مسلم معاشرے میں زوال اور کسی حد تک دوسری قوموں کی نقالی
میں بعض ایسی روایات و طور طریقے رواج پا چکے ہیں جن کا اسلام اور اس کے
نظریہ حیات سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ان کی وجہ سے معاشرے میں مجموعی طور پر
حالات اور معیارِ زندگی دونوں میں مسلسل گراوٹ آتی جا رہی ہے۔جس میں تبدیلی
کے بظاہر کوئی آثار بھی نہیں دکھائی دے رہے ہیں کیوں کہ ہم بذاتِ خود عملی
طور پر اپنے حالات بدلنا نہیں چاہتے ہیں ۔اللہ تعالی بھی اسی وقت کسی قوم
کی حالت کو بدلتا ہے جب کہ وہ خود اس کے لیے کمر بستہ ہوجائے۔ارشادِ ربانی
ہے:
ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتیٰ یغیروا ما بانفسھم(الرعد:۱۱)
”حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود
اپنے اوصاف نہیں بدل دیتی“۔
مسلم معاشرے میں پائی جانے والی مختلف غیر ضروری روایات میں سے ایک روایت
ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ نہ کرنا بھی ہے۔اس کے معنی چھوڑدینے،پناہ مانگنے اور
الگ تھلگ ہوجانے وغیرہ کے آتے ہیں۔ اصطلاح میں اس کے معنی نوکری کی مدت ختم
ہو جانے کے ہوتے ہیں۔
ہمارے یہاں سرکاری نوکری کی مدت ساٹھ(۰۶) سال ہے،جسے اب سے پینسٹھ (۵۶)سال
کرنے کی بات کی جا رہی ہے اورملٹی نیشنل کمپنیوں یا بعض دوسرے اداروں میں
ڈائریکٹر وغیرہ کی ستر( ۰۷) سال ہے۔ اس کے بعد آدمی کو ریٹائر کر دیا جاتا
ہے۔ان کی نقّالی میں مدارس اسلامیہ اور دیگر مذہبی جماعتوں نے بھی اس
’سنہرے اصول‘ کو اپنے یہاں نافذ کر رکھا ہے۔خواہ آدمی اس وقت بھی کتنا ہی
صحت مند اور چاق و چوبند ہی کیوں نہ ہو ۔
اس طرح سے ریٹائرمنٹ کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی نوکری سے ریٹائر ہونے
کے بعدعملی طور پر کچھ کرتا نہیں ہے جس کا اثر گھر ، محلہ، معاشرہ اور پھر
پورے ملک کی ترقی پر ہوتا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریٹائر شدہ آدمی
زندگی کے بقیہ سال صرف اللہ، اللہ کر کے گزارنا چاہتا ہے اور سالہا سال تک
زیادہ سے زیادہ مسجد تک جانااس کامعمول بنارہتا ہے۔
یہ بھی ایک مضحکہ خیز بات ہے کہ جب تک دنیا سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں تو
اللہ تعالی کی یاد سے غافل رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ داڑھی رکھنا اور
عبادت کرنا بڑھاپے کا عمل ہے۔ جب ساٹھ سال گزارنے کے بعد سب کچھ کر لیتے
ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ اب کچھ کرنے کی طاقت نہیں رہتی تو مسجد پکڑ
لی جاتی ہے۔چناں چہ ریٹائر افراد کی زندگی میں اچانک سے تبدیلی آجاتی ہے
اور مسجد کا خصوصی اہتمام ،داڑھی کا بڑھا لینا ،خیرات و زکوٰة میں دلچسپی
اور لوگو ں یا بچوں کو پکڑ پکڑ کر سمجھانا اور روک ٹوک مچانا ان کا معمول
بن جاتا ہے۔
اکثر بزرگ اس رویہ کو اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ ماضی کے گناہوں کی تلافی
کی جاسکے۔یہ بھی مگر بڑا عجیب لگتا ہے کہ جانتے بوجھتے ایسا عمل آخر کیا ہی
کیوں جائے کہ بعد ازاں اس کی تلافی کرنی پڑے اور اگر اس دوران بیچ ہی میں
