تھر کی تھرتھراہٹ سے ڈرو

آقاکریم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کے قربان جائیں کہ جنہوں نے خود بھوکے رہ کر اوروں کو کھلایا ۔ سخاوت کا یہ عالم کہ جو آیاضرورتمندوں میں لٹایا۔ اپنوں اور غیروں کا غم کھایا۔ اشیاء خوردو نوش کا بے جا استعمال کرنے سے منع فرمایا۔ اسراف سے منع فرمایا۔ جبھی تو اسلامی معاشرہ میں غربت اور محتاجی کا خاتمہ ہوا۔ بادلوں کا لانا ، برسانا اور نہ برسانا یہ نظام قدرت ہے ۔ اس میں انسانوں کے اعمال کی پرکھ ہے۔کون جنت خریدتا ہے اور کون جہنم ۔قرآن کریم میں تخلیق انسان و جنات کا مقصدیہی بتایا گیاہے۔ دنیاوی درجات میں تفرق و تفاوت بھی انسانی اعمال کی پرکھ کے لیئے ہے۔ اسی ضمن میں اقتدار بظاہر بڑی مرغوب چیز ہے لیکن اقتدار جس قدر فرائض اور ذمہ داریوں میں اضافہ کرتا ہے انکی بجاآوری کے لیئے میزان پر پورا اترنا نفس کے خلاف جہاد اکبر ہے۔ انسانی طبائع اقتدار اور حصول دولت کی تمنا سے سرشار ہوتی ہیں ۔ انہی خواہشات کی تکمیل کے لیئے اسلام نے راستے بتائے ہیں۔ انسان ابتداء سے ہی معاشرتی زندگی کا خوگر ہے۔ یہیں سے تصور حکمرانی سامنے آیا۔ جسکے مقاصد انسانوں کے مابین امن اور معاشی انصاف قائم کرنا تھا۔ لیکن طاقتوروں نے یکساں وراثتی حقوق پر غاصبانہ قبضے کیئے۔ اﷲ تعالیٰ کے دیئے ہوئے وسائل نعمت کو اپنے تصرف میں لائے اور دوسروں کو محروم رکھا۔ مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے اور اﷲ کو پسند نہیں کہ اسکے کنبے کو بھوکا مارا جائے۔ سرور کون و مکاں ﷺ کی تشریف آوری کے بڑے مقاصد میں توحیداور حقوق العباد ہیں۔ آپ ﷺ نے ایک محبت و اخوت بھرا خوشحال معاشرہ تشکیل فرمایا۔ وسیع و عریض اسلامی سلطنت میں کئی مقامات پر شدید قحط کے واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ امام الملوک،سیدالمنتظمین،اما م عادل سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ تو اپنی رعایا کے مختلف حالات معلوم کرنے کے لیئے بنفس نفیس جب لوگ خواب استراحت کرتے تو آپ رضی اﷲ عنہ گلی کوچوں اور ویرانوں میں گشت فرماتے اور اس طرح عوامی مشکلات اور مسائل و مصائب معلوم کرکے ان کا سد باب فرماتے۔ آپ کی اصلاحات سے عوام میں تحفظ اور معاشی سکون پیدا ہوا۔ قحط کے دوران قطع ید کی سزا موقوف فرمائی۔ اپنے مقرر کردہ عمال یعنی گورنر اور دیگر افسران پر امیرانہ غذاؤں کا استعمال، باریک اور ملائم کپڑوں کا پہننااورگارڈ رکھنا بھی ممنوع قرار دیا۔ سیدنا حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اﷲ عنہ نے اپنے دور خلافت میں آنیوالے حکمرانوں کو رعایا پروری کا بے مثال درست دیا کہ شدید قحط کے دوران ہزاروں اونٹوں پر مشتمل غلہ رعایا میں مفت تقسیم فرمایا۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں کچھ علاقے ایسے ہیں کہ جن کا معاشی انحصار بارش پر ہے۔ حکمران اقتدار کے مزے لوٹتے رہے لیکن ان علاقوں کے باسیوں کو کوئی سہولت مہیا نہیں کی۔ تھر، چولستان اور صوبہ بلوچستان کے پسماندہ علاقوں پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ مویشی اور انسان مرتے رہتے ہیں لیکن حکمرانوں پر اس کا کوئی اثر نہیں۔ تھر کے لوگوں کے ساٹھ ہزار بوریاں گندم کی مختص تو کردی گئیں مگر بھوکوں اناج صرف اس لیئے نہیں دیاگیا کہ حکمران سیاستدان فوٹو سیشن اور ویڈیوفلمیں بنوانے نہ پہنچے تو کئی اموات واقع ہوگئیں۔ بھوک سے نڈھال مائیں کہاں سے اپنے بچوں کو دودھ پلاتیں ۔ بچے مرگئے۔ مگر وہ غریبوں کے بچے تھے ان حکمرانوں کے بچے اس طرح مریں تو بات ہے۔ صوبے کا گورنر ، صوبے کا وزیر اعلیٰ، وزیر خوراک اور ملک کا صدر اور وزیراعظم اس کے ذمہ دار ہیں۔ ان لوگوں کو اﷲ کا خوف نہیں ۔ بچوں، بڑوں اور مویشیوں کا ناحق ہلاک ہونا ان حکمرانوں کے عذاب جہنم کے لیئے کافی ہے۔ عین اس پریشانی میں افواج پاکستان کا ایک دن کا راشن ، امدادی قافلے، موبائل ہسپتال، طبی امداد اور پانی کی فراہمی انکے جنتی ہونے اور حقیقی مسلمان مجاہدین ہونے کی روشن دلیل ہے۔ تو دوسری ملک محمد ریاض صاحب کا جذبہ ایثارملک کے صاحب ثروت لوگوں کے لیئے مشعل راہ ہے۔ طبی امداد، دسترخوانوں کا اہتمام اور اشیاء خوردونوش کی فراہمی جنتی افعال ہیں۔ اس لیئے کہ اس کار خیر کے پس پرعدہ انکے کوئی سیاسی مقاصد نہیں۔

