قرآنی اوراق کی بے حرمتی اور عدم برداشت

خبر ہے کہ صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں منشیات کے عادی ایک شخص نے مقدس اوراق کی مبینہ طور پر بے حرمتی کی، جس کے بعد سے علاقے میں ہنگامے شروع ہو گئے ۔پولیس کے مطابق نشہ آور شخص کی عمر بتیس سال ہے اور وہ ہندو برداری سے تعلق رکھتا ہے ،اس واقعے کی خبر پھیلنے کے بعد مشتعل افراد نے لاڑکانہ شہر میں جمع ہوئے اور علاقے میں واقع دھرم شالہ کو آگ لگا دی ،جس کے نتیجے میں دھرم شالہ جزوی طور پر جل گیا۔ پولیس کا مزید کہنا تھا دھرم شالہ کے اندر ایک مندر بھی واقع ہے جس میں گھس کر نامعلوم افراد نے توڑ پھوڑ کی ہے۔ مقامی تھانے کے اہلکاروں نے ہندو مرد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا، اس قبل مشتعل افراد پولیس کو اس شخص کو نہیں لے کر جانے دے رہے تھے ۔سطور تحریر کرتے وقت خبر ہے کہ حیدر آباد اور اس سے ملحقہ علاقوں میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں دکانیں جلائی گئی،سامان لوٹا گیا، مندروں کو جلانے اور دیگر واقعات کی وجہ سے ہندو برداری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کر رہی ہے۔ اس کے گھناؤنے فعل سے مسلمانوں کو دلی افسوس ہوا،مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ایک ہندو شخص کے فعل کی سزا علاقے میں بسنے والے تمام ہندو ؤں کو دی جائے ،ان کی مقدس مقامات کو جلایا جائے ،ملکی املاک کو نذر آتش کیا جائے،یہ قطعاً مسئلے کا حل نہیں ہے اور نہ ہی قانون ہاتھ میں لینے کا کسی شہری کو حق ہے ۔اس واقعے کی عدالتی تحقیقاتی کروائی جائیں اگر مطلوبہ شخص قصور وارپایا گیا تو اسے کڑی سے کڑی سز ا دی جائے۔

دوسری طرف گذشتہ روزامریکی حکومت کے مشاورتی پینل کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں ان ممالک کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو توہین مذہب کے قوانین کو استعمال کر رہے ہیں اور توہین مذہب کے قانون کے تحت پاکستان نے سب سے زیادہ افراد کو قید کیا ہے۔ کمیشن نے امریکی حکومت کو تجویز دی ہے کہ حکومت پاکستان پر زور دیا جائے کہ وہ کالعدم تنظیمیں جیسے کہ تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی ہیں کے خلاف ملک گیر آپریشن شروع کریں اور ان کے رہنماؤں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ توہین مذہب کے قانون کے استعمال پر اس وقت تک پابندی عائد کر جب تک یا تو اس قانون میں اصلاحات نہیں لائی جاتی یا پھر اس قانون کو ختم کر دیا جائے۔اس قانون کے تحت قیدیوں کو فل فور رہا کیا جائے سمیت مختلف مطالبات بھی کیے گئے ہیں۔

افسوس کا مقام ہے کہ امریکہ کے جیل میں قید عافیہ صدیقی کے خلاف 86سال کی قید کے ظالمانہ فیصلہ پر تو کوئی امریکی انسانی حقوق کی تنظیم آواز نہیں اٹھاتی جب بات مسلمانوں کی عظیم ہستی آقا دو جہاںﷺ کی گستاخی کی آئے تو وہاں نام نہادکمیشن مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں۔ دین اسلام کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ گستاخی مذہب کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’نبی کریمؐ مومنوں کے لئے اپنی جانوں سے بڑھ کر عزیز ہیں‘‘ (الاحزاب: 6)

ایک ملعون جس کا نام ابن خطل تھا وہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں غلیظ شعر کہا کرتا تھا اس کی دو لونڈیاں یہ شعر اس کو گا گا کے سناتی تھی۔ فتح مکہ کے دن وہ حرم مکہ میں پناہ گزیں تھا۔ ابوہرزہؓ نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق اسے وہیں جہنم رسید کیا عام طور پر غزوات اور جنگوں میں آپؐ کا حکم ہوتا کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائے لیکن توہین رسالتؐ اسلامی شریعت میں اتنا سخت جرم ہے کہ اسکی مرتکب عورت بھی قابل معافی نہیں چنانچہ ابن خطل کی مذکورہ دو لونڈیوں کے علاوہ دو اور عورتوں کے بارے میں بھی جو آپؐ کے حق میں بدزبانی کی مرتکب ہوئی تھیں قتل کا حکم جاری کیا وہ منظر بھی میرے سامنے آ رہا ہے۔ مدینہ میں ایک صحابی کی ایک چہتی اور خدمت گذار لونڈی جس سے انکے بقول انکے موتیوں جیسے دو بیٹے بھی تھے رسول اکرم صلی اﷲ صلی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی اور بدزبانی کا ارتکاب کیا کرتی تھی۔ یہ نابینا صحابی اسے منع کرتے مگر وہ باز نہ آتی۔ ایک شب وہ بدزبانی کر رہی تھی انہوں نے اس کا پیٹ چاک کر دیا جب یہ معاملہ حضورؐ کے ہاں پیش ہوا تو حضورؐ نے فرمایا ’’لوگو! گواہ رہو اس خون کا کوئی تاوان یا بدلہ نہیں ہے‘‘ (ابوداود، نسائی)۔

