بیٹیا پھول ہوتی ہیں، نازک کلیاں
چمن کی زینت ، گھر کی رونق
آنگن کا اجالا
نبی کی دعاہوتی ہیں
اگر کوئی ان کی خوشب
چرا لیجائے
تو کیا وہ پھول نہیں ہوتی ؟
چمن کی زینت نہیں ہوتیں ؟
کیا نکو
نبی کی دعائیں نہیں ہوتی ؟؟
کومل پمارے پڑوس میں رہنے والی ایک پیاری اور معصوم بچی تھی ، پانچ ، چھ
برس کی شوخ و چنچل، ہنس مکھ ، والدین بھی اسے لاڈ پیار سے رکھتے ، نت نئے
لباس ، جوتے ، میچنگ جیولری اسے کوئی باربی ڈول کی مانند پیش کرتے۔ ایک بات
جو میں نے محسوس کی تھی وہ یہ کہ اکثر سنسان دوپہر کے وقت وہ اکیلی گلی میں
کھل رہی ہوتی یا شام کو چیز لینے دکان پر چلی جاتی۔( معلوم نہیں مائیں غافل
کیوں ہوتی ہیں ؟)اور آخر ایک دن کومل غائب ہوگئی۔ سب نے بہت ڈھونڈا۔۔۔
دعائیں وظیفے۔۔۔ اور پھر وہ واپس مل گئی، لیکن معصوم کلی مرجھا چکی تھی ۔وہ
زندہ تھی لیکن زندگی نہ تھی۔
ایسے ان گنت واقعات اور خبریں ہماری نظروں سے گزرتی ہیں ہم ایک لمحے کو
کانپ جاتے ہیں ۔
” الٰہی خیررکھنا، توبہ استغفار ، قرب ِ قیامت ہے“ جیسے الفاظ استعمال کرکے
دنیا کے ہنگاموں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ حالانکہ روزِ قیامت تو انکے لئے ہوتا
ہے جن پر یہ سانحہ بیت جاتا ہے۔ میڈیا شور مچاتا ہے۔ ایسے افراد کو سرِ عام
پھانسی دینے کی اپیلیں کی جاتیں ہیں ، حکومت کے اقدامات، انتظامیہ، ٹاک شوز
، تبصرے۔۔۔۔
لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ اصل میں والدین کی غفلت ہوتی ہے۔
خاص طور پر ماں کی۔ جنت یونہی قدموں تلے نہیں رکھی جاتی۔ اس رتبے کو حاصل
کر کے لئے بڑی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ منتیں، مرادوں سے مانگی گئی
اولاد کو محض پیدا کرنا کافی نہیں ہوتا ، اسکی توبیت حفاظت بھی اتنی ضروری
ہوتی ہے۔ اور ہمارا میڈیا۔۔۔ جو سلو پوائزن ہے سب کچھ بتا رہا ہے اور دکھا
رہاہے جو قبل از وقت اور غیر ضروری ہے۔
ایک چمک دمک اور غیر ضروری مقابلہ کی دوڑ لگی ہے جس میں سب حصہ لے رہے ہیں
اور اہنے اصل فرائض سے غافل ہیں، تین سالہ گڑیا جیسی ڈولی، غبارے لینے گھر
سے نکلی اور لوٹ کر نہ آئی۔ سات سالہ مریم کو اپنے انکل سے خوف کیوں محسوس
ہوتا ہے؟ چھ سالہ ردا اسکول جانے کیوں انکاری ہو جاتی ہے ؟
آج جو بچیاں غیر محفوظ ہیں تو اس میں سب سے بڑی وجہ ماو ¿ں کا اپنے مقام
اور فرائض سے عدم توجہ ہے۔
بڑی بچیوں کو تو ہم سمجھاتے ہیں۔ دنیا کی اونچ نیچ، زندگی کے نشیب و فراز،
لڑکوں سے دور رہنا، بدلتی قطروں کو سمجھ جانا وغیرہ۔ کچھ قدرت نے بھی ان کے
اندر فطری صلاحیتیں رکھی ہوتی ہیں جو مخالف جنس سے خطرے کے وقت انہیں آگاہ
کر دیتی ہے۔
اصل حفاظت کی مستحق تو ” آنگن کی وہ معصوم کلیاں“ ہیں جنہیں ہلکا سا گرم
جھونکا مُرجھا سکتا ہے۔ یہ معصوم پریاں جو بدلتی نظروں سے ناواقف اور اس
زبان سے ناآشنا ہوتی ہیں ۔ انہیں سمجھانا چاہئے کہ ہر ٹافی ، چاکلیٹ دینے
والا اجنبی قابلِ بھروسہ نہیں ہے۔ ہر انکل ، ماموں ، چچا یا کزن سوائے اپنے
باپ کے ”اپنا “ نہیں ہے۔
