ہم پاکستانی ایک ذ ہین اور قابل قوم ہیں ۔ افسوس کی بات
یہ ہے کہ ہم اپنے اُوپر قابل اور ذہین لوگ (سیاستدان، اُستاد، اور
ڈاکٹروغیرہ)لانا نہیں چاہتے ۔ نیکی کے کاموں کے دعوے تو سب کرتے ہیں ،مگر
جب اُن دعوؤ کے سچ ہونے کا وقت آتا ہے تو سب اپنے پاؤں چارکرکے بھاگ جاتے
ہیں۔ آخرہم ایسا کیوں کرتے ہیں ۔؟ شاید اس سوال کا جواب ہم سب کے پاس ہوگا۔
لیکن ہم نے اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں ۔اور اپنے آپ کو دھوکہ میں رکھ کر
انجان بننے کی کوشش کررہے ہیں ۔
ہم نیک اور ایماندار سیاستدان چاہتے ہیں ، مگر اُسے ووٹ دینے کی غلطی نہیں
کرتے ۔ صاف شفاف الیکشن تو چاہتے ہیں مگراپنی پارٹی کی دھاندلی کو نظر
انداز کرتے ہیں ۔ چاہتے ہیں کہ ہر قسم امتحان، نقل سے پاک ہو جائے تاکہ
قابل اور ذہین لوگ اچھے اچھے محکموں میں پہنچ کر اپنے ملک اور قوم کے
خوشنودی اور کامیابی کے لئے کچھ کر سکیں لیکن پھر بھی امتحانی ہالوں میں
سخت نگرانِ کا ر سے اختلاف رکھتے ہیں۔ جب امتحان میں کوئی نگران نقل کی
اجازت نہیں دیتے اور اپنا فرض خوش اسلوبی اور ایمانداری سے نبھاتا ہے تو ہم
کہتے ہیں کہ باقی سب اچھے ہیں مگر وہ فلاح ، لمبا قد والا یا داڑھی وغیر ہ
والا ( جو نقل کے اجازت نہیں دیتا ) اچھا نہیں ہے۔
اس وقت ہمارا حال کچھ یوں ہوتا ہے۔
مرد ہونی چاہئے ، خاتون ہونا چاہئے
اب گرائمر کی یہی قانون ہونا چاہئے۔
آپ کسی دفتر کی حالات دیکھیں جب کوئی شخص سفارش منظور کرلیتے ہیں تو ہم اُس
کے تعریفیں اور اُن کیلئے تخائف وغیرہ لاتے ہیں اور جو لوگ سفارش کے مخالف
اور میرٹ کی اُصولوں کے پابند ہوتے ہیں تو دِل ہی دِل میں اُن سے نفرت اور
اپنے دوستوں سے اُن کے خلاف قسِم قسِم کی فضول باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح
ایک پولیس کی مثال لیجئے جب ہم کوئی غلط کام کرتے ہیں اور وہ ہمیں پکڑتے
ہیں تو ہم اُن کے ہاتھوں میں کچھ روپے پیسہ تمھا دیتے ہیں اگر وہ رشوت لیتا
ہے تو منہ سے بے احتیا ر دس بارـ " شکریہ " خود بخود نکل جاتا ہے۔اگر وہ
رشوت نہیں لیتا تو ہم اُسے بے ایمان اور کام چور کہتے ہیں ۔
ہم سب انقلاب اور جو غلطیاں میں نے اُوپر بیان کیا ہے، ختم کرنے کے باتیں
کرتے ہیں لیکن جب ہم اُن کاموں کو فروع دیں رہے ہے تو پھر اُن کاموں کے
مخالفت اور اُسے ختم کرنے کی باتیں کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟حققیت یہ ہے کہ ہم انقلاب
لانا نہیں چاہتے کیونکہ ہم اُن غلط کاموں کے عادی بن گئے ہیں اوردوسروں کو
ٹھیک ہونے کا موقع نہیں دیتے۔
یہ حال ہے ہم پاکستانی عوام اور اعلیٰ سوچ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ساری عوام کے
بات نہیں کررہاہوں ، صرف اُن لوگوں کے با ت کررہا ہوں جن کے سوچ اور
اعمالوں میں تضاذ ہو ۔ اگر ہم سب اپنے اپنے گربیانوں میں جھانک کر سوچے تو
یقینا ہم اپنے اندار بہت سی غلطیاں اور برائیاں پاسکتے ہیں ۔ ہم اپنی
غلطیوں کو سدُارنے کے کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی سدُارنا چاہتے ہیں ۔ صرف
دوسروں پر تنقید کرتے ہیں جو دنیا کے سب سے آسان کاموں میں سے ایک ہے۔
کیا ہم سچ میں صاف شفاف الیکشن چاہتے ہیں ؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ دفتروں سے
سفارش ختم ہوجائے ؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے امتحانی ہالوں کا نگران کار
اچھا اور ایماندار ہو؟ کیا ہم سچ میں رشورت کے مخالفت اور اُسے ختم کرنا
چاہتے ہیں ؟ کیا انقلاب لانے میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے؟
یقینا ہم یہی سب کچھ چاہتے ہیں لیکن اس کے لئے ہم عملی طور پر کیا کر رہے
ہیں ؟ یہ ساری باتیں ہم دوسروں کے لئے عملی طور پر پسند بھی کرتے ہیں اور
نافذ بھی کرنا چاہتے ہیں مگر جب بات اپنے نفس پر آ جاتی ہے تو پھر معاشرے
کا ہر فرد اس کو توڑنے میں پہل کرنا اپنا حق اور فرض سمجھتا ہے ۔ وجہ صاف
ظاہر ہے کہ ہمارے سوچ اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی ہے ۔ انفرادیت کی یہ سوچ
ہمیں ان تمام باتوں کے لئے مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنے مفا دات کو معاشرے کے
تمام اصولوں سے بالا طاق رکھتے ہیں اور جب بات دوسروں پر آ جا تی ہے تو ہم
قانون اور اصولی کی بات کرتے ہیں جب تک ہماری انفرادیت ہماری اجتماعی سوچ
پر حاوی ہے ہم یہ سب کچھ چاہنے کے با وجود حاصل نہیں کر سکتے اور نہ اپنے
معاشرے کی خامیوں کو صاف کر سکتے ہیں۔
اور ہم عوام اور کیا کیا نہیں سوچتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کرتے کچھ اور ہیں ۔ |