۲۲ ہزار مربع میل پہ تن تنہا حکومت کرنے والے حکمران کو
رعایا نے روتے اور آنسو بہاتے دیکھا ۔ وجہ دریافت کی تواس سخت جان صحرا
نشین نے ورع کی حالت میں کہا ـ" اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر
گیا تو اس کا حساب عمر سے لیا جائے گا" ۔ یہ ہے تاریخ اسلامی کا درخشندہ
باب جب خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر فاروق ؓ جیسا مقرب صحابی بھی اس خوف کا
شکار ہے کہ رعایا کو درپیش کسی بھی تکلیف کی ذمہ داری انہی پہ عائد ہوتی ہے
اور اﷲ کے سامنے اسکے جوابدہ ہوں گے۔ مگر اسی امت مسلمہ پہ اب ایسے حکمران
براجمان ہیں جو بے حسی ، لاپروائی اور بربریت کی مجسم تصویر ہیں ۔
پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک صحرا ہے جسے تھرپارکر کہتے ہیں ۔ یہ دور جدید
میں صحرائی زندگی کی علامت ہے ۔اگر کوئی قدیم دور کی جھلک دیکھنا چاہے تو
وہ تھرپارکر دیکھے جو غربت اور بے بسی کی علامت ہے ۔ جہاں آج بھی بارش کا
جمع شدہ بدبودار پانی پیا جاتا ہے ، جہاں آج بھی اونٹ ہی سواری کا ذریعہ
ہیں ، جہا ں آج بھی خس و خاشاک کی جھونپڑیاں انسانی زندگی کا پتہ دیتی ہیں
، جہاں آج بھی خانہ بدوشی ہے ، جہاں آج بھی بھوک کا راج ہے اور افلاس رقص
کناں ہے ۔ بارانی علاقہ ہونے کی وجہ سے انسانی ، حیوانی اور نباتاتی حیات
کا کلی انحصار بارش پہ ہی ہے ۔ اگر یہ بارش نہ ہو تو زندگی بھی قحط کا شکار
ہو جاتی ہے ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اس سال بھی درپیش ہے، بارش کی قلت کی وجہ
سے تھرپارکر قحط کا شکار ہے ۔لوگ قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور
اموات واقع ہو رہی ہیں ۔ ہلاک شدگان میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے ۔ اب تک
200 سے زائد افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور بقیہ حالات کے رحم و کرم پہ
اپنی باری کے منتظر ہیں۔ یہ سب اچانک نہیں ہوا اس سے قبل مال مویشیوں کی
اموات نے بگل بجا دیا تھا مگر سندھ ثقافتی میلہ کے سریلے سروں نے حکمرانوں
کے کانوں میں اس بگل کی آواز پہنچنے ہی نہیں دی ۔ ابھی کچھ ہی روز قبل یہاں
وزیر اعظم پاکستان ، وزیر اعلی سندھ اور سابق صدر زرداری نے جلوہ افروز ہو
کر قوم کو کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کا مژدہ سنایا تھا ۔سب نازاں
و فرحاں تھے کہ قوم کو روشنی ملے گی مگر کیا خبر تھی کہ چراغ تلے اندھیرا
ہے ، دنیا میں کوئلے کے تیسرے بڑے ذخیرے کے ڈھیر پہ بھوک و افلاس کا بسیرا
ہے اور اسکے شکار عوام کو موت نے آن گھیرا ہے ۔
عوام علاقہ کی پریشانی کی ذمہ دار ی تو سندھ حکومت کے سر ہے جو وہاں کے
سیاہ و سفید کی مالک ہے ۔ قحط کی صورتحال تو یہاں ہر سال اور سارا سال رہتی
ہے مگر اصل مسئلہ بدعنوانی اور بدانتظامی کا ہے ۔ گندم کے ذخائر موجود ہونے
کے باوجود غیرمنصفانہ تقسیم کی وجہ سے بھوک نے انسانی جانیں لے لیں اور
سندھ حکومت اسے قدرتی آفت قرار دے رہی ہے ۔ایسے وقت میں جب تھر کے عوام
مسیحا ئی کے منتظر ہیں سندھ حکومت دھڑلے سے دعوی کرتی ہے کہ کوئی ڈاکٹر اس
علاقے میں کام کرنے کو تیار ہی نہیں ۔ کوئی ان سے یہ تو پوچھے کہ یہ کیسی
حکومت ہے جو اپنے تنخواہ داروں کو عوام کی خدمت پہ مامورتک نہیں کر سکتی
؟ان عقل کے اندھوں نے ریوڑیاں اپنوں میں جو بانٹ دی ہیں ۔ جن اقربا ء کو
