محمد ذاکر ندوی(متعلم تدریب افتاء دارالعلوم ندوۃ العلماء
لکھنؤ)
نجم الدین اربکان کو اگر ترکی کے پولیٹکل اور سیاسی اسلا م کا نمائندہ اور
روح رواں سمجھاتا ہے تو فتح اﷲ گولن وہاں کے سوشل اسلام کے روح رواں تصور
کئے جاتے ہیں، فتح اﷲ گولن ’’گولن تحریک ‘‘کے بانی و قائد ہیں،اس تحریک کے
ترکی وبیرونِ ترکی میں سیکڑوں دینی مدارس ہیں، اس تحریک کے مدارس کا جال
وسط ایشیا، روس، مغرب، کینیا، بلقان اور قوقاز میں پھیلا ہواہے۔اسکے پاس
اپنے اخبارات وجرائد اور ٹی وی چینلز ہیں، اور متعدد کمپنیاں اور رفاہی
وفلاحی ادارے اس کے زیرِ نگرانی چل رہے ہیں،اس تحریک کی سرگرمیوں کا دائرہ
یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تحریک متعدد ممالک میں مخصوص ثقافتی مراکز
کے قیام کا اہتمام کرتی ہے اور دنیا کی مشہور ومعروف یونیورسٹیوں کے تعاون
سے بریطانیا،متحدہ یورپ اور امریکہ میں سالانہ کانفرنسیں منعقد کرتی ہے۔
’’گولن تحریک ‘‘کو دیگرعلاقائی وغیر علاقائی اسلامی تحریکات سے جو چیز
ممتاز کرتی ہے وہ مغرب کی جانب سے اس کی پذیرائی اوراستقبال ہے،تحریک کو اس
مقبولیت و پذیرائی اور اپنے مخصوص فکرونظریہ کی وجہ سے قابل عمل اور قابلِ
تقلید سمجھاتا جاتاہے۔چونکہ امریکہ کی پالیسی سازاداروں اور قانون سازی پر
’’عالمی صہیونی تنظیم‘‘ مکمل طور پر حاوی ہے، اس لئے نجم الدین اربکان
امریکہ کوعالم اسلام کادشمن سمجھتے ہیں،جبکہ گولن امریکہ اور یورپ کو ان
عالمی طاقتوں میں گردانتے ہیں جن کے ساتھ تعاون ناگزیر ہے،اور اگر اربکان
عالم ِاسلام کے اتحاد کے متمنی اور داعی ہیں ،تو گولن عالمِ عربی اور ایران
کے اتحاد کو ترکی کیلئے مفیداور نتیجہ خیزنہیں سمجھتے۔بلکہ قوقاز، وسطی
ایشیا اور بلقان کو ترکی کے لئے حیات بخش اور ثمر آور تصور کرتے ہیں،کیونکہ
ان ملکوں میں ترکی کی کافی اقلیت آباد ہے،اور ان کا خیال ہے کہ اگر کبھی
ترکی کی سابقہ شان وشوکت اور عظمت وجلال عود کر آئی،اور اس کا شمار دنیا کے
اہم ترین ممالک میں ہونے لگا ،تواس وقت ترکی کے لئے دنیا کے تمام خطوں میں
آباد ترکوں کے درمیان طاقتور اتحاد لازم اور ناگزیر ہوگا،لیکن گولن اپنی
دور اندیشی اور ذہانت کی وجہ سے ’’ترکی قیادت‘‘کی تعبیر استعمال نہیں کررہے
ہیں، اسی طرح وہ وسط ایشیاکی ترک اقلیتوں کی خود مختاری کے داعی بھی ہیں ،اور
ان کی جماعت ان ملکوں میں اپنی تعلیمی سرگرمیاں انجام نہیں دیتی ہے جہاں کی
برسرِ اقتدار حکومت کی جانب سے ترک اقلیتوں کو مشکلات اور مسائل
کاسامناکرنا پڑ سکتا ہو۔جیسے چین، روس اور یونان۔
فتح اﷲ گولن کے سلسلہ میں جو چیز نگاہوں کو کھٹکتی ہے وہ ان کا ترکی میں
شریعت کے نفاذ کو اہمیت اور فوقیت نہ دیناہے۔اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں:
