پولیس اور صحافی چولی دامن کے ساتھی ہیں تو پھر……!

چولی دامن کا لفظ ہماری روز مرہ کی لغت میں عام استعمال ہوتاہے اکثر وبیشتر اسے دو افعال ،اعمال ،اشخاص یا واقعات کو جوڑنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جب کبھی وکلاء یاججز کی تقریب ہوتی ہے تو بار اور بینچ کے چولی دامن کا ذکر کرنا ضروری خیال کیا جاتا ہے ۔اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بار کے بغیر بینچ اور بینچ کے بغیر بار ادھورے تصور ہوتے ہیں اس طرح محنت وعظمت کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے کہ جہاں کہیں محنت کا عمل دخل ہوگا وہاں پر عظمت کی دلیل واضح ہوگی ۔خیر وشر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ازل سے چلے آرہے ہیں اور ابد تک رہیں گے ۔ کہ شیطان اور انسان کے درمیان نیکی و بدی کی جنگ ابتدائے عالم سے انتہائے عالم تک چولی کے دامن کی طرح جڑی ہوئی ہے۔جب جب سیاست کا پرچار ہوگا جھوٹ کو بھی لازمی پذیرائی ملے گی۔کیونکہ جھوٹ اور سیاست کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے۔پاکستانی حکمران اور دغابازی و مکاری بھی لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔اسی حوالے سے اگر عوام پاکستان کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ بھی ناانصافی ہوگی۔جب کبھی پاکستانی گورنمنٹ کی بے حسی کا تذکرہ ہوگاتبھی پاکستانی عوام کی بے بسی بھی رقم کی جائیگی۔دہشت گردی کی یلغار اور عوام کی چیخ و پکاربھی چولی دامن کے موافق ہے

تو بالکل اسی طرح پولیس اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔پولیس کی تقریب ہوکہ صحافیوں کی اس بات کا اعادہ ضرورکیا جاتا ہے کہ پولیس اور صحافی گاڑی کے دوپہیے ہیں کسی بھی ایک کی کمی دوسرے کو ضرور متاثر کرتی ہے اکثر پولیس افسران تقریبات میں بلا جھجک اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ صحافی معاشرے کی آنکھ ہوتے ہیں ۔بلکہ کان اور ناک بھی کہا جاتا ہے اس بات کی امیدبھی کی جاتی ہے کہ صحافی اپنی آنکھ، کان اورناک کھلے رکھ کر ان کی رہنمائی کریں گے۔اور جب صحافی اپنی انکھیں کھول کر جرائم وکرپشن دیکھتا ہے کان کھول کرسن گن لیتا ہے اور ناک سے سونگھ کر ملزمان کی بو لیتا ہے اور اپنے اخبار کی زینت بناتا ہے تو پھرانہی قلابے ملانے والے افسران و اہلکاران پر گراں گزرتا ہے۔ یہی افسران واہلکاران ان آنکھوں ،کانوں اور ناک کو یکسر جھٹلادیتے ہیں اکثر تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ الٹا صحافی پر گھناؤنا الزام لگا دیا جاتا ہے یہ بات میرے مشاہدے کی ہے او ر یقینا آپ بھی اس بات کے شاہد ہوں گے جب کبھی کسی پولیس اہلکار کے خلاف کوئی خبر یا کالم چھپتا ہے تو شاذونادر ایسا ہوتا ہے کہ اس خبر پر ایکشن لیتے ہوئے متعلقہ او ر ملوث افسر یا اہلکار کے خلاف انکوائری سٹینڈ کی جائے بالفرض محال انکوائری سٹینڈ ہو بھی جائے تو پھر’’پیٹی بھائی‘‘ انکوائری افسر مقرر ہوتا ہے اور جب انکوائری مکمل ہوکر مجاز اتھارٹی تک پہنچتی ہے تو اسے پڑھ کر افسر بالا بھی مطمئن ہوجاتا ہے اکثر انکوائری رپورٹ کے پچھلے جانب الزام کی واشگاف انداز میں نفی ہوتی ہے اور وجہ عناد بھی ضرور بیان کی جاتی ہے کہ خبر لگانے کا سبب یہ ہے کہ اس نے صحافی کے کہنے پر کسی ملزم کو نہیں چھوڑا ۔وہ ملزم ایک ڈاکو تھا ۔یا یوں تحریر ہوتا کہ میں نے فحاشی کے اڈے پر چھاپہ مارا اور کچھ طوائفوں کے ساتھ چند اوباش لوگوں کو بھی پکڑا ۔چونکہ صحافی ان اڈوں کی سرپرستی کرتا ہے اس لیے طوائفوں کو نہ چھوڑنے کی بنا پر خبر لگا دی۔یہ اور اس قسم کی ایسی بہت سی تاویلیں ، دلیلیں اور بے ہودہ الزامات ان انکوائریوں کا حصہ بنتی ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف صحافی برادری کو ڈی ویلیو کیا جاتا ہے بلکہ متعلقہ مجاز اتھارٹی کی آنکھ میں بھی دھول جھونکی جاتی ہے اور متعلقہ افسر جوکہ صحافی کی آنکھ کا بڑا معتقد اور معتمد ہوتا ہے اس کی آنکھ کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے حالانکہ معاملہ الٹ ہوناچاہئے۔