نوکریوں سے نوازا گیا ہے اب انہیں صحرا کی دھوپ میں تو نہیں جھونک سکتے
۔اور ان سے پوچھے بھی کون ؟ عوام تو ایسے بھولے ہیں کہ انہی سانپوں کی پوجا
کر رہے ہیں جو انہیں بارہا ڈستے چلے آ رہے ہیں ،وہ انہی کے گیت گا رہے ہیں
اور انہی کے لیے زندہ باد کے نعرے بھی لگا رہے ہیں ۔
کچھ روز قبل سندھ کی دھرتی پہ موئنجوڈرو کی تہذیب اجاگر کرنے کے لیے میلے
(سندھ فیسٹیول) کا انعقاد کیا گیا اربوں روپے کی عوامی دولت سے ایک دھما
چوکڑی سجائی گئی اور مغربی تہذیب کارقص ابلیس برپا کیا گیا اور اس سب کو
سندھ ثقافت قرار دیا گیا ۔عین اسی وقت تھر کے عوام بھوک اور افلاس کے
ہاتھوں موت کو گلے لگا رہے تھے ۔ شاید پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت مصمم
ارادہ کر چکی ہے کہ سندھ کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک موئنجوڈرو کافی
نہیں اسلیے تھر میں دوسرا موئنجوڈرو قائم کیا جائے تاکہ آئندہ نسلیں بھی
یاد کریں کہ تھرپارکر میں بھی کسی تہذیب کدہ کے آثار ہیں جو کسی کی
بدتہذیبی اور چنگیزیت کا شکار ہو گیا ۔کاش کہ موئنجو ڈرو کے کھنڈرات سے
کوئی تو عبرت ہمارے حکمرانوں کو ہوئی ہوتی ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ سندھ کے
حکمران قائم علی شاہ کا تعلق تو ایسے خانوادے سے ہے جسکے بزرگوں نے حق کی
صدا بلند کی تھی اور کربلا میں فرات کے کنارے اپنی جانیں قربان کی تھیں
لیکن شاہ صاحب کی حکومت نے یہ یزیدیت اور فرعونیت کیونکر برپا کی۔ایسا لگتا
ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنان نے متفقہ طور پہ حیاء کو شجر
ممنوعہ قرار دے دیا ہے ۔وزیر اعظم کی آمد پر پرتعیش ضیافت کا اہتمام تھر کی
بھوک اور افلاس کے ساتھ مذاق نہیں تو پھراورکیاہے؟
ایسی نازک صورتحال میں لبرل طبقے کے کرتوت تو عوام کے سامنے ہیں ۔ تھر کے
عوام کے زخموں پہ اگر کسی نے مرہم رکھا ہے تو وہ ملک کا مذہبی طبقہ ہے جسے
انتہاپسندی اور دہشت گردی کا محرک قرار دیا جاتا ہے ۔ مذہبی تنظیموں خاص کر
جماعت اسلامی نے تھر کے عوام کے مسئلے کو سمجھا ہے اور اس کے حل کے لیے
عملی کام بھی کیے ہیں ۔ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے امدادی قافلے روانہ
کر دیے ہیں ۔ امدادی سامان کی تقسیم کے لیے ٹیمیں بھی روانہ کر دی ہیں ۔
اسی طرح ڈاکٹروں کی ٹیمیں بھی روانہ کی گئی ہیں جو خدمت خلق کے جذبے سے
وہاں امدادی سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں ۔ اس کے علاوہ مستقل بنیادوں پہ
پانی کے مسئلے کے حل کے لیے نعمت اﷲ خان صاحب نے پیرانہ سالی میں اپنی
کاوشیں کی ہیں ۔ زمزم پراجیکٹ کے تحت 600 سے زائد کنویں کھودے جاچکے ہیں
تاکہ تھر کے عوام کو میٹھا اور صاف پانی دستیاب ہو سکے ۔ علاقے کی پسماندگی
دور کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کا نیٹورک بھی کام کر رہا ہے ۔ اگرارباب
حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور یہ کاوشیں حکومتی سطح پہ کی جائیں اور
دیانت داری کو اپنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کا کوئی بھی علاقہ
پسماندگی کا شکار ہو۔ اﷲ تعالی سے دعا ہے کہ اس دشت میں پنہا کوئلے کی دولت
کو عوام علاقہ کی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنائے او ر صد ہا سال سے پسماندہ
علاقے کو ترقی و روشنی کا گہوارہ بنائے ۔ آمین |