ہر کلمہ گو مسلمان ہے اور کسی مسلمان کو کافر یا منافق
کہنا بہت غلط بات ہے۔اس پر انسان گناہ گار ہوتا ہے۔جو مسلمان جتنا تقویٰ
حاصل کرتا جائے گا اتنا بہتر مسلمان بنتا جائے گا۔ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ
جس مسلمان کو پانچوں وقت کی نماز با جماعت ادا کرتے دیکھو اس کے مومن ہونے
کی گواہی دو۔مسلمان مومن بنتا اس وقت ہی ہے جب اس کے اندر تقویٰ کی صفت
پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔جس نے کلمہ پڑھا وہ مسلمان اور جس نے کلمہ گو کے
گھر آنکھ کھولی وہ بھی مسلمان ہر معصوم بچہ فطرتاً مسلمان۔اب ہمیں یہ بھی
معلوم ہونا چاہئے کہ ہما رے مسلمان بن جانے کے بعد کیا کیا ذمہ داریاں
ہمارے اوپر عائد ہوتی ہیں۔سب سے پہلی ذمہ داری نماز کا پابند ہونا ہے۔پھر
کلمہ جو ہم پڑھ کر مسلمان کہلاتے ہیں اس کلمہ کے مطابق اپنی زندگی کو
ڈھالنا یہ بھی ہر مسلمان کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔جب ہم یہ اقرار کرتے ہیں
کہ نہیں کوئی معبود سوائے اﷲ کے تو اب ہماری یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ہم
صرف اور صرف اﷲ کی بندگی اختیار کریں اور طاغوت کا انکار کریں ۔طاغوت ہر وہ
طاقت ہے جو اﷲ کے مقابلے میں اپنی بندگی کرانا چاہے۔سب سے پہلے انسان کا
اپنا نفس جسے نفس امارہ کہتے ہیں،پھر وہ طاقتیں جو مسلمانوں کے معاشرے میں
اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی ہیں۔اور اﷲ کے مقابلے میں اپنی باتوں کو اپنی
طاقت کے گھمنڈ میں مسلمان حکومتوں سے منوانا چاہتی ہیں۔یہ طاغوتی قوتیں اس
وقت دنیا پر نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے اپنا رعب دبدبہ قائم کرنے میں ایڑی
چوٹی کا زور لگارہی ہیں۔ان طاقتوں نے میڈیا کے ذریعہ مسلمان معاشرہ کو
تباہی میں غرق کرنے کے لئے بے حیائی اور بے حودگی کا طوفان کھڑا کر رکھا
ہے۔مسلمان حکومتوں کو سود کے جال میں جکڑ رکھا ہے۔مسلمانوں کی اکثریت کو
روشن خیال بنانے کے لئے انٹر نیٹ،ٹی وی اور کیبل کے ذریعہ پھر مو بائل فون
کے استعمال کے ذریعہ ایسا گمراہی کی طرف لے جانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جو
مسلمانوں کے اندر سے تمام خوبیوں کو نکال کر ان کے اندر سے خاندانی نظام کو
ختم کرکے مسلمانوں کے معاشرہ کو مغرب اور ہندوانہ تہذیب کا دلدادہ بنادے۔یہ
مہم منظم طریقے سے جاری ہے۔یہ طاغوتی قوتیں مسلمانوں کی معیشت،معاشرت اور
سیاست کو اس طرح سے تباہ و برباد کرنے میں لگی ہوئی ہیں کہ اگر ہم نے ان
فرعونوں سے چھٹکارہ حاصل نہ کیا تو ملک سے دہشت گردی(جو انھیں طاغوتی قوتوں
نے پھیلائی ہیں) کبھی ختم نہ ہو سکے گی۔ہم مسلمان تو ہیں لیکن ہندوانہ اور
مغربی تہذیب کو پسند کرتے ہیں۔سودی معیشت کو برا نہیں سمجھتے۔درآمد کردہ
مغربی جمہوریت کو ہم پسند کرتے ہیں۔جب ہماری معاشرت ،معیشت اور سیاست ابھی
تک مسلمان نہیں ہوئی تو ہمارے مسلمان ہونے کا کیا فائدہ۔یہ بے چینی،یہ بے
راہ روی،یہ بے حیائی ،یہ کرپشن،یہ لوٹ مار ،یہ بے روزگاری سب اپنے عروج پر
ہیں لیکن ہم مسلمان تو ہیں۔سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن ان
برائیوں کے خاتمے کے لئے ہم میدان عمل میں نہیں نکلتے۔بس ملائیت کے خاتمے
کا سوچنے لگتے ہیں اور جب وقت پڑتا ہے تو انھیں ملاؤں کو بلاتے ہیں۔نماز
جنازہ ہم خود نہیں پڑھا سکتے ۔جب تک شادی کے ہم قائل ہیں ان ہی ملاؤں سے
