ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں ؟

 بے پروا درویش شاعر منیر نیازی نے فرمایا تھا کہ
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
کوئی وعدہ نبھانا ہو کسی کے پاس جانا ہو
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ہم ہمیشہ کچھ اس طرح کا برتائو رکھتے ہیں مظفر گڑھ کی آمنہ بی بی بھی یہی رونا روتے ہوئے اس جہان سے احتجاجاً گزر گئی اگرچہ اس نے اپنے ساتھ بہت غلط کیا دین و مذہب قطعاً اس کی اجازت نہیں دیتے لیکن اگر وہ یہ نہ کرتی تو کیا حاکمان وقت اس کی داد رسی کیلئے اس کے گھر آتے ؟ کیا یوں تھر تھلّی مچتی جو اس کی زندگی میں تو نہ مچی اس کی موت کے بعد پوری حکومت ہل گئی ۔
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
یا پھر یوں کہا جائے کہ بقول غالب
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ذیشان ہے کہ ظالم کی حکومت رہ سکتی ہے ناانصاف کی نہیں ، انصاف کا دیر سے ملنا انصاف کی موت ہے آمنہ بی بی نے خود کو آگ نہیں لگائی بلکہ اس نے اس کرپٹ سسٹم کو آگ لگائی ہے طالم حکمرانوں کو آگ لگائی ہے اقرباء پروری کو آگ لگائی ہے پولیس سسٹم کو آگ لگائی ہے عوام کی بے حسی کو آگ لگائی ظالموں کی اندھی طاقت کو آگ لگائی سرمایہ داروں ، فرعون صفت جاگیرداروں کو آگ لگائی جو غریب کا سب کچھ لوٹ کر طعنے مارتے ہیں کہ ابھی دور جہالت باقی ہے کچھ نہیں بدلا اب بھی طاقتور ہزاروں سال پہلے کا قانون رکھتے ہیں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس غریبوں کو بھی ان کی رعایا غلاموں کنیزوں کی طرح رہنا چاہیے ان کی عزت ان کی غیرت امیروں کے آبروئے چشم کی محتاج ہے ۔ اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے ! فرمایا گیا کہ ملوموں کی آہ سے ڈر کیونکہ اس کی آہ عرش کو ہلادیتی ہے لیکن یہاں تو ہر ظالم جابر طاقتور کے کان بند ہیں ہمیں تو ڈر ہے کہ کوئی بہت بڑی مصیبت ہم پر نہ پڑ جائے اور اگر ایسا ہوا (اللہ تعالیٰ معاف کرے ) تو ظالم جابر تو مریں گے ساتھ ہم جیسے بھی مریں گے جو صرف تماشا دیکھتے رہے چاہتے ہوئے بھی ظالموں کو برا نہ کہ سکے کتنے بڑے بڑے ظلم ہورہے ہیں لیکن معاشرے کے کچھ لوگ آواز بلند کررہے ہیں جون ایلیا یاد آرہا ہے کہ
بولتے کیوں نہیں میرے حق میں
آبلے پڑگئے زبان میں کیا