انکے علاوہ اور بھی فلاحی ادارے ہیں جو بھرپور خدمت کررہے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے امدادی سامان کی ترسیل کا کام حکومت پاکستان کی بجائے کسی فلاحی ادارے کو سونپا گیا ہے کیونکہ حکومت کے کارندے صالح اور دیانتدار نہیں۔غیر ملکی امداد میں بڑی قیمتی اشیاء ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر ہمارے حکمرانوں کی حرص غالب آجاتی ہے اور وہ سامان سیاستدانوں اور افسران کے گھروں میں چلاجاتا ہے ۔ دوسری طرف سندھ فیسٹیول کے دولہا بلاول زرداری یا انکے ابا حضور تھر کے غمزدوں کے شریک غم نظر نہ آئے۔ وہ وہاں جاتے ہیں جہاں سے کچھ ہاتھ لگے۔ میاں نواز شریف رسماَ تھرگئے تو بلاول زردار ی انکے پیچھے پیچھے اپنی ویڈیوبنواتے رہے۔ انہیں دیکھ کر ایسا لگا کہ جیسے کوئی نوجوان برخوردار اپنے ہمجولیوں میں شیخی بگھارنے کے لیئے ایسا کررہا ہے کہ دیکھا نہیں میں وزیر اعظم کیساتھ تھا۔ ان بھونڈی حرکتوں سے کیا فائدہ؟ کنجریوں اور رقاصاؤں کے میلے ٹھیلے لگا کر کروڑوں روپیہ تو گناہوں پر صرف کردیالیکن بھوک اور افلاس زدہ تھر کے باسیوں پر کیا خرچ کیا؟ وزیراعظم نے اگر ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے وہ تو قومی خزانے سے دیا جائے گا۔جناب کی اپنی جیب سے اﷲ کی رضا کے لیئے کیا نکلا؟رہا اسکے تصرف کامسئلہ کہ حقداروں کو کیا ملتا ہے اور حسب عادت ارباب اختیار اپنے پیٹوں میں کتنی آگ بھرتے ہیں ؟ وزیراعظم صاحب اس ملک کے ٹاپ کے سرمایہ داروں میں ہیں امید تھی کہ وہ بھی جناب ملک ریاض کی تقلید کرتے ہوئے افلاس زدوں پر کچھ نچھاور کریں گے یا کوئی شریف دسترخواں ہی لگا دیں گے۔ سوائے مایوسی کے کچھ نہ ملا۔ میاں صاحب منشاء صاحب کو ملنے گئے میں سمجھا شائد اسے سمجھانے گئے ہیں اتنی دولت کیا کروگے کچھ اﷲ کی راہ میں قربان کرتے ہوئے مصیبت زدہ لوگوں پر خرچ کرو مگر وہاں سے جواب ملا کہ اب جان توقربان کرنے والاہوں اور کیا کروں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ اس ملک میں شریفوں، منشاؤں ، زرداریوں کی کوئی کمی نہیں۔ اگر یہ لوگ صرف زکوۃ ہی دیدیں تو تھر ،چولستان اور بلوچستان سرسبز و شاداب ہوجائیں۔میرا مشورہ ہے کہ موجودہ دگرگوں صورت حال کو بھی بہتر کیا جائے لیکن ان علاقو ں میں رہنے والوں کے مسائل کو مستقل طور پر حل کیا جائے۔ پانی نہروں سے اور ٹیوب ویلوں سے فراہم کیا جائے۔ انسانی بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔پاکستانی میڈیا کی جانب سے مصیبت زدوں کے احوال سے قوم اور پوری دنیا کو آگاہ کرنا بھی انتہائی قابل تحسین ہے۔ جس کے نتیجہ میں حکومتوں کی بے حسی، ارباب اختیار کی بددیانتی پوری دنیا پر واضح ہوگئی۔

خادم اسلام : پروفیسر اکبر حسین ھاشمی 0300-5393493


 

AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128259 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More