رخصت ہو گئے تو اس کا موقع بھی نہیں ملے گا۔جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
اغتنم خمساً قبل خمس:شبابک قبل ھرمک،و صحتک قبل سقمک،غناءک قبل فقرک،فراغک
قبل شغلک و حیاتک قبل موتک۔(المستدرک علی الصحیحین:۴ /۲۰۳)
پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔بیماری سے پہلے صحت
کو،مشغولیت سے پہلے فرصت کو،تنگ دستی سے پہلے فراخی کو ،بڑھاپے سے پہلے
جوانی کو اور موت سے پہلے زندگی کو۔
حقیقت یہ ہے کہ جس عمر میں لوگ ریٹائر ہو کر گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں
،وہی وقت معاشرے اور ملک کو کچھ واپس دینے کا ہوتا ہے کیوں کہ ریٹائر ہونے
کے بعد انسان بہت ساری پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ بہتر
طریقے سے اور اپنی دلچسپی کے میدان میں باآسانی کام انجام دے سکتا ہے۔
ویسے بھی جب آدمی خود کو ریٹائر سمجھ کر گھر میں بیٹھ جاتا ہے تو وہ بے
شمار ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار ہونے لگتا ہے ،کیوں کہ وہ خود کو بے
کار اور دوسروں کے لیے ایک بوجھ سمجھتا ہے ۔قدرت کا اصول ہے جب کوئی انسان
اپنے کو بے کار اور دوسروں پر بوجھ سمجھ بیٹھے تو وہ ذہنی ،جسمانی اور
جذباتی طور پر ختم ہونے لگے گا ۔
ایک ایسا آدمی جو ہر دن باقاعدہ تیار ہو کر گھر سے آفس کے لیے نکلتا ہو
،ایک دن اسے اچانک منع کر دیا جائے تو وہ خود کو بے کار ،بوڑھا اور مرنے کے
قریب سمجھنے لگتا ہے۔اسی لیے ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ ڈپریشن ،مایوسی،مختلف
طرح کی کش مکش،نفسیاتی الجھن،چڑچڑے پن اورتنہائی وغیرہ کا شکار ہو جاتے ہیں
۔خصوصاً اس وقت جب بیٹے اور بیٹیاں ان کوپوچھتے نہیں اور ایک کونے میں
’فالتو سامان ‘کی طرح ڈال دیتے ہیں۔ایسے میں وہ گھر کی محبت اور توجہ سے
محروم ہو جاتے ہیںتو مزید دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے
معاشرے کے بیشتر بزرگ نہایت ہی غصہ ور اور تلخ طبیعت کے مالک ہو جاتے
ہیں۔بعض کم زور دل حضرات خودکشی تک کر لیتے ہیں۔
قرآن و حدیث میں اس سلسلے میں جگہ جگہ رہ نمائی کی گئی ہے کہ انسان اس دنیا
میں بیٹھ کر صرف اللہ ،اللہ کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے۔ارشادِ ربانی
ہے:
و من اٰیٰتہ منامکم بالیل و النھار و ابتغآوکم من فضلہ(الروم:۳۲)
اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل
کو تلاش کرنا ہے۔
ایک اور جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
و جعلنا النھار معاشا(النبا:۱۱)
اور دن کو معاش کا وقت بنایا۔
ان آیات میں عمر کی کوئی قید نہیں لگائی گئی ۔اس لیے کہ نہ تو دین اور دنیا
کوئی الگ الگ چیز ہے اور نہ ہی دنیا حاصل کرنے میں کوئی عمر متعین کی گئی
ہے۔دنیا کو دین کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حاصل کرنا بھی عبادت ہے۔اگر
ہم پیغمبرانہ زندگی کا جائزہ لیں تو تمام پیغمبر کسی نہ کسی طرح کا پیشہ
اپنائے ہوئے تھے۔حضرت داو ¿ود ؑ ذرہ بنانے کاکام کرتے تھے اورحضرت یوسفؑ
