ترکی کے لوگوں سعودی عرب کے خلاف سخت جذبات ہیں
کیونکہ اس نے مصر میں الاخوان المسلمون کا تختہ الٹنے کی سازش میں شرکت کی
تھی اور عبد الفتاح سیسی کا ساتھ دیا تھا جس نے غداری کی تھی اور مصر کے
جمہوری طریقہ سے منتخب صدر کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا تھا ۔وہاں بعض
لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم سعودی عرب اب عمرہ کرنے کیلئے بھی اس وقت
تک نہیں جائیں جب تک کہ وہاں کا فاسد نظام بدل نہیں جائے گا۔
زاد المعاد اور سیرت کی دوسری کتابوں میں ایک اہم واقعہ مذکور ہے ، جب آپ
صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے ارادہ سے حدیبیہ کے مقام تک پہونچے تو قریش بہت
بے چین ہوئے آپ نے حضرت عثمانؓ کو بلواکر قریش کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ
جاکر کہہ دو کہ ہم جنگ کے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ عمرہ کے ارادہ سے آئے ہیں
۔ حضرت عثمان روانہ ہوئے ،وہ ابو سفیان اور قریش کے سربرآوردہ اشخاص کے پاس
گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام ان تک پہنچایا۔ جب وہ اپنی
بات کہہ چکے تو انہوں نے حضرت عثمان سے کہا تم اگر طواف یا عمرہ کرنا چاہتے
ہو تو کرلو ، حضرت عثمان نے اس موقعہ اور اجازت سے بالکل فائدہ نہیں اٹھایا
اور صاف کہہ دیا کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طواف نہ کرلیں گے
میں اس وقت تک طواف نہیں کرسکتا۔
جب حضرت عثمان حدیبیہ واپس ہوئے تو مسلمانوں نے کہا تم تو بڑے مزے میں رہے
تم نے طواف اورعمرہ کرکے اپنے دل کا ارمان نکال لیا ہوگا؟آپ نے فرمایا تم
لوگوں نے بڑی بدگمانی سے کام لیا، قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان
ہے اگر مجھے ایک سال بھی وہاں ٹھہرنا پڑتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم مدینہ میں تشریف فرما ہوتے تب بھی میں اس وقت تک طواف نہ کرتا جب تک
کہ حضور طواف نہ کرلیتے ۔ مجھے تو قریش نے طواف کی دعوت بھی دی تھی لیکن
میں نے صاف انکار کردیا۔
عمرہ کرنا اور طواف کرنا ہر حال میں اجر وثواب کی بات ہے لیکن یہ حضرت
عثمان کی اللہ کے رسول سے محبت اور دین سے عشق و وفا کی علامت ہے کہ انہوں
نے عمرہ اور طواف سے انکار کردیا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اس وقت خلاف
اسلام ملوکیت اور موروثی نظام کے تحت آل سعود حجاز کی سرزمیں پر حکمراں
ہیں۔ ملوکیت کا موروثی نظام کسری اور قیصر کی سنت ہے پیغمبر اور صحابہ کی
سنت نہیں ہے۔
علماءکرام نے تصریح کی ہے کہ اسلام کے سیاسی نظام میں ملوکیت اور موروثی
نظام کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔حکومت توکسی خطہ ارض کے باہمی اجتماعی انتظام کا
نام ہے وہ کسی شخص کی ذاتی ملکیت کیسے ہوسکتا ہے اور کسی خاندان کے مالکانہ
حقوق اس پر کیسے قائم ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب میں ملوکیت کا نظام ہے اور
وہاں حسن بنا شہید کی قائم کردہ تنظیم الاخوان المسلمون پر پابندی عائد
کردی گئی ہے اور اس سے وابستگی اختیار کرنے اور حمایت کرنے پر تیس سال کی
سزا مقرر کی گئی ہے ، حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ دین وشریعت کے رمز شناس آل