فتح مکہ کا موقع تھا حضرت محمدؐ اپنے دشمنوں کو معاف فرما رہے تھے گستاخ رسولؐ کعب بن اشرف کے قتل کا حکم جاری ہوا تو قتل ہوا جب یہودیوں نے آپؐ سے کعب کے قتل کی شکایت کی تو آپؐ نے فرمایا اس نے جو تکلیف دہ گستاخیاں کی تھیں اگر تم میں سے کوئی اور کریں گا تو اس کی سزا بھی یہی ہوگی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تلوار گستاخ رسول کے لئے اُٹھی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے خلافتی دور میں تمام گورنروں کو خط لکھیں گستاخ رسول کو قتل کر دیا جائے۔ ایک مسلمان نبی کریمؐ کی گستاخی کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کر سکتا وہ اس مسئلے پر جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا جان کی بازی لگانے کو سعادت سمجھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریمؐ سے محبت کے ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔
توہین رسالت کے حوالے سے موجود قانون 295 سی کو ختم کرنا جرم اور مسلمانوں کی دل آزادی کا باعث ہے کیوں کہ یہ قانون صرف عیسائیوں کے لئے نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لئے یکساں ہے۔ پچھلے 20 سالوں سے 295 سی کے تحت تقریباً 700 مقدمات درج ہوئے جس میں آدھے مسلمانوں کے اوپر ہیں۔ البتہ اس قانون میں ترمیم کی جا سکتی ہیں مثلاً جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی سزا موت دی جائے، انوسٹی گیشن DCO سے شروع کی جائے اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو 1860ء میں برطانوی سامراج نے دفعہ 295,297,296,298 کو پورے برصغیر میں نافذ کیا تھا ان دفعات کا تعلق کسی بھی مذہب کے عقائد و نظریات کے بارے میں زبانی یا عملی تکلیف پہنچانے کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ یہودی قانون میں بھی توہین رسالت کی سزا موجود ہے۔ Levi ti CUS 24-11-16 اور میثاق جدید بایئبل میں موجود ہے Mathew توہین رسالت کو نا قابل معافی جرم قرار دیتی ہے۔

قتل کا حکم حضرت محمدؐ کی ذاتی انتقام پسندی کی وجہ نہ تھا بلکہ آپؐ کے بارے میں حضرت عائشہؓ اور صحابہ اکرامؓ گواہ ہیں کہ آپؐ نے کسی سے انتقام نہیں لیا بل کہ اس کی وجہ شاتم رسول دوسروں کے دلوں سے عظمت و توقیر گھٹانے کی کوشش کرتا اور ان میں کفر و نفاق کے بیچ ہوتا ہے۔ جو قلم آپؐ کی گستاخی کیلئے اُٹھتا ہے اگر اسے توڑا نہ جائے اور جو زبان آپؐ کے بارے میں غلط الفاظ نکالتی ہے اسے کاٹا نہ جائے تو اسلامی معاشرہ فساد اعتقادی و عملی کا شکار ہو کر رہ جائیگا۔

اب ضرورت اس امر کی ہے مغربی ممالک پر زور دیا جائے کہ وہ شاتم رسول کو سیاسی پناہ دینا بند کریں۔ امریکہ اور مغربی ممالک سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین، یوسف کذاب کو اپنے ہاں پناہ دیتے ہوئے ہیں تعصبانہ رویہ یہاں سے معلوم ہوتا کہ گستاخ رسول ملعون سلمان رشدی کو سر کا لقب بھی دیا گیا۔ مجرم ممالک سے سفارتی تعلقات، تجارتی روابط اور دیگر معاہدات اسے وقت تک منقطع کیے جائیں جب تک وہ توہین رسالت و مذہب کے مجرمین کو قرار واقعی سزا نہ دیں۔ اقوام متحدہ کے مسلم ممالک جنرل اسمبلی میں توہین انبیاء کی روک تھام اور مجرمین کو احتساب کے شکنجے میں لانے کے لئے قانون سازی کا بل پاس کرائیں یہ مسئلہ امت کے عقیدے کا ہے اس میں کوئی مسلکی اختلاف نہیں ہے۔ دوسری طرف ہمیں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں قانون موجود ہے ۔کسی شخص کو قانون ہاتھ میں لے کر ملکی املاک یا کسی شخص کی جان و مال کا نقصان کرنا قطعی طورحق نہیں ایسے عناصر کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔

Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 54979 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More