وزیر خزانہ بنے تھے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو پوری دنیا کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت
رکھتے ہیں ۔آپ نبی تھے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا عظیم فریضہ آپ کو انجام
دینا تھا، لیکن اس کے باوجودآپ نے دنیاوی کاموں میں بھی حصہ لیا ۔گھر کے
سارے کام آپ خود انجام دیتے تھے۔مسجد نبوی کی تعمیر میں آپ نے بذاتِ خود ۳۵
سال کی عمر حصہ لیا ،خندق کی کھدائی میں آپ نے بھی صحابہ کرامؓ کے ساتھ حصہ
لیا۔اسی طرح تمام صحابہ کرامؓ محنت و مشقت کر کے روزی کماتے تھے۔وہ جہاں
ایک طرف نمازیں پڑھتے اور ذکر و اذکار کرتے تھے وہیں دوسری طرف تجارت،
کھیل، سیر و تفریح وغیرہ کرتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات بھی نہیں تھی۔ان
کے یہاں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہ تھا۔عمر کبھی ان کی ترقی کی راہ اور
کاموں کو انجام دینے میں رکاوٹ نہیں بنی ۔حضرت ابوایوب انصاریؓ نے اسّی(
۰۸) سال کی عمر میں جہاد کیا تھا۔
ہمارے قائدین اور رہ نما جتنے زیادہ ’بڑے‘ ہوتے ہیں اتنا ہی وہ کام کرنے سے
اجتناب کرتے ہیںاور کام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ہمارے یہاں بڑے
لوگ اس لیے کام کرنا نہیں چھوڑتے کہ وہ دین کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا
چاہتے ہیں بلکہ یہ صرف ایک روایت سی بن گئی ہے کہ عمر دراز لوگوں کو کام
نہیں کرنا چاہیے۔ہمارے بعض طبقوں میں بزرگوں اور بڑوں کا کام کرنا ان کے
بیٹوں کے لیے باعثِ شرم ہوتا ہے ،حالاں کہ ان کی زندگی کا تجربہ دوسروں کے
کام آسکتا ہے اور پھر اس سے ان کی صحت بھی برقرار رہتی ہے۔
ان آیات و حدیث سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہبی نظام ہے جو
دنیا و آخرت اور جسمانی و روحانی دونوں نظام کو ایک ساتھ لے کر چلتا ہے اور
جس میں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہیں ہے کیوں کہ اس کے بعد زندگی ختم نہیں
ہو جاتی اور نہ ہی کام ختم ہوتے ہیں۔اس لیے جب تک انسان کی صحت ،طاقت اور
غوروفکر کرنے کی صلاحیت باقی ہو اس وقت تک اسے حسبِ استطاعت سرگرم رہنا
چاہیے۔
ریٹائر منٹ کے بعد کے کام: یہ بات اہمیت نہیں رکھتی ہے کہ آپ نے کتنی لمبی
عمر پائی بلکہ اہم بات یہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کو کہاں اور کس طرح
کھپایا؟ اور اسی کوقیامت کے دن پوچھا جائے گا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
فرماتے ہیں:
لا تزول قدما ابن آدم یوم القیامة من عند ربہ حتیٰ یسال عن خمس عن عمرہ
فیما افناہ و عن شبابہ فیما ابلاہ و عن ماہ من این اکتسبہ و فیما انفقہ و
ما ذا عمل فیما علم(ترمذی:۲/۶۰۳)
قیامت کے دن کسی شخص کے قدم اللہ رب العزت کے پاس سے اس وقت تک نہیں ہٹ
سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزو ں کے متعلق نہ پوچھ لیا جائے کہ اس نے عمر
کس چیز میں صرف کی،جوانی کہاں خرچ کی،مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا
اور جوکچھ سیکھا اس پر کتنا عمل کیا۔