سعود نہیں بلکہ الاخوان المسلمون کے لوگ ہیں جن کے بارے میں ہندوستان اور
عالم اسلام کی ممتاز ترین شخصیت مولانا ابو الحسن علی ندوی نے کہا تھا کہ:
لا یبغضہم الا منافق ولا یحبہم الا مومن
ان سے نفرت کرنے والا منافق اور ان سے محبت کرنے والا مومن ہے
خود سعودی عرب کے فرواں روا ملک فیصل جو دینی غیرت اور حمیت رکھتے تھے اور
جنہوں نے امریکہ کے خلاف تیل کا ہتھیار استعمال کیا تھا اخوان کے بارے میں
بہت اچھی رائے رکھتے تھے اور ان کی بہت تعریفیں کرتے تھے آج اسی تنظیم
الاخوان المسلمون کو موجودہ سعودی حکمراں امریکہ کے دباؤ کے تحت دہشت گرد
قرار دیتے ہیں اور شام میں جہاد کرنے والے سعودیوں کو واپس بلا رہے ہیں اور
انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں ،مصر کی بے دین طاقتوں کا اور وہان کے غاصب
ڈکٹیٹر عبد الفتاح سیسی کی ہزاروں بلین ڈالر سے مددکر کرہے ہیں۔
سعودی عرب کے موجودہ ظلم وزیغ کے ماحول میں باہر کے مسلمان الاخوان
المسلمون پر سے پابندی ہٹانے تک اگر نفل عمرہ نہ کرنے کاارادہ کرلیں اور
سعودی سفارت خانہ کی دعوت بھی نہ قبول کریں تووہ پورے طور پر حق بجانب ہوں
گے اور وہ خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی کی پیروی کریں گے جنہوں نے قریش کی
دعوت قبول نہیں کی اور طواف و عمرہ سے بھی انکار کردیا کیونکہ اہل مکہ نے
اہل حق اور اہل اسلام کو طواف وعمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔دنیا کے مسلمانوں
کی طرف سے سعودی حکومت کو یہ پیغام جانا چاہئے کہ وہ سعودی حکومت کی خدمات
کا اعتراف بھی کرتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں سعودی حکومت کے اس مجرمانہ
کردار کو پسند نہیں کرتے ہیں۔
ملوکیت کے غلط نظام کے تحت خیر کے اور رفاہ عام کے کام ہو تے رہیں اور
انصاف قائم رہے اور دین کی اشاعت ہوتی رہے تو لوگ اس کو برداشت کرلیں گے
لیکن اگر غلط نظام کے تحت غلط کام بھی ہونے لگیں ہزاروں کو بے قصور جیل میں
ڈالا جانے لگے اورعوام پر ظلم بھی ہونے لگے اور ظلم کی طرفداری کی جانے لگے
دین وشریعت کو نافذ کرنے والوں کے مقابلہ میں بے دینوں کا اور باطل طاقتوں
کا ساتھ دیا جانے لگے تو دنیا کے مسلمان اس پر خاموش نہیں رہ سکتے یہ سکوت
جرم ہوگا اور اس سکوت پر اللہ کے یہاں بازپرس ہوگی۔ہماری وفاداری صرف اسلام
کے ساتھ ہے نہ کہ کسی حکومت کے ساتھ۔
سعودی عرب میں ایسا مہیب اور خوف زدہ کرنے والا ما حول ہے کہ وہاں سرکار ی
علماءکرام حکومت کے چشم وابرو کو دیکھ کر فتوے جاری کرتے ہیں وہ اپنے اظہار
خیال کے لئے آزاد نہیں ، مصر میں جب حسنی مبارک کے ظلم واستبداد کے خلاف
عوامی بغاوت کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے تھے اس وقت وہاں کے علماءکرام
حسنی مبارک کا ساتھ دے رہے تھے اور حسنی مبارک اور اس طرح کے تمام بدمعاش
ڈکٹیٹروں کو“ اولی الامر منکم “ میں شمار کررہے تھے حالانکہ اولی الامر سے
مراد وہ خلیفہ وقت اور امیر المومنین ہے جس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔
لیکن سعودی حکومت ظالم اور ہر ڈکٹیٹر کی حمایت کرتی رہی ہے اور اس کے خلاف
بغاوت سے روکتی رہی ہے اور وہ اس طرح مستقبل میں اپنے نظام کوہر خطرہ سے
محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔اس نے تیونس کے ڈکٹیٹر علی زین العابدین اور یمن کے