میں یہاں پر چند ایک مثالیں دونگا ۔ڈی پی او لودہراں جو کہ بڑے منجھے ہوئے اور سلجھے ہوئے کپتان جانے جاتے ہیں۔ان کیلئے امتحان ہے کہ وہ کس طرح اس اہلکار کو ٹریس کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ریلوے چوک سے 31بیٹریاں چرائی گئیں گذشتہ دنوں دکان مالک نے خود ایک شخص کو ٹریس کرلیا اور پولیس کو اطلاع دی۔پولیس کے ایک’’ ہونہار اور منجھے ہوئے‘‘ ایس آئی نے اس ریاض نامی شخص کو اٹھا لیا۔پوچھ گچھ پر اس نے بتایا کہ7بیٹریاں خریدی تھیں اور انکی مالیت نوے ہزار بنتی ہے اب ایس آئی نے کہا کہ تم انہیں 90ہزار دے دو اور میرا حصہ بھی ۔تومیں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں ریاض نامی شخص حامی بھر لی اور مالکان کو30ہزار اور ایک بھینس بمعہ بچھڑا ان کے حوالے کردیا اور موصوف نے ان سے25ہزار روپے کھرے کر لیے اور عادی چوروں کے سرغنہ کو چھوڑ دیا۔کوئی مقدمہ کوئی ایف آئی آر درج نہ کی گئی۔ بازار حسن کہروڑپکا میں چھاپہ لگتا ہے اور 4عورتیں اور 3جوان پکڑے جاتے ہیں لیکن تھانے پہنچنے تک ایک مرد اور عورت کو غائب کردیاجاتاہے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ چھوڑے جانیوالی عورت کا تعلق ایک پولیس اہلکار سے ہے ۔ جس پر موصوف سب انسپکٹر اور ساتھی حوالدار چمک لے کر دونوں کو چھوڑ دیتے ہیں جبکہ باقی ماندہ کو تھانے لے آیا جاتا ہے۔گذشتہ دنوں شراب بیچنے کے جرم میں ایک میراثی اور ایک عیسائی کو پکڑا جاتا ہے مارپیٹ کی جاتی ہے اور پھر7،7ہزار روپے لے کر گھنٹہ کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے اسی طرح کے واقعات سے موصوف کی ہسٹری بھری پڑی ہے اور پولیس کاکماؤ پوت مشہور ہے یہ صر ف ایک کی کہانی ہے ۔

اسی طرح دوسرے ایک صاحب(اہلکار) نے ایک طالب علم اور اس کے بوڑھے والد کی زمین پر قبضہ کرایا ہوا ہے اور قابضین سے بھاری رشوت لے کر ان کو کھلے عام سپورٹ کر رہا ہے حالانکہ ملزمان اشتہاری ہیں اور طالب علم اور والد کو تشدد کا نشانہ بھی بنا چکے ۔لیکن آج تک ان کی شنوائی نہیں ہوسکی۔یہ لوگ بھی اس نہج پر سوچ رہے ہیں کہ اگر پراپر طریقے سے انصاف نہیں ملتا تو ہم بھی روٹین ورک پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔کہ پاکستان کا دستور بن چکا ہے کہ مرنے کے بعدانصاف کی کوشش کی جاتی ہے زندگی میں اکثر و بیشتر انصاف کی توقع عبث دکھائی دیتی ہے۔یہ اور قماش کے بہت سے اہلکار و افسران اپنے محکمے اور مجازاتھارٹی کیلئے بدنامی اور سبکی کا سبب بنتے ہیں اور پھر مظفرگڑھ کی طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں گیارہویں کی طالبہ پولیس کی ہٹ دھرمی کی بناپر خود سوزی کرلیتی ہے اور ڈی پی او ،آرپی او جیسی اتھارٹیز کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ ڈی پی او لودہراں اور آر پی اوملتان ان معاملات کی طرف ضرور توجہ فرمائیں اور عوام و صحافیوں کو ڈی ویلیو کرنے والے عادی اہلکاروں کے خلاف شکنجہ کسیں۔

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211834 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More