شریعتِ اسلامیہ کے بیشترقواعد وضوابط لوگوں کی پرسنل زندگی سے متعلق
ہیں،اورکم ہی قواعد ہیں جن کا تعلق حکومت اور امورِ حکومت کے نظم وانتظام
سے ہے ۔اورعمومی معاملات میں شرعی احکام کے نفاذ کا کوئی جواز نہیں،اور اس
کے مطابق گولن جمہوریت کو بہترین حل قرار دیتے ہیں۔
جب بھی آپ ترکوں کے ساتھ گفتگوکریں گے( قطعِ نظر اس کے کہ وہ اسلام پسند
ہیں یا جمہوریت نواز)گولن تحریک کا ذکر ضرور سنیں گے،’’جوتشکہ غل‘‘(جو ایک
نوجوان ترک عورت ہے )،الشرق الاوسط سے، یونیورسٹی سے فراغت کے بعد بہتر جاب
نہ ملنے کی پریشانیوں کا شکوہ کرتے ہوئے کہتی ہے :اگر آپ کا ’’گولن‘‘تحریک
سے کوئی تعلق ہے،یاآپ نے اس کے ساتھ کام کیا ہے یا اس کی کسی سرگرمی میں
رضاکارانہ طور پر شریک رہے ہیں تو آپ کے لئے ترکی میں معیشت کی راہیں وا ہو
جائیں گی،اور بہترین جاب اور نوکری مل جائے گی۔
ترک مفکر’’ماردین‘‘نے الشرق الاوسط کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا:تحریک کے
عملی ارادے کیا ہیں اس کے بابت جاننا مشکل اور دشوار ہے،ساتھ ہی یہ وضاحت
بھی کی کہ وقت پر ہی اس کا صحیح جواب مل سکتا ہے،اس تحریک کی سرگرمیاں اگر
چہ گوناگوں اور اس کی خدمات متنوع اور ہمہ جہت ہیں لیکن بعض لوگوں کی
نگاہوں میں اب بھی یہ پیچیدہ اور عقدۂ لا ینحل بنی ہوئی ہے ،اورترک و غیر
ترک کے درمیان اس کے بابت اور بالخصوص اس کے بنیادی مقاصدکے سلسلے میں
سوالات اٹھائے جاتے رہتے ہیں،’’گولن تحریک کو اس وقت زیادہ ترقی اور
مقبولیت ملی جب گزشتہ آٹھویں دہائی میں ترکی کے اندر دینی تحریکیں اور
دعوتیں اٹھنا شروع ہوئی۔اور ۱۹۸۰ میں کنعان افرین کی قیادت میں جب فوجی
انقلاب رونما ہوا،اور فوجی حکومت نے اقتصادیات کوآزادرکھنے،اور دینی
تنظیموں کووسیع پیمانے پر آزادیٔ عمل دینے کی قراردادیں پاس کیں ، اسی وقت
سے دینی تحریکات آگے بڑھنے لگیں، اور انہیں میں ایک ’’تحریک النور‘‘ بھی
تھی،جس کی بنیاد سعید نورسی نے رکھی تھی، ’’گولن تحریک‘‘ اسی کی خوشہ چیں
اور اسی کی تیار کی ہوئی پود ہے ۔ اس کااصل مقصد اسلامی شعائرپر عامل اوران
کاپابند معاشرہ تشکیل دینا ہے،ساتھ ہی سائنسی علوم ، جدید ٹکنالوجی حاصل
کرنا اورعالمِ اسلام کوبامِ عروج اور معراجِ ترقی تک پہنچانا ان کے بنیادی
مقاصد ہیں،آج فتح اﷲ گولن کا نام ترکی کے روشن پسند اور معتدل اسلام کی
اصطلاح کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، اس لئے کہ گولن نے اپنے دوسرے حامیوں اور
معاونین کی مدد سے ایک ایسی دینی، قومی،سیاسی اور سوشل تحریک کے قیام کی
کوشش کی، جو جدت ومعاصرت اور جمہوریت نوازی و قومی مذہب پرستی کی جامع
ہو،اورانہوں نے اسلام ، قومیت اور لیبر لزم سب کو ایک پلڑے میں رکھا ، گولن