ڈکٹیٹر علی عبد اللہ صالح کو بھی اپنے یہاں پناہ دی تھی۔ اس طرح سعودی عرب
کا کردار ظلم کی حمایت اور ظالم کو پناہ دینے کا کردار ہے۔ عبد الفتاح سیسی
کی طرفداری کر کے سعودی عرب نے اپنے منافقانہ کردار کو بے نقاب کردیا ہے ،
ایران مجرم ہے کہ اس نے بشار الاسد جیسے ڈکٹیٹر کی حمایت کی ہے اور سعودی
عرب مجرم ہے کہ اس نے دین کو سربلند کرنے والی جماعت کو چھوڑ کر عبد الفتاح
سیسی کا ساتھ دیا ہے ، سعودی عرب نے اپنی تاریخ کی سب سے بھیانک اور بد نما
غلطی کی ہے مستقبل کا مورخ جب سعودی عرب کے زوال کی تاریخ لکھے گا تو وہ یہ
لکھے گا کہ کسی قوم کے سیاسی زوال سے پہلے اس کی عقل پر زوال اور دماغ پر
اختلال آتا ہے خدمت حرمین کا دعوی کرنے والوں کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ
وہ ان لوگوں کے ساتھ اپنی یک جہتی اور وابستگی کا اظہار کریں جن کا دین
اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا جو یورپ کے پروردہ اور مغربی تہذیب کے دلدادہ
اور شراب وکباب کے رسیا رہے تھے جن کے نظریات کا قبلہ لندن اور واشنگٹن تھا
اور جو سازش کے ذریعہ بر سر اقتدار آئے تھے جنہوں نے رمضان کے مہینہ میں
مصر کے صدر مرسی کی حمایت میں پر امن مظاہرہ کرنے والوں کو بندوق کی گولیوں
سے چھلنی کردیا تھا ان مسجدوں کو آگ لگادی تھی جس میں لوگوں نے پناہ لے
رکھی تھی قرآن میں تو حکم ہے ولا ترکنوا الی الذین ظلموا یعنی تمہارے اندر
ظالموں کی طرف ادنی جھکاو بھی نہیں ہونا چاہئے لیکن سعودی حکومت نے دین اور
بے دینی کی کشمکش کے نازک زمانہ میں اور خون کے دھبوں کے مٹنے سے پہلے ہی
ظالموں کی حمایت میں فورا بیان جاری کیا اور ہزاروں بلین ڈالر کی امداد کا
اعلان کیا ، یہ سعودی عرب کے چہرے کا وہ سیاہ داغ ہے جسے آسانی سے دھویا
نہیں جاسکتا ہے ،اگر سعودی عرب کا ضمیر اس پر بے چین نہیں ہے تو اسے تیار
رہنا چاہئے کہ اس کے حکمرانوں کا حشر ان بدبختوں کے ساتھ ہو جنہوں نے رمضان
کے زمانہ میں مومنوں کو بندوقوں کا نشانہ بنایا ہے -
کاش کہ ایسا ہوتا کہ خدمت حرمین کا دعوی کرنے والوں نے اس لقب کی لاج رکھی
ہوتی وہ مصر میں اخوان کی تقویت کا باعث بنتے ، ان کی حکومت کو مضبوط کرتے
شریعت کے احکام کی تنفیذ میں ان کی مدد کرتے ان کے ساتھ مل کر دنیا کی عالم
گیر صداقت کو اور دنیا میں اسلام کے پیغام کو عام کرنے کا پروگرام بناتے وہ
ترکوں کے ساتھ مل کر اسلام کی ایک آہنی دیوار بناتے وہ اسلام کی سیاسی طاقت
کا ذریعہ بنتے، اقتصادی سائنسی اور عسکری اعتبار سے مسلمان ملکوں کا ایک
طاقتور بلاک بناتے جس کی سطوت اور طاقت کی وجہ سے اس کی طرف کسی کو بری نظر
سے دیکھنے ہمت نہیں ہوتی۔ مستقبل کا مورخ یہ لکھے گا کہ خادم الحرمین نے یہ
سب کچھ نہیں کیا ، انہوں نے حالات کا صحیح فائدہ اٹھانے کے بجائے اسلام کے
کاز کو نقصان پہونچایا اور خود امریکہ کی گود میں جاکر بیٹھ گئے۔
سعودی عرب نے الاخوان المسلمون کو اور شام میں جہاد کرنے والوں کو امریکہ
کے اشارہ پر دہشت گرد قرار دیا ہے الاخوان المسلمون کی بانی امام حسن البنا
شہید کی روح خادم الحرمین سے کہہ رہی ہوگی۔
لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ ونام ہے .... یہ جانتا اگر تو لٹا تا نہ
گھر کو میں( بشکریہ پروفیسر محسن عثمانی ندو ی) |