نکاح پڑھواتے ہیں۔اب تو ہم میں ایسے مسلمان بڑھتے جارہے ہیں جو میڈیا سے
متاثر ہو کر روشن خیال بنتے جا رہے ہیں ۔ان کی نظروں میں تمام مثائل کا حل
ملاؤں کو سامنے کھڑا کر کے گولیوں سے اڑا دینا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جنھیں قرآن
و حدیث کا فہم اگر ہے بھی تو انھوں نے اپنی سوچ کے مطابق دین کو اپنانے کا
فیصلہ کیا ہوا ہے ۔یہ اسلام کو تو برا کہنے کی ہمت نہیں کر پاتے اس لئے
علمائے کرام کو گالیاں دینی شروع کر دیتے ہیں۔اگر یہاں شریعت کا نفاذ
ہوجاتا ہے تو ان کی من مانی نہیں چل پائے گی اس لئے اﷲ کی زمین پر اﷲ کی
حکمرانی یہ نہیں چاہتے ۔یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کتابوں میں محفوظ رہے اور
عملی طور پر شیطانیت چھائی رہے۔اس کام میں یہودیوں کی ایجنٹ میڈیا کا اہم
کردار ہے۔جدید سائنسی ترقی نے نوجوان نسل کا بیڑہ غرق کر دیا ہے ۔موبائل
فون،انٹر نیٹ اور کیبل نے بے حیائی پھیلانے میں وہ کردار ادا کیا ہے کہ جس
کی وجہ سے ہم اب نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ورنہ عبداﷲ عبدالرحمٰن اور کشور
کمار یا رنجیت سنگھ وغیرہ نام کا فرق لگتا ہے کام تو سب کے وہی ہیں جو
میڈیا چاہتی ہے۔غیر مسلم تو جو چاہے کریں ان کا مذہب ان باتوں سے نہیں
روکتا ہم مسلمان ہو کر دین کے قریب نہ آئیں اور ملاؤں کو گالیاں دیکر اپنا
دل ٹھنڈا کریں تو اس سے بہتر یہ ہے کہ ہم کھل کر ان لوگوں کے ساتھ ہو جائیں
جن کی ہم تقلید کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں
اپنے دین کے قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ملاؤں نے دین کا
ٹھیکہ نہیں لیا ہوا ہے جو مسلمان بھی اپنے دین کو پورے طور پر اپنانے کی
کوشش کرے گا وہ دین و دنیا دونوں میں کامیاب ہوگا۔ہم قرآن کی اس آئیت پر
عمل شروع کر دیں جس کا مفہوم ہے کہ داخل ہو جاؤ اسلام میں پورے کے پورے۔اﷲ
کا یہ حکم سب مسلمانوں کے لئے ہے کیونکہ اے ایمان والو کہہ کر یہ بات قرآن
میں کہی گئی ہے ۔اے ملاؤ نہیں کہا گیا ہے۔اس لئے ہم سب مسلمان سچے دل سے
اپنے دین اسلام کو اپنائیں ہماری ساری مشکلات انشا اﷲ دور ہو جائیں
گی۔حکومت اس سے مبرا نہیں کیونکہ اﷲ کا فرمان ہے کہ جب تم کو اقتدار ملے تو
نماز کا نظام قائم کرو،زکواۃ کو وصول کر کے بیت ا لمال کا نظام اپناؤ اور
برائی کو روکنے اور نیکی کا حکم دے کر نیکی کو عام کرنے کا بندو بست کرو۔یہ
بات بھی قرآن کی ایک آئیت کے مفہوم کے طور پر پیش کی ہے۔اس بات سے یہ ثابت
ہوتا ہے کہ دین اور سیاست الگ الگ چیزیں نہیں ہیں ۔بلکہ سیاست کو عین دین
کے مطابق بنانا حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔اگر سیاست کو دین سے الگ کر
دیا جائے تو بقول علامہ اقبال پھر چنگیزی رہ جائے گی۔مسلمانوں میں بھی اس
وقت دو گروہ ہیں ایک ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتا ہے اور دوسرا اسلام
کو اس حد تک چلنے دینا چاہتا ہے جس سے اس کے اپنے مفاد کو ٹھیس نہ
پہنچے۔یعنی دین کو اپنی مرضی سے اپنایا جائے ۔پورے کا پورا دین تو اس طرح
نہیں اپنایا جاسکتا۔اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ ہم کو دین کے مطابق نہیں ڈھلنا
بلکہ دین کو اپنے مطابق ڈھالنا ہے۔ایسی سوچ سے اﷲ کی پناہ مانگنی چاہئے ۔اﷲ
ہمیں صحیح العقیدہ اور با عمل مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے (آمین ثمہ
آمین) |