کے سلسلے میں یورپین مجلات میں بہت کچھ لکھا گیا جس میں انہیں سوشل،قومی
واسلامی تحریک کے اس قائد کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے،جسے یورپ سے کوئی
دشمنی اور عداوت نہیں ہے، اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مشرق وسطی میں
مستقبل سوشل اسلام کا ہوگا ۔ لیکن ان کے مخالفین کا ان کے بابت کہنا ہے کہ
وہ ترکی جمہوریت کے لئے سخت خطرہ ہیں ، اور ان پر الزام لگا یاہے کہ وہ
ترکوں کی سوشل سرگرمیوں کے حوالہ سے ترکی جمہوریت کو ہتھیاناچاہتے ہیں۔ترکی
کی جمہوریت نواز سیکولر پارٹی سے تعلق رکھنے والی’’میروی بیتیک جوربوز‘‘کا
کہنا ہے کہ ’’گولن تحریک ‘‘ مستقبل میں اپنے سیاسی مقاصد اور مفادات حاصل
کرنے کے لئے معاشرہ میں اپنے اثر ورسوخ کافائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔اورمزید اس
بات کی بھی وضاحت کی کہ تحریک سے وابستہ افرد دیگر دینی تحریکوں کے افراد
اور عملہ کی طرح اجتماعی طور پر اس پارٹی کے مفاد میں حق رائے دہی کی بات
کہتے ہیں جس پرلوگوں کا اتفاق ہوجائے۔اس تحریک سے وابستہ عورتوں کا نقاب
اور پردہ دوسری عورتوں کے نقاب سے بالکل مختلف ہو تا ہے۔لیکن ’’قاسم
مصطفی‘‘جو ایک ترکی النسل نوجوان اور گولن تحریک کے سرگرم کارکن ہیں اور
برطانیہ کی یونیورسٹی’’برمنگھم ‘‘میں زیرِ تعلیم ہیں،اس صورتحال کی نفی
کرتے ہوئے ’’الشرق الاوسط‘‘ سے کہتے ہیں:یہ بات بالکل محال ہے کہ ہمارے کچھ
سیاسی مقاصد اور خفیہ منصوبے ہیں جیسا کہ کچھ لوگ بغیر کسی دلیل وشاہد کے
اس بات کے دعویدار ہیں ، ہمارے مقاصد خالص تعلیمی اور تربیتی ہیں ، ترکی
میں کئی بار فتح اﷲ گولن کے خلاف مقدمہ چلا گیا لیکن ہر بار انہیں بری قرار
دیا گیا،اس لئے کہ یہ محض دعوے تھے اور ان کے پیچھے کوئی پختہ دلیل نہیں
تھی،دنیا بھر میں ’’گولن تحریک‘‘ اپنا اثرچھوڑ رہی ہے،اور اس کے تعلقات
کادائرہ بہت وسیع ہے،اس کاندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ ترکی میں تین
سو جبکہ بیرونِ ترکی دوسو مدرسے اس کی نگرانی میں چل رہے ہیں ، ان مدارس کے
ذریعہ گولن جس فکر ونظریہ کو پیش کرنا چاہتے ہیں وہ چند عناصر پر مشتمل ہے
: عثمانی سرمایہ،جمہوری سرمایہ،بازار کی معیشت اورجمہوریت۔ترکی کے تجزیہ
نگار ’’ساہین بائی‘‘ کہتے ہیں:قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ ان مدارس کے فارغین
یہاں سے فارغ ہوکر زندگی کے اعلی مقامات اور مناصب پر پہنچتے ہیں۔
گولن تحریک کے ما تحت چلنے والے سیکڑوں مدارس ترکی حکومت کے نگرانی ہی میں
چلتے ہیں، یہ مدارس نصابہائے درس اورتعلیمی نظام میں اگر چہ دوسرے مدارس سے
