کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ایک
اسلامی مملکت میں ایسی قانو ن سازی کا ہونا یا نہ ہونا ایک الگ مسئلہ ہے
لیکن ضرورت نہیں ۔قرآن و حدیث میں جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے لیے
عمل درآمد پر بھی زور دیا گیاہے۔ لیکن ان سزاؤں پرعمل درآمدکون کروائے؟کیا
وہ جو صرف لواحقین کے ساتھ تصاویر بنوا کر سیاسی ڈائیلاگ جھاڑ دیتے ہیں یا
وہ جو صرف دلاسے دے کر بھول جاتے ہیں؟
اسی سے ایک واقعہ یاد آگیا کہ کچھ عرصہ پہلے ملک خداداد پاکستان کے ایک
وزیر محترم ایک مقتول کے بیٹے سے ملے اور جب مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے
کا ڈائیلاگ مارا تو مقتول کے بیٹے نے جواب میں کہاکہ جناب آپ اپنے والد کے
قاتلوں کو تو پکڑو ا نہ سکے تو کیا خاک میرے والد کے قاتلوں کو پکڑیں گیاور
سزادلوائیں گے۔ اس پر ان وزیر صاحب کو ذرا بھی ندامت و شرمندگی نہ ہوئی
،شاید کہ وزیر یا عوامی نمائندے بننے کے لیے شرمندگی اور احساس کو بالائے
طاق رکھنا پڑتاہے۔
سننے میں آیا ہے کہ ہمسایہ ملک میں جنسی تشدد کرنے والے چار افراد کو سزائے
موت دی گئی ہے۔شاید کے اس اقدام سے جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی طالبہ کے
لواحقین کو کچھ سکون ملا ہو مگر کیا جمہوریت کی پاسدار اس حکومت نے ایسے
واقعات و سانحات کے روک تھام کے لیے کچھ اقدامات کیے یا صرف وقتی دلاسہ
حاصل کرنے اور دینے کے لیے مجرموں کو سزائے موت دی؟کیا یہ سوچاگیا کہ یہ
اقدامات کیوں ہوتے ہیں اور ان کامنبع کیا ہے؟ کیا مستقبل میں ایسے واقعات و
سانحات مجرموں کو سزائے موت دینے سے رک جائیں گے؟
اگر ملک خداداد پاکستان کے ارباب اختیار مظفر گڑھ کی اس بیٹی کے ساتھ ہونے
والے ظلم کا کچھ مدارا کر سکے تو مذکورہ بالا سوالات انھیں سے بھی ہیں۔ |