اس لیے ہم سب کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے اور اگر ان سب کا شروع میں نہیں
حق ادا کر سکے تو ریٹائرمنٹ کے بعد اب جو فرصت ملی ہے اس کو غنیمت جانا
جائے اور سب کاحق ادا کیا جائے۔چند اہم کام درج ذیل ہیں۔
صحت کا خصوصی خیال رکھنا :اسلام مسلمانوں کو دوسری قوم کے مقابلے میں
نمایاں اور ممتاز دیکھنا چاہتا ہے۔اس لیے وہ لباس اور صحت پر بھی خصوصی
توجہ دیتا ہے کہ ایک مومن کا جسم پر کشش اور طاقت ور ہو۔ویسے بھی صحت اچھی
رہے گی تب ہی انسان کچھ کر سکے گا۔ظاہر ہے ایسا اس وقت ہی ممکن ہوگا جب
انسان کھانے پینے میں اعتدال سے کام لے اور یہی اسلام کو مطلوب بھی
ہے۔ارشادِ ربانی ہے:
وکلوا واشربواولا تسرفوا ان اللہ لا یحب المسرفین(الاعراف:۱۳)
کھاؤ ،پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو ،اللہ تعالی حد سے بڑھنے والے کو پسند
نہیں کرتا۔
حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں :
”کھانے پینے میں زیادتی سے بچو،کیوں کہ بسیار خوری سے جسم میں خرابی آتی ہے
،بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور نماز میں تساہلی اور سستی پیدا ہو جاتی
ہے۔کھانے پینے میں میانہ روی سے کام لو کیوں کہ اس سے جسم درست رہتا ہے
،بیماری نہیں آتی ۔اللہ تعالی پیٹو اور موٹے شخص کو پسند نہیں کرتا،آدمی اس
وقت تک ہر گز ہلاک نہیں ہوتا جب تک اپنی شہوت کو اپنے دین پر ترجیح نہ دے“۔
(کنزالعمال:۸/۷۴)
بدقسمتی سےمسلمان خواہ مرد ہوں یا عورتیں، صحت اور اس کے اصولوں کی طرف سے
بڑے لاپرواہ نظر آتے ہیں ۔دین دار طبقہ ورزش کرنے اور چہل قدمی کرنے کو وقت
کا ضیاع سمجھتا ہے اگرچہ پیٹ نکلا ہو اہو اور ذرا سا چلنے میں سانس پھولنے
لگتی ہو ،بلڈ پریشر ،شوگر اور اسی طرح کی دوسری بیماریاں لاحق ہوںلیکن اس
پر توجہ نہیں دی جاتی ہے ۔جس کے نتیجے میں بڑھاپے میں اور تکلیف جھیلنی
پڑتی ہے اوراس کاایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ فسادات میں لڑنا تو دور اپنا
اور اپنے گھر والوں کا دفاع کرنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔اس میں ریٹائر افراد
کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دینی علوم میں اضافہ: اگر نوکری کے درمیان مصروفیت نے دینی تعلیم سے روکے
رکھا تھا تو اس عمر میں اس کو جاننے اور سیکھنے کی کوشش کی جائے اور اس میں
عمر رکاوٹ نہ بنے ۔امام ابوعمرو بن علائؒ سے کسی شخص نے سوال کیا :
آدمی کو کب تک علم حاصل کرتے رہنا چاہیے؟فرمایا:
ما دام تحسن بہ الحیاة(جامع بیان العلم لابن عبد البر:۱/۶۹)
جب تک اس کی زندگی وفا کرے۔
اسی طرح امام عبداللہ بن المبارکؒ سے کسی نے پوچھا :
آپ کب تک علم حاصل کرتے رہیں گے؟فرمایا:
حتیٰ الممات و لعل الکلمة التی انتفع بھا لم اکتبھا بعد (جامع بیان العلم
لابن عبد البر:۱/۶۹)
مو ت تک،اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ جو بات میرے حق میں مفید ہو اسے اب تک نہ
حاصل کر سکا ہوں۔
ایک مسلمان کو سب سے پہلے قرآن پھر سنت ِنبوی پھر سیرتِ نبوی اور ضرورت کے
مطابق دین کے شرعی احکام سے واقفیت ہونی ضروری ہے تاکہ وہ مستشرقین اور
غیروں کے ذریعہ پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں سے نہ صرف یہ کہ خود بچا رہے
بلکہ گھروالوں اور معاشرے کو بھی محفوظ رکھ سکے اور ہمیشہ ان میں اضافہ کی
دعا مانگی جائے۔جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
و قل رب زدنی علما۔ً(طہ:۴۱۱)
اور دعا کروکہ اے پروردگار!مجھے مزید علم عطا فرما۔
اور مسلکی اختلافات اور فرقہ بندی سے اجتناب کیا جائے ۔موجودہ دور میں
کتابیں اور جدید ٹکنالوجی اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی مدد سے صحیح اور باطل
میں تمیز باآسانی کی جا سکتی ہے۔اس سے دو فائدے ہوں گے ایک تو یہ کہ مسلکی
اختلافات سے انسان محفوظ رہے گا، دوسرا یہ کہ گھر والوں کی صحیح اور اسلامی
نہج پر تربیت بھی کر سکے گا اور اس کا کوئی محدود دائرہ نہ ہوگا۔ ساتھ ہی
علم پر عمل کرنا اور اس کو دوسروں تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔جیسا کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
بلغواعنی و لو آیة و حدثوا عن بنی اسرائیل و لا حرج ومن کذب علی متعمداً
فلیتبوا مقعدہ من النار(بخاری:۱۶۴۳)
میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ!اگرچہ ایک ہی اٰیت ہو اور بنی اسرائیل کے
واقعات تم بیان کر سکتے ہو ،اس میں کوئی حرج نہیں اور جس نے مجھ پر قصداً
جھوٹ باندھا تو اسے اپنے جہنم کے ٹھکانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
گھر کا ماحول خوش گوار رکھنا:ریٹائر افراد کا زیادہ تر وقت گھر میں ہی
گزرتا ہے ۔عمر کے تقاضے کی وجہ سے ان میں برداشت کا مادہ کم ہوجاتا ہے جس
کی وجہ سے وہ گھر کی عورتوں، بچوں اوردیگر افراد پر وقت بے وقت ناراض ہوتے
رہتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے ہیں ۔اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔بہتر
ہوگا کہ ان کی نفسیات کو سمجھیں اور بجائے سختی،ڈانٹ ڈپٹ اور جبر و تشدد کے
شفقت،محبت ،ہمدردی اور خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ورنہ حقیقتاًیہ ہوگا کہ آپ
کی موجودگی میں تو مودب بن کر رہیں گے، لیکن غیر موجودگی میں ہر وہ کام
ہوگا جسے آپ ناپسند کرتے ہیں۔
ساتھ ہی بچوں ،بچیوں کو اپنی بات کہنے کی پوری آزادی دی جائے، ان کے تمام
معاملات کو دوست سمجھ کر حل کیا جائے اور انعام و اکرام کے ذریعہ ان کے
اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔اس سے وہ خوش بھی رہیں گے اور دل سے
خدمت و احترام کریں گے۔
موجودہ دور میں عموماً والدین جاب پر ہوتے ہیں اور وہ صبح کے نکلے شام کو
لوٹتے ہیں تو گھر کے بچوں اور بچیوں کی صحیح تربیت نہیں ہو پاتی ہے ۔اس کمی
کو گھر کے ریٹائر افراد پوراکر سکتے ہیں۔وہ ان کے کتب و رسائل،دوست
احباب،خواہشات ،محفلوں، موبائل اورانٹرنیٹ کی سرگرمیوں سے خصوصی توجہ
دیںتاکہ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کام یاب ہو سکیں ۔اسی کو قرآن نے کہا:
یا ایھا الذین آمنوا قوا انفسکم و اھلیکم نارا(التحریم:۶)
”ائے ایمان والو! بچاﺅ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے“
بعض بزرگوں کا خیال ہوتا ہے کہ بچوں اور بچیوں سے ہنسی مذاق یا کھیل کود
نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ اس سے وہ ان کی نظر میں کم حیثیت ہو جائیں گے یاان
کی صحیح تربیت نہیں ہو پائے گی۔ یہ غلط سوچ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
اپنے نواسوں اور بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا:
جس کا کوئی بچہ ہو اسے اس کے ساتھ کھیل کود کرنا چاہیے۔(کنز العمال:۳۱۴۵۴)
اس سے بچوں میں خود اعتمادی آتی ہے اور ان کے اندر بھی رحم اور ہمدردی کا
جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
ایک اور جگہ آپ نے فرمایا:
” ہر وہ امر جو اللہ تعالیٰ کی یاد سے خالی ہو غفلت ہے یا بھول، سوائے چار
باتوں کے۔تیر اندازی کے ہدف کے درمیان دوڑنا،گھوڑے کی تربیت کرنا، تیراکی
سیکھنا اور گھر والوں کے ساتھ خوش وقتی کرنا“(الطبری:۶)
عورتوں کے ساتھ بھی محبت اور شفقت سے پیش آنے کی اسلام نے تعلیم دی ہے اور
اس پر ثواب بھی بتایا ہے۔ حدیثِ نبوی ہے:
و لست تنفق نفقة تبتغی بھا وجہ اللہ الا اجرت بھا حتیٰ اللقمة تجعلھا فی فی
امرتک۔ (بخاری:۹۰۴۴)
تم اللہ کی خوش نودی چاہتے ہوئے جو کچھ بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں اجر ملے
گا،یہاں تک کہ اس لقمہ پر اجر پاؤ گے جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔
ہمارے یہاں تو یہ انا کے خلاف بات ہو جائے گی۔
رشتے داروں کے حقوق ادا کرنا:اگر نوکری اور مصروفیت نے رشتہ داروں سے دور
کر دیا تھا تو اب جو فرصت ملی ہے تو ضروری ہے کہ ان کے حقوق ادا کیے جائیں
اور ان کے کام آیا جائے۔قرآن کریم میں رشتہ داری نبھانے اور اس کا خیال
رکھنے کی مختلف مقامات پر تعلیم دی گئی ہے۔ارشادِ ربانی ہے:
و اتقوا اللہ الذی تسآءلون بہ والارحام(النسائ:۱۰)
اور اس اللہ سے ڈرو،جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے(اپنے حق)مانگتے ہو
اوررشتہ داری اور قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔
ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
و اٰ ت ذاالقربیٰ حقہ والمسکین و ابن السبیل ولا تبذر تبذیرا(بنی
اسرائیل:۶۲)
رشتہ داروں کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق اور فضول خرچی
نہ کرو۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا یدخل الجنة قاطع رحم(مسلم:۶۵۵۲)
قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔
ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا:
ما من ذنب اجدر ان یعجل اللہ لصاحبہ العقوبة فی الدنیا،مع ما یدخر لہ فی
الآخرة،من البغی و قطیعة الرحم(ترمذی:۱۱۵۲)
بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں جو اس لائق ہو کہ اس کا
ارتکاب کرنے والے کو اللہ تعالی آخرت میں سزا دینے کے ساتھ ساتھ دنیا میں
بھی سزا دے۔
صلہ رحمی کے مختلف طریقے ہیں جیسے مال سے مدد کرنا،خیر خواہی،ہمدردی اور
محبت سے پیش آنا،ملاقات کرنا،مسکرا کر خوش دلی سے ملنا،سلام کرنا،تحفہ