مشابہ ہیں ،لیکن ان کی زیادہ توجہ اخلاقیات اور دین پر ہوتی ہے، اور ان کے
اساتذہ بڑی اور اچھی یونیورسٹیوں کے فارغین ہوتے ہیں،اور ان مدارس کو
مالیات کے شعبہ میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں ہوتاہے۔یہ اپنے
تعلیمی نظام کی بہتری اور عمدہ وممتاز اور معیاری تعلیم کے ذریعہ جانے جاتے
ہیں،اس میں مسلم وغیر مسلم سبھی تعلیم حاصل کرتے ہیں،اور ان مدارس میں
تعلیم کے لئے بنیادی و اولین زبان انگریزی ہے۔ان سب کے باوجود فتح اﷲ گولن
سختی سے یہ کہتے ہیں: کہ وہ ان مدارس کے مالک نہیں ہیں،بلکہ یہ ترکی کی
ثقافتی سرگرمیوں اور اس کی اسلامی اقدار کا ایک جز ہیں۔اس سلسلے میں مصطفی
قاسم نے ’’الشرق الاوسط ‘‘کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا:ہاں! ہمارے مدارس
ایشیا،روس، بلقان، قوقاز اور شمالی یورپ میں ہیں، اور کئی ملکوں (ایشیا،
یورپ، اردن، مصراور سعودیہ) میں ہما رے ثقافتی مراکز بھی ہیں،اوران ثقافتی
مراکز کے نام گولن کی طرف منسوب نہیں ہیں ،بلکہ مقامی ناموں اور اسلام کی
نمایاں شخصیات کی طرف ان کا انتساب ہے،ہمارے مقاصد واضح ہیں ، اوروہ صرف
اسلامی اقدار کا فروغ اور ترکی ثقافت کی تعلیم ہے۔ہمارے مدارس میں طلبہ تین
زبانوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، انگریزی زبان،علاقائی زبان اور اختیاری
زبان،مصطفی قاسم نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ گولن تحریک سے وابستہ مدارس
تعلیمی فیس بھی لیتے ہیں اور ممتاز طلبہ کو اسکالر شپ بھی دیتے ہیں۔
انہوں نے ترکی قوم سے اپنی محبت ووابستگی اوراہتمام و فکرمندی کی بنیادپر
سولہ افراد کے ساتھ مل کر’’ایشیا فائنینس‘‘ کے نام سے ایک سرمایہ کاری بینک
بھی قائم کیا ہے، اس بینک کا مقصد نفع حاصل کرنا نہیں ہے، اس میں قرض دار
کو شرح سود نہیں ادا کرنی پڑتی ، اس بینک کا مقصد (جس کا سرمایہ تقریباً
۱۲۵ ملین ڈالر ہے)سابق سوویت یونین کی جمہوریتوں کی غیر ملکی سرمایہ کاریوں
کو بڑھاوا دینا ہے، لیکن چونکہ وسط ایشیا کی اسلامی جمہوریتیں کسی بھی ایسی
تنظیم یاتحریک کے ساتھ رواداری نہیں برت سکتیں جو سیاسی مقاصد کی خاطر
اسلام کا استحصال کرتی ہوں،اس لئے گولن تحریک کے مدارس اور اس کی تنظیمیں
بہت احتیاط کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتی ہیں اور اس کی پور ی رعایت
رکھتی ہیں کی ان کے دینی یا سیاسی احساسات کونہ چھیڑا جائے۔مصطفی قاسم کہتے
ہیں: ہاں! کبھی کبھی اس شہر یا اس شہر کی مقامی حکومتوں کے ساتھ ہمارے کچھ
اختلافات ہوئے ہیں،لیکن ہم ہر شہر میں وہاں کے مقامی قوانین کے دائرے میں
کام کرتے ہیں۔تحریک کے اس اصرار کے باوجود کہ اس کی سرگرمیوں کا مقصد محض
تہذیبی وتربیتی ہے ،جاپان کے ’’نیکای‘‘ اخبار کے مراسلہ نگار ترکی صحافی