کہاں گئے حقوق انسانی کے علم بردار دوچار کے علاوہ کون بول رہا ہے ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں مذہب کے علم بردار چپ ہیں سیاسی لیڈران کرام کہاں ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں کیلئے ہوّے کھڑے کردئیے جاتے ہیں اتنے ظلم کے بعد بھی وہ چپ ہیں کیوں کہ ان کی آگ اگلتی زبانیں خموش ہیں ان کی فصاحت و بلاغت کے دریا بہنا کیوں بند ہوگئے ہیں کیوں ان کے منہ کو تالے لگ گئے ہیں کیا ہمارا معاشرہ بانجھ ہوگیا ہے اور وہ اٹھارہ کروڑ جیتے جاگتے انسان جو منہ میں زبان رکھتے ہیں جن کے ہاتھ پائوں آنکھیں سلامتے ہیں چپ کی چادر اوڑھ کے لیٹ گئے ہیں آج ایک آمنہ گئی لیکن ابھی تو کروڑوں آمنہ موجود ہیں اگر ان ظالموں کو نکیل نہیں ڈالی گئی تو یہ بھوکے بھیڑیے قوم کی بیٹیوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے کیا کسی نے سوچا ہے آج دوسروں کی بربادی کا تماشا دیکھ کر دل ہی دل میں افسوس کررہے ہیں لیکن اگر یہ شعار عام ہوگیا تو کیا بنے گا اگر یہ بھیڑیا چال بن گئی تو کیا ہوگا روزانہ نہ جانے کتنی حوّا کی بیٹیاں لٹتی ہیں یہ تو ایک آدھا کیس ہی منظر عام پر آتا ہے نہ جانے کس کے ساتھ کہا کب کیا ہورہا ہے عام آدمی کے علم میں نہیں ہے آخر ہمارا معاشرہ کب جاگے گا اگر خادم اعلیٰ صاحب، آئی جی پنجاب شروع میں ہی نوٹس لے لیتے تو یہاں تک یہ نوبت ہی نہ آتی لیکن صاحبان اختیار کو تو اور بہت سے کام ہیں کیا اربوں روپے مفت میں ڈکارنے والے ایم این اے ، ایم پی اے جو عوامی نمائندہ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں مجرموں کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کریںگے؟ اور ہمیں تو افسوس ہے جمشید دستی صاحب پہ کہ انہیں اس کیلئے بھرپور آواز اٹھانی چاہیے تھی کہنے کو تو موجودہ حکومت عوامی حکومت ہے لیکن عوام بے یارومددگار کیوں ہے ہم بیرونی آقائوں کی اشارہ ابرو کے منظر کیوں رہتے ہیں کیوں انصاف نہیں کرتے اگر غریبوں کو انصاف مل جائے تو ان کے ذہن و دل کو سکون مل جاتا ہے لیکن یہاں تو دور دور تک اس کا امکان نظر نہیں آتا چپڑاسی سے لیکر اعلیٰ ترین عہدے تک کرپشن کا ہمالیہ عوام کا مقدر ہے ایسے میں تو زلزلوں اور سرخ آندھیوں کا خطرہ رہتا ہے آج بھی چھ ہزار پھانسی کے منتظر قیدی جیل میں موجود ہیں کتنے ہی سالوں سے حکومت عالمی طاقتوں کے ہاتھوں مجبور اور مظلوم انصاف کے طلبگار جن کے قتل ہوئے ناحق مارے گئے وہ آج حکمرانوں اور عدلیہ سے التجا کررہے ہیں کہ کب انہیں انصاف ملے گا کسی بیوہ کسی بہن کسی ماں کسی بیٹی کسی بھائی باپ کے دل کو کب سکون ملے گا کہ ان کو اجاڑنے والے ان کی دلوں کو زخمی کرنے والے انہیں برباد کرنے والوں کو سزا مل گئی اور انہیں انصاف مل گیا حکمران مجبور ہیں کیونکہ وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے پابند ہیں ۔

لیکن کیا انہوں نے اللہ عزوجل اور اس کے محبوب پاک سرور کونین ۖ کو منہ نہیں دکھانا اسلام کو پس پشت ڈالیں گے تو جہنم سے کیسے بچیں گے آخر اک دن مرنا ہے مجرموں کو سزا نہ ملنے کے باعث ہی آج یہ حالات ہوگئے ہیں غریب کے ساتھ ظلم ہوزیادتی ہو تو تھانے دار ایس ایچ او کی سب سے پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ باہروں باہر ہی صلح ہوجائے غریب کو کچھ دے دلا کر جان چھڑالی جائے لیکن یہ زندگی تو عارضی ہے جو گناہ کروگے دائمی زندگی کا مستقل عذاب ان کا مقدر بن جائے گا ہم تو کہتے ہیں کہ
تیری اے نہ میری اے
چار دناں دی زندگی
فیر مٹی دی ڈھیری اے

ایک مفکر نے کہا تھا کہ حکمرانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ عوام کو خوراک کی فراہمی یقینی بنائے ملکی سرحدوں کی حفاظت یقینی بنائے اور اور عوام پر اپنا اعتماد قائم رکھے آج حکمرانوں کو عوام مکروہاً اور مجبوراً برداشت کئے ہوئے ہیں آج نہ ان کی عزت محفوظ ہے نہ ان کا مال محفوظ ہے نہ ان کی جان محفوظ ہے نہیں مانتے تو کراچی والوں سے پوچھو ، تھرپارکر والوں سے پوچھو کے پی کے والوں سے پوچھو اور آمنہ اور اس جیسی سینکڑوں مظلوموں کے خاندان والوں سے پوچھ لو ہم یہ دعا کریں گے کہ اللہ عزوجل اپنے حبیب پاک ۖ کے صدقے حکمرانوں کو یہ ہدایت دے کہ لاکھوں روپے ظلم کے بعد دینے کی بجائے غریبوں کو وقت پر انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے غریب آپ سے کچھ نہیں مانگتے وہ صرف عزت سے جینے کا حق مانگتے ہیں ہم ببانگ دہل حکمرانوں سے یہ کہتے ہیں کہ اس کی گرفت سے بچو انصاف کرو اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں یاد رکھو ۔
نہ جا اس کے تحّمل پر کہ ب ڈھب ہے گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا

اللہ عزوجل ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بحضور سید المرسلین ۖ ۔

Syed Ali Husnain Chishti
About the Author: Syed Ali Husnain Chishti Read More Articles by Syed Ali Husnain Chishti: 23 Articles with 26275 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.