اگر بچیاں خوفزدہ ہیں
روتی ہوئی یا گم سم
تو ان کو ڈانٹے کے بجائے ان کے دوست بن جائیں اور مائیں انہیں اپنے رویئے
سے یقین دلائیں کہ ” ماما انکی سب سے اچھی اور پکی فرینڈ ہیں اور ماما سے
کبھی کوئی بات نہیں چھپانی ۔ “
جو محبت، توجہ، اور جذباتی آسودگی آپ اپنی اولاد کو دے سکتے ہیں وہ باہر کے
لوگ / افراد کبھی نہیں دینگے اور اگر ایسا کرینگے تو یقینا اسکے پیچھے کوئی
”مفاد“ پوشیدہ ہوگا۔
آپ کو اپنی بچیوں کی سہیلیوں اور ان کے گھر والوں سے بھی آگہی ہونی چاہیے-
بچوں کی جائز فرمائشیں خود پوری کریں-
آخر ہمارے بچے غیر ملکی اور اجنبی ثقافت کے پروگرام کیوں دیکھیں؟
ہم وہ ٹائم جو ان کی تربیت اور حفاظت کا ہے بے کار کے پیکجز اور ڈراموں میں
ضائع کیوں کریں؟
بیٹیاں بہت بری ذمہ داری ہوتی ہیں- اس لیے ان کی درست پرورش کرنے والا اور
ان آبگینوں کو ان کے امین تک پہنچانے والا روزِ محشر نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے ساتھ کھڑا ہوگا-
یہ رحمت الہی
یہ نازک آبگینے
یہ نبی کی دعا
بہت محبت کی مستحق ہوتی ہیں- خدارا انہیں ایک ان چاہا وجود سمجھ کر نظر
انداز مت کریں- اگر خدانخواستہ کوئی معصوم کلی٬ کسی نقصان سے دوچار ہوئی ہے
تو اسے گناہوں کی سزا نہ سمجھیے- اور نہ طعنوں کا مستحق- بلکہ اﷲ تعالیٰ سے
اس کے لیے رحم اور عافیت طلب کریں- اس کی دل جوئی کریں- تاکہ اس کی جسمانی
اور روحانی اذیتوں کا مداوا ہوسکے-
“ قصور وار تم نہیں٬ سزاوار تم نہیں٬ گناہ گار تم نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں
جنہوں نے چند لمحوں کی لغزشوں سے ہمیشہ کا عذاب خرید لیا ہے“ - انہیں اس
بات کا یقین دلائیے کہ “ بری تم نہیں بلکہ برے وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ کے لیے
عذابِ الہی کے مستحق قرار پاتے ہیں“-
اسلام کے اصول آفاقی ہیں اور عین انسانی نفسیات کے مطابق- جب تک ہم اسلام
کے متعین کردہ اصولوں پر عمل پیرا رہتے ہیں گویا ایک قلعے میں رہتے ہیں-
زمانہ جدید سہی٬ فیشن میں چمک دمک سہی لیکن ہمارا لباس مشرقی اور اسلامی
اقدار کے مطابق ہو- اکثر مائیں بچیوں کو مغربی یا نامناسب لباس پہنا دیتی
ہیں کہ یہ ابھی چھوٹی ہیں انہیں کیا چادروں میں لپیٹنا- حالانکہ یہی عمر
ہوتی ہے جب ان میں حیا کا احساس پیدا کیا جانا چاہیے-
مغربی لباس بھی اگر ایسا ہو کہ بچیوں کا جسم ڈھانپا ہو تو کوئی مضائقہ
نہیں- اسی طرح اگر فینسی ملبوسات میں بھی مشرقی اقدار کا لحاظ ہو تو شخصیت
خوبصورت دکھتی ہے-
ماؤں کو اپنی بیٹیوں کا قابل اعتماد دوست ہونا چاہیے تاکہ ہر بات ان سے
شئیر کریں- اس سوچ کے ساتھ “ میری امی میری سب سے اچھی دوست ہیں“ یا “ میری
ماما میری بیسٹ فرینڈ ہیں“-
قدم قدم پر ان کے ساتھ رہیں- ناصح بنکر نہیں اور نہ ہی نگران بن کر بلکہ
دوست اور رہنما بن کر تاکہ اعتماد اور یقین کا رشتہ قائم ہوسکے کیونکہ
بیٹیاں پھول ہوتی ہیں
نازک کلیاں
چمن کی زینت ہوتی ہیں
تو یقیناً ان کی خوشبو٬ روشنی اور مسکراہٹ قائم رہنی چاہیے- |