’’سینان تافشان‘‘ نے ’’الشرق الاوسط‘‘ کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا:’’گولن
کے ترکی چھوڑ کر امریکہ چلے جانے اور وہاں رہائش اختیار کرلینے کا حقیقی
سبب ان کی وہ ویڈیو کیسٹ ہے جس میں انہوں نے اپنے معاونین سے آہستہ آہستہ
ترکی نظام کو تبدیل کرنے کی بات کہی ہے، ’’سنان‘‘ کہتے ہیں :ویڈیو کیسٹ (جو
یو ٹیوب پر ڈاؤن لوڈ کی گئی ہے)نے ترکی کے اندر بڑے پیمانے پر بحث ومباحثہ
کا سلسلہ چھیڑ دیا ہے،اور گولن تحریک کے لئے بڑے مسائل اورمشکلات پیدا کردی
ہیں۔
گولن ترکی چھوڑ کر امریکہ کیوں چلے گئے اس کے بابت کوئی واضح اور قانونی
وجہ نہیں بتائی گئی، البتہ ترکی اقتدار اور حکومت کے ساتھ گولن کی
پریشانیاں اسی وقت شروع ہوگئی تھیں جب انہوں نے ترکی ٹیلی ویژن پر گفتگو کی
تھی اور ایسی بات کہی تھی جسے بعض لوگوں نے ترکی اداروں کے خلاف ضمنی تنقید
سمجھاتھا۔ اور اس کے بعد ایڈو کیٹ جنرل نے گولن کے بیانات کی تحقیق و تفتیش
شروع کردی تھی، اور عین اسی وقت ترکی کے وزیرِ اعظم ’’بولنت اجاوید‘‘ نے اس
میں مداخلت کی اور حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ اس معاملہ کو حل کرنے کی دعوت
دی،اور اسے ٹیلی ویزن چینلوں کا گرما گرم موضوع بحث بنانے سے بھی روکا۔اور
گولن اور ان کے تعلیمی اداروں کا دفاع کرتے ہوئے کہا:ان کے مدارس دنیا بھر
میں ترکی ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں، اورمسلسل حکومت ہی کے زیرِ نگرانی چلتے
ہیں، اس کے بعد گولن نے علانیہ اپنے بیانات کے سلسلے میں معذرت ظاہر
کی،لیکن بعض سیکولر پسند افراد اب بھی ان کے مقاصد کے تئیں متردد نظر آتے
ہیں،اور ان پر حکومتی اداروں (بسشمول لشکر)کے حوالے سے سیاسی مقاصد حاصل
کرنے کی کوشش کے الزامات بھی لگائے گئے،پروگرام نشر ہونے کے ایک ہفتہ بعد
ہی ترکی صدر’’ سلیمان دیمیریل ‘‘نے گولن کے نام ایک وارننگ روانہ کی، جس
میں انہوں نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ ایک دینی شخص کے لئے یہ موزوں نہیں کہ
وہ سیاسی مقاصد اور مفادات کا حریص ہو، دین سے وابستہ شخص کو اپنے دین کا
احترام کرنے والا اور اس کی تعلیمات کے مطابق چلنے والا ہو نا چاہئے، اوریہ
چیزانسانیت کی بہترین خیر خواہی کے ذریعہ ہی ممکن ہے،نہ کہ دنیاوی معاملات
میں گرفتار ہوکر،اس کے بعد گولن کی یوٹیوب پر نشر کی جانے والی اس مشہور
ویڈکلپ کا واقعہ سامنے آیا، جس میں گولن کواپنے چند معاونین سے یہ کہتے
ہوئے دکھا یا گیاہے کی:ترکی نظام کو سیکولر سسٹم سے اسلامک سسٹم میں تبدیل
کرنے کے لیے وہ جلدہی تحریک شروع کریں گے،اسی طرح انہوں نے کہا کہ: ہم
ازبکستان میں ترکی ثقافت کو فروغ دیں گے،اس ویڈیو کلپ سے ترک فوج اور ملک
کے دیگر تعلیمی اداروں کے اندر غصہ کا ماحول پیدا ہو گیا، اور اس واقعہ سے
ترکی اور ازبکستان کے درمیان ڈپلومیٹک پریشانی پیدا ہوگئی،اور’’ بولنت
اجاوید‘‘ کو دوبارہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مداخلت پر مجبور ہونا
پڑا۔اجاوید نے کہا: ازبکستان کے صدر کو ترکی سے متعلق ایسے اندیشے لاحق ہیں
جن کا کوئی وجہ جواز نہیں،ترکی ازبکستان کے داخلی امور میں کیوں کر مداخلت
کر سکتا ہے، محض بے بنیاد اور غیر ضروری خدشات کی وجہ سے ہم دو ملکوں کے
درمیان تعلقات خراب کرنے کی قطعاً اطازت نہیں دے سکتے۔لیکن ازبکستان نے یہ
طے کر لیا ہے کہ وہ اپنے یہاں گولن تحریک کے متعدد مدرسوں کو بند کردے
گا،اورایسا لگتاہے کہ اس دوران ترکی کے سیکولر ادارہ کو بھی گولن اور ان کے
تعلیمی مدرسوں کی جانب سے کافی بے چینی محسوس ہوتی رہی۔چنانچہ ترکی کے اعلی
تعلیمی بورڈ نے ایک قرار داد پاس کی، جس کے رو سے گولن مدارس کی تعلیمی
اسناد نا قابلِ قبول قرار دی جانے لگیں،لیکن یہ قرارداد وقتی اور عارضی تھی۔
گولن نے اپنی تحریک کی سرگرمیوں کی بابت ’’الشرق الاوسط‘‘سے جو گفتگو کی
تھی، اس کے سلسلہ میں معذرت کا اظہار کیا ہے، اور یہ وضاحت کی ہے کہ وہ
علاج کے لئے امریکہ میں مقیم ہیں،اور ترکی کے حالات اس بات کی اجازت نہیں
دیتے ہیں کہ وہ ایسے دین جن کے تعلق سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہوں، اور آج
بھی گولن کے بہت سے سیاسی افرد کے ساتھ بہتر اور خوشگوار تعلقات ہیں، ۱۹۹۴
میں ان کی ملاقات ترکی صدور ، ترکی وزائے اعظم ،تمام سیاسی پارٹیوں کے
قائدین اوربااثر لوگوں سے ہوئی،۱۹۹۷ میں ترکی صدر’’ دیمیریل ‘‘کو فتح اﷲ
گولن کے تعلیمی ادارے کی طرف سے ایوارڈ دیا گیا، اور ترکی کے وزیرِ اعظم
’’بولنت اجاوید ‘‘سے بھی ان کی ملاقات ہو ئی،اور اسی طرح گولن دوسرے مذاہب
کے پیشواؤں سے ملاقات میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں، چنانچہ ترکی کے
یہودی پیشواؤں سے انہوں نے ملاقات کی ،اورآرتھو ڈکس چرچ کے صدر اور روم کے
بابا فاتیکان سے بھی ان کی ملاقاتیں ہوئیں،لیکن ترکی کے بعض دین پسندفراد
نے اسے پسندید گی کی نگا ہوں سے نہیں دیکھا،اور کہا کہ گولن حکومت سے زیادہ
اپنے آپ کو اہمیت دے رہے ہیں ۔ جب کہ کچھ لوگوں کی رائے یہ تھی کہ گولن
ترکی میں اسلام کاترجمان بننا چاہتے ہیں، گولن کے اخبار ومجلات اور ٹیلی
ویژن چینلز کے ساتھ ہنوز روابط برقرار ہیں،بالفاظِ دیگر امریکہ میں ہونے کے
باوجودبھی ان کی تحریک منفی باتوں سے متاثر نہیں ہوئی۔ مصطفی قاسم نے
’’الشرق الاوسط‘‘ سے اپنی گفتگو میں کہا: ہمارے پاس بنیادی ٹی وی چینل(ایس
، ٹی،وی)اور کئی دوسرے ٹی وی چینل ہیں،ہمارے پاس(ایس ،ٹی،وی)کے طرز پر ایک
