بعض اوقات انسان کو فلموں سے وہ کچھ دیکھنے اور سیکھنے کو
ملتا ہیں جو کسی کاغذکے لکھائی سے ذیادہ متاثر کُن ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے
میں فلم دیکھنا ایک بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے
کیونکہ فلمیں نوجوانوں پر بہت جلد اپنا اثر چھوڑ جاتی ہیں۔لیکن اگر فلم
معاشرے کے عکاسی پر مبنی ہو تو انسان کو اپنے اندر کے انسان کو جگا بھی
سکتا ہے۔کچھ فلمیں ایسی ہوتی ہے جن سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم کس
دُنیا میں ہیں اور دوسرے لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ میں یہاں شعیب
منصور کے تحریرکردہ فلم ” خُدا کے لیے “ کا مثال دیتا ہوں۔ شعیب منصور نے
اس فلم کے ذریعے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو دیا ہے مگر سب سے واضع بات جو اُس
نے عیاں کی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ ابھی تک9/11 کے واقعہ کا غُصہ مسلمانوں
پر نکال رہا ہے جو کہ ابھی تک یہ ثابت بھی نہیں ہوا کہ اُس میں مسلمان
مُلوث تھے۔ اس ایک واقعہ کی وجہ سے مسلمانوں کو بدنام کرنااُن کا مشغلہ بن
چُکا ہے۔ اس ایک واقعہ کی وجہ سے مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگا رہے
ہیں۔مغربی میڈیا اس واقعہ کا ذکر اس لیے باربارکررہی ہیں کہ وہ اپنے بچوں
اور نوجوانوں کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کردیں۔9/11
کے واقعہ کو اس لیے بھی باربار دُھرایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو دُ نیا کے
سامنے دہشتگرد ثابت کر سکیں اور وہ کافی حد تک اس میں کامیاب بھی ہو رہے
ہیں۔مغربی میڈیا پر کبھی یہ دیکھنے کو نہیں ملاکہ امریکہ دنیا کے مسلمانوں
اور دوسرے لوگوں کیساتھ کیسا سلوک کرتے آرہے ہیں۔اگر مسلمان دہشت گرد ہیں
تو ہیروشیما اور ناگاسا کی کو کس نے تباہ کیا تھا ؟ اُس میں ایک لاکھ
پینتیس ہزار جانوں کا ذمہ دار کون ہے؟افغانستان اور عراق پر کس نے حملہ کیا
اور وہاں کے لوگوں کو جانورں کی طرح ذبخ کرنے والے کون ہیں؟ بوسنیا اور
چیچنیا میں دہشت کون پھیلا رہے ہیں اور اُن کا جینا کس نے حرام کردیا ہیں؟
ڈاکٹر عافیہ ڈصدیقی کو کس نے اغوا کیاتھا اور اُسے قیدی نمبر 650 کس نے
بنایا؟ جنوبی وزیرستان پر روز ڈرون حملے کون کرتا ہیں اوراُن حملوں میں بے
گناہ مرنے والوں کے قاتلوں کو کیا کہا جاتا ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟اگرایک واقعہ(9/11)
نہ کرنے پر بھی مسلمان دہشتگرد ہوئے تو اوپر جو میں نے بیان کیا ہے اُنہیں
کیا کہا جاتا ہیں؟؟؟ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک پُر امن دین ہے اور کسی کو
بھی دہشتگردی کی اجازت نہیں دیتا۔
ان سب باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو ہمارا ضمیر مر چُکا ہے اوریا ہم
اپنے لئے دہشتگرد لفظ سُننا پسند کرتے ہیں۔
اگر افغانی اور کشمیری بھائیوں، بہنوں اور ماوؤں کے کچھ مدد اور ہمدردی
کرنا دہشت گردی ہے تو ہاں، ہم دہشت گرد ہیں۔اگر فلسطین، عراق اور بوسنیا کے
مسلمانوں کے لئے آواز اٹھانا دہشت گردی ہے تو ہاں، ہم دہشت گرد ہیں۔اگر
اپنی دین اور مُلک کی حفاظت کرنا اور اُس کے لیے جان دینا دہشت گردی ہے تو
ہاں، ہم دہشت گرد ہیں اور ہمیشہ رہینگے۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ایک پاکستانی کی حیثیت سے کچھ کام ایسے ہیں جو ہمارے اختیار میں ہیں اور
اگر ہم دل سے چاہے تو ہم بہت کچھ کراور بدل سکتے ہیں۔ایک یہ کہ ہم ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کو انصاف دلاسکتے ہیں اور اُسے واپس اپنے مُلک لاسکتے ہیں
دوسرا یہ کہ ڈرون حملے بھی رُکوا سکتے ہیں۔لیکن ہم نے اپنی آنکھیں بند کئے
ہوئے ہیں اور دوسروں (سیاسی لوگوں)سے امُیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔یہ بات ہم
کیوں نہیں سمجھتے کہ ا گر اُن لوگوں نے کچھ کرنا تھا تو پہلے کر دیتے۔کوئی
ہے، تو وہ ہم خود ہیں۔ اگر ہم آج بھی خواب خرگوش سے بیدار نہ ہوئے توہم
یونہی دہشتگرد قرار ہوتے رہینگے۔عافیہ صدیقی جیسے اور بہنیں بھی کھونا
پڑینگیے اورڈرون حملوں کا دائرہ وسیع تر ہوتا جائے گا اور ایک دن ایسا آئے
گا کہ پورے مُلک میں ڈرون حملوں کاراج ہوگا۔پھر شاید ہمیں سمجھ آئے گی کہ
ہم سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے اور پھر اُس وقت ہمارے پاس افسوس اور شرم کے
سوا کچھ نہ ہوگا ۔اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہمیں افسوس اور شرمندگی
پسند ہے یا وقت پہ بیداری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |