دنیا بھر میں مسلمانوں کی کل آبادی ایک ارب 60 کروڑ سے
تجاوز کر گئی ہے۔ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی سات بلین ہے جو
2050ء تک نو بلین ہو جائے گی لیکن تب تک عالمی آبادی میں اضافے کا 70 فیصد
حصہ مسلمان ملکوں کی آبادی میں ہو گا۔ مسلمانوں کی تعداد میں اس تیزی سے
اضافے کی بدولت حلال فوڈ اور حلال پروڈکٹس کی بین الاقوامی منڈی تیزی سے
پھیل رہی ہے ۔ خوراک کی اس مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کی کوششوں میں مسلم
دنیا کے کاروباری اداروں کے علاوہ برازیل، امریکا اور آسڑیلیا کے بھی
کاروباری ادارے شامل ہیں۔ یہ ادارے حلال مصنوعات کی بین الاقوامی منڈی میں
اپنی جگہ بنانے کی جدوجہد میں ہیں۔ خلیج کی عرب ریاست متحدہ عرب امارات خود
کو عالمی سطح پر اسلامی بینکاری اور اسلامی کاروبار کے مرکز کے طور پر
مستحکم بنانا چاہتی ہے۔ حلال مصنوعات کی صنعت اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے
کہ عالمی سطح پر اس کی مالیت اگلے پانچ سال کے دوران دگنی ہو جائے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ
ہورہا ہے اس سے غیر مسلمان ممالک انتہائی پریشانی کا شکار ہیں۔ دنیا کی
آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے
افراد کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت اسلام کے خلاف جس طرح کا پراپیگنڈہ
کیا جارہا ہے اور اسے دہشت گردی کے ساتھ جس طرح منسلک کرنے کی سازشیں کی
جارہی ہیں، ان کے باوجوداسلام، مغرب اور امریکہ میں تیزی سے پھیلتا چلا
جارہا ہے۔ جس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ غیرمسلم دنیا اور عناصر جتنا
چاہیں زور لگا لیں اسلام کے آفاقی پیغام کو روک نہیں سکتے۔ یہ بھی اپنی جگہ
حقیقت ہے کہ یہ اسلام کی برکت اور دین محمدیﷺ کی خوبی ہے کہ وہ دلوں میں
اترتا چلا جارہا ہے مگر جہاں تک آج کے مسلمانوں کا انفرادی اور اجتماعی
کردار اور رویہ ہے ، وہ نہیں رہا جس سے متاثر ہوکر غیر مسلم دائرہ اسلام
میں داخل ہوں۔ آج کے مسلمان فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے پر بندوق تانے کھڑے
نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر میں اسلام کے نام پر قتل و غارت اور آگ اور خون کا
کھیل تماشا شروع کررکھا ہے اور اسے نعوذ باﷲ شریعت کے نفاذ کے نام پرببانگ
دہل justifyکرتے نظر آتے ہیں۔ انہی عناصر نے بہت سی طاقتور مسلمان مملکتوں
کا اتنا کمزور کردیا کہ غیر ملکی افواج ان پر قابض ہوگئیں۔ اس وقت ان کا
سارا زور پاکستان پر ہے جہاں یہ عناصر شریعت کے نام پر اپنے ہی مسلمان
بھائیوں کو قتل و غارت کررہے ہیں۔ وہ اپنے اس اقدام میں سفاکی کی پستیوں کو
چھو رہے ہیں۔ دوسرے مسلمان ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ دنیا بھر میں دہشت گرد
عناصر خود کو مسلمان ظاہر کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے دوسرے
مسلمانوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ نائجیریا میں بھی اسلامی شدت پسند اپنے ہی
مسلمان بھائیوں کا قتل عام کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں وہاں ایک کالج پر حملے
میں پچاس کے قریب طالب علموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ دنیا بھر میں اس
طرح کے تمام واقعات دراصل اسلام اور مسلمانوں کو عالمی سطح پر بدنام کرنے
کی بہت بڑی سازش ہے۔
یہ درست ہے کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے حلال اشیاء کی طلب میں
اضافہ ہوگااور بہت سی عالمی تجارتی ادارے اس سلسلے میں اقدامات کریں گے۔
مگر مسلمانوں کو سوچنا چاہئے کہ دنیا میں اب خوراک یا دہشت گردی کے حوالے
سے ہی وہ اپنی پہچان رکھیں گے یا پھر دیگر شعبوں میں بھی اپنا لوہا منوائیں
گے․․․؟ عالمی سطح پر مسلمانوں نے خود کو منوانا ہے تو اس کے لئے یکجہتی سب
سے بڑا ہتھیار ہے مگر ہم ابھی تک آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ او آئی سی بھی
غیرموثر اور غیر فعال ہوچکی ہے۔ یہ پلیٹ فارم بھی فرقہ بندی اور آپسی
اختلافات کی نظر ہوچکا۔ ہمارا اجتماعی شعور اور تشخص کھو چکا ہے جس سے
ہماری سمت غیر متعین ہے۔ اقوام متحدہ میں مسلمان ممالک کی نمائندگی سب سے
زیادہ ہے مگر اس کے باوجود ان کے پاس سیکورٹی کونسل میں کوئی مستقل نشست
موجود نہیں۔ مسلمانوں کے دیرینہ مسائل ابھی تک حل طلب ہیں۔ فلسطین، مسئلہ
کشمیر جوں کے توں ہیں اور اقوام متحدہ کی واضح قراردادوں کے باوجود وہاں
قابض افواج مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہیں۔ اسی طرح افغانستان، عراق کی
اینٹ سے اینٹ بجائی جاچکی ہے۔برما میں مسلمانوں کا بڑی بے دردی سے قتل عام
جاری ہے اور ہر عالمی پلیٹ فارم حتیٰ کے مسلمان ممالک اور ادارے چپ سادھے
بیٹھے ہیں۔ بہت سے مسلمان ممالک کی قیادت کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت
معذول کرکے انہیں نشانہ عبرت بنا دیا گیا۔ مگر ہم ہیں کہ اس حقیقت کے
باوجود سدھرنے کو تیار نہیں۔ مسلمان اگر فرقوں میں بٹے رہتے ہیں، ان کی سمت
واضح نہیں ہوتی، یکجہتی کا فقدان رہتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے
رہتے ہیں توان کی بڑی آبادی کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ تمام صورتحال مسلمانوں
کے لیے لمحہ فکریا ہے۔
اگر پوری دنیا کے مسلمان ایک ہوجائیں اور ان کے دل ایک دوسرے کے لئے دھڑکیں
تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمانوں کے مسائل حل نہ ہوں۔ مسلمانوں کی بڑھتی آبادی
صرف خوراک کے اداروں کی دوڑ یں نہ لگوائے بلکہ ان کا کردار اور خودی اتنی
بلند اور مضبوط ہونی چاہئے کہ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے ان کے
بغیر کوئی قدم اٹھا نہ سکیں۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے، نیل کے
ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر․․․ تو ہی بات بنتی ہے۔ |