اخباری چینل بھی ہے جو چوبیس گھنٹے خبریں نشر کرتا ہے،اور بچوں کے لئے بھی
ایک مخصوص ٹی وی چینل ہے،اور دوسرے ثقافتی اور جنرل چینلز بھی ہیں،ساتھ ہی
ہمارا امریکہ میں ایک مخصوص انگریزی چینل ہے،ہم ان کے ذریعہ اپنے پروگرام
بناتے ہیں اور ترکی کے دوسرے مقامی چینلز انہیں خریدتے ہیں۔اور یہ چیزبہت
سے ترکوں کی بے چینی کا باعث بنی ہوئی ہے ،جن میں خاص طور ’’اویااکجونینش‘‘کا
نام قابلِ ذکر ہے،جو ’’حزب السعادۃ‘‘ کے ایک ممتاز قائد ہیں ۔ انہوں نے
’’الشرق الاوسط‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو باریک
بینی کے ساتھ بیرون ترکی گولن تحریک کے تعلقات سے آشنا ہو۔بہت سے ذرائعِ
ابلاغ اور کارکنان اس تحریک کے ساتھ کام کررہے ہیں یا اس کے معاون ہیں۔اسی
طرح کسی شخص کو ان کے متبعین کے بارے میں بھی حقیقی علم نہیں ہے،لیکن ان کے
افکار سے متاثر ہونے والے افراد کا تخمینہ تقریباً دوسو ہزار سے چار ملین
تک ہے،اور ان کے افکار سے متأثر ہونے والوں کی کثرت تعدادکی اصل وجہ ان
کاباہمی رابطہ پر زور دینا،میڈیاکا استعمال کرنا، براہِ راست گفتگو کرنا
اور ملاقات کے دروازے وا رکھناہے، چنانچہ انٹرنیٹ پر ان کی ویب سائٹ بارہ
زبانوں میں موجود ہے،اسی طرح وہ باکمال خطیب بھی ہیں،ان کے دینی خطبات کے
موضوع دوسرے اہلِ دین افراد کے موضوعات سے بالکل مختلف اور جدا ہوا کرتے
ہیں، کبھی تو وہ نشأۃ ثانیہ اورارتقاء پر گفتگو کرتے ہیں اور کبھی جدید طرز
ہائے تعلیم ،سائنسی علوم،اقتصادیات اور عمومی انصاف پر خطاب کرتے ہیں،ان کے
دینی خطبات جوش و جذبہ اور حوصلہ وولولہ سے لبریز ہوا کرتے ہیں،اور کبھی
کبھی دورانِ درس ان کی آنکھوں سے اشک رواں ہوجاتے ہیں،اس سے ان کو بے پناہ
مقبولیت حاصل ہوئی۔ان کے دینی اسباق کی ویڈیو گرافی ہوتی ہے یاموبائل کے
ذریعہ ان کی ویڈیو بنائی جاتی ہے اورپھر ان کے معاونین و مساعدین ایک دوسرے
تک اسے منتقل کرتے ہیں،اور ان ویڈیوز کے ذریعہ ان کی تحریک کو مالی اعتبار
سے کافی پشت پناہی ملتی ہے۔گولن کلاسیکل دینی معلومات اور مغربی فلسفہ سے
واقفیت وآگہی رکھتے ہیں اور ان دونوں کے جامع ہیں، وہ بڑے چرب زبان اور
اچھے کاتب وادیب ہیں،ان کی بعض کتابیں تو ترکی میں سب سے زیادہ فروخت ہو نے
والی کتابوں میں شمار کی جاتی ہیں،ترکی کے مشہور ادیب’’نوری اکمان‘‘ان کی
بابت لکھتے ہیں:’’وہ کلاسیکل طرز کے آدمی ہیں،وہ ان شخصیات کے مانند ہیں جن
کے بارے میں ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے اور فلموں میں دیکھا ہے۔جب بھی وہ
گفتگو کرتے ہیں باربار ’’استغفر اﷲ ‘‘ کہتے ہیں،بہت سنجیدگی اور ادب
واحترام کے ساتھ بات کرتے ہیں،اور نحوی قواعد میں ان سے غلطی نہیں ہوتی‘‘۔