دینا،تعاون و ایثار کرنا اورعیادت کرنا وغیرہ۔اس میں پہلے ماں پھر والد پھر
قریب ترین رشتے داروں کا خیال رکھا جائے گا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
اللہ تعالی تمہیں ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے،پھرماؤں کے ساتھ
حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے،پھرماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے،پھر
باپوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے،پھر قریب ترین رشتہ داروں کے ساتھ
حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے ۔(ابن ماجہ:۱۶۶۳)
قطع رحمی کتنا بڑا گناہ ہے۔اس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے:
الرحم معلقة بالعرش تقول:من وصلنی وصلہ اللہ و من قطعنی قطعہ اللہ
۔(مسلم:۵۵۵۲)
رشتہ داری عرش سے لٹکی ہوئی ہے ۔وہ کہتی ہے جو مجھے جوڑے گااللہ تعالی اسے
جوڑے گا اور جو مجھے کاٹے گا اللہ تعالی اسے کاٹے گا۔
رفاہِ عامہ کے کام: صحیح معنوں میں ایک مسلمان شخص لوگوں کا خیر خواہ ہوتا
ہے اور وہ دوسروں کے ہر ممکن کام آتا ہے۔جیسا کہ حدیثِ نبوی ہے:
الدین النصیحة قلنا:لمن؟قال:لللہ و لکتابہ و لرسولہ ولائمة المسلمین و
عامتھم(مسلم:۵۵)
’دین خیر خواہی کانام ہے۔‘ (صحابہ کہتے ہیں)ہم نے عرض کیا :کس کے
لیے؟فرمایا:اللہ کے لیے ،اس کی کتاب،اس کے رسول،مسلمانوں کے ائمہ اور عام
مسلمانوں کے لیے۔
ایک اور جگہ آپ نے فرمایا:
و لینصرالرجل اخاہ ظالماً او مظلوماً،ان کان ظالماً فلینھہ فانہ لہ نصر و
ان کان مظلوماً فلینصرہ(مسلم:۴۸۵۲)
آدمی کو چاہیے کہ اپنے بھائی کی مدد کرے خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم،اگر ظالم
ہو تو اس کو ظلم سے باز رکھے ،یہی اس کی مدد ہے اور اگر مظلوم ہو تو اس کی
مددکرے۔
ریٹائر افراداپنے پیشے ،وقت ،سہولت اور جمع خرچ کے لحاظ سے محلے اور آس پاس
کے علاقوں میں رفاہ عامہ کے کام انجام دے سکتے ہیں۔جسیے غریب کے بیٹی کی
شادی میںمدداور کم زوروں کی تعلیمی (پروفیشنل اور غیر پروفیشنل
)،قانونی،مالی امداد ،حکومت کے ذریعہ ملنے والی اسکیموں کی جان کاری اور
معلومات ان کے مستحقین تک پہنچانا ،صحت سے متعلق بے داری اور مسابقاتی
امتحانات کی تیاری وغیرہ میں مد د کرنا وغیرہ وغیرہ۔
خواتین جو بطور ٹیچر ریٹائر ہوئی ہوں وہ اپنے گھر،محلے اورآس پڑوس کی
طالبات یا بڑی عمر کی ناخواندہ خواتین کو بھی تعلیم دیں تاکہ کم از کم وہ
دین کی بنیادی باتیں پڑھ اور سیکھ سکیں۔ایسے ہی کمپیوٹر،سلائی کڑھائی اور
کوکنگ وغیرہ کی بھی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ان رفاہِ عامہ کے کاموں کا ایک
فائدہ یہ بھی ہوگا کہ مرنے کے بعد بھی فاعل کو اس کا ثواب ملتا رہے گا۔جیسا
کہ حدیث نبوی ہے:
اذا مات الانسان انقطع عملہ الا من ثلاث :من صدقة جاریة او علم ینتفع بہ او
ولد صالح یدعولہ(مسلم:۳۲۲۴)
جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کاثواب
جاری رہتا ہے ۔ایک صدقہ جاریہ کا،دوسرے اس کے علم کا جس سے لوگ فائدہ
اٹھائیں ،تیسرے نیک اولاد کا جو اس کے لیے دعا کرے۔
٭٭٭٭
|