لیکن ان کی اسی مقبولیت نے گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں سیکولر حکومت
مخالف سرگرمیوں کو رواج دینے کے الزام میں تین سال قید کی مشقت میں بھی
ڈالا،لیکن وہ حکومت کو برابر یہی جواب دیتے رہے کہ وہ بھی ایک سیکولر
مسلمان ہیں،ان کا منشا اسلامی حکومت نہیں ہے بلکہ وہ ترکی میں اسلام کو
ترکی رنگ وآہنگ میں ڈھالنا چاہتے ہیں،ان کا مقصد صرف ترکی میں حکومت اور
دین کے مابین دوبارہ اسی طرح تعلق بحال کرنا ہے جس طرح دولتِ عثمانیہ میں
تھا،جب کہ امورِ حکومت وضعی قوانین کے مطابق تھے،لیکن لوگوں کو اپنے افکارو
نظریات کے اظہار اوردینی سرگرمیوں کی انجام دہی کی مکمل آزادی حاصل
تھی،گولن کا خیال ہے کہ یہ ترکی اسلام کی خصوصیت ہے۔وہ ترکی کے اسلام اور
عرب ودیگر مسلمانوں کے اسلام میں فرق کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ترکوں
کا اسلام ،اسلام اور قومیت ترکیہ سے عبارت ہے،اور اس کی اصل بنیادی طورپر
شعائرِ دین کی انجام دہی نہیں ہے، بلکہ اسلام نے انسانیت کو زندگی گزارنے
کے جو اصول وضوابط دیئے ہیں ان کے مطابق یومیہ زندگی میں تصرف کرناہے۔ اور
گولن ترکی کے سیکولر نواز افراد اور غیر مسلموں کے خلاف کوئی قصد نہیں
رکھتے ہیں ۔اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے تحفظ میں ہی دراصل ترکی کے سرمایۂ
عثمانی کا تحفظ ہے۔ تعلیم کے سلسلے میں ان کا نظریہ یہ ہے کہ اسلامی
حکومتوں کو ایسی تعلیم فراہم کرنی چاہئے جو مو جودہ دنیا کے شانہ بشانہ
چلنے میں مساعد ہو،اسی طرح ٹکنالوجی اور جدید علوم بھی پڑھائے جائیں۔ اسی
لئے فتح اﷲ گولن بڑی شد ومدکے ساتھ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ مسلمان
عالمی اقتصادی وسیاسی نظام میں اپنی موجودگی اور اپنا مقام ثابت کریں،اسی
طرح وہ ترکی کو یورپین اتحاد میں شامل کئے جانے کے پرجوش داعی بھی ہیں۔فتح
اﷲ گولن دین کو امورِ حکومت کے ساتھ خلط ملط کرنے کے یکسر منکر ہیں،لیکن ان
کے مخالف سیکولر نواز افراد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سیاست سے دور نہیں ہیں
بلکہ وہ اس میں دخیل ہیں۔اور کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ان کی
تحریک کا سیاسی اثر ورسوخ الیکشن میں ’’حزب العدالۃ‘‘کے تعاون کی شکل میں
ظاہر ہواہے۔لیکن مصطفی قاسم کا کہنا ہے کہ ہم کسی متعینہ سیاسی پارٹی کی
تنظیم کی حیثیت سے تائید نہیں کرتے ہیں،بلکہ ہمارے افراد جس پارٹی اور جس
شخص کی چاہتے ہیں حمایت اور تائید کرتے ہیں۔لیکن صحیح یہی کہ ہماری اکثریت
نے حالیہ انتخابات میں ’’حزب العدالۃ والتنمیۃ‘‘ (ترقی وانصاف پارٹی) کی
حمایت کی ہے۔(بشکریہ ماہنامہ بانگ حراء ،لکھنؤ،مارچ ۲۰۱۴ء) |