23 مارچ 1940 وہ جذبہ کہاں سے لائے

خاص برائے 23مارچ

جو قدم مسلمانان ہند اٹھانے جارہے تھے، وقت کے اعتبار سے وہ قدم اٹھانا اتنا آسان ہرگز نہ تھا۔ کیونکہ ایک طرف انگریز اپنے خلاف ایک طویل جدوجہد کے بعد مسلمانان ہند کے خون پینے کی متمنی تھے تو دوسری طرف ہندو اپنی سفاک اور مکارانہ فطرت کی وجہ سے مسلمانوں کو ہر لحاظ سے غلام بنانے کی خواہش دلوں میں رکھتے تھے۔ ایسے میں اگر وہ تحریک جو مسلمانان ہند نے ایک آزاد اسلامی فلاحی مملکت کو بنانے کے لیے شروع کی تھیں۔ اگر وہ کسی بھی لمحے ناکامی سے دوچار ہوجاتی تو پھر بڑے سخت دن برصغیر کے مسلمانوں کے منتظر ہوتے۔ لیکن یہ مسلمانان ہند کے عزم و استقامت اور اﷲ پاک پر غیر متزلزل ایمان کا نتیجہ تھا کہ وہ کسی بھی ممکنہ خطرے کی پرواہ کئیں بغیر نہایت جوش و جذبے کے ساتھ اس منزل کی جانب بڑھ رہے تھے جسکا نام پاکستان تھا۔ مسلمانان ہند نے اپنے قائدین کو کہ رکھا تھا کہ آپ قدم بڑھائیں قوم اپکو ہرگز مایوس نہیں کریگی کیونکہ انہیں اپنے رہنماؤں میں آزادی حاصل کرنے کی تڑپ اور اخلاص صاف نظر آرہا تھا۔ دوسری طرف اگر ہم ان رہنماؤں کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی اپنے مشن سے مخلص اور عوامی امنگوں کے ترجمان نطر آتے ہیں۔ ان قائدین کے ہاں عوام کو دھوکہ دینا یا انکی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کوئی رواج آج کی طرح سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ یہی وجہ تھا کہ جب مسلمان رہنماؤں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اب ہم بحیثیت قوم ہندوؤں کے ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے، بلکہ ہم اپنے لیے ایک الگ ملک جو اسلامی اصولوں پر قائم ہو لے کر رہیں گے۔ تو پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح نہایت ہی قلیل عرصے میں مسلمان اپنے لیے ایک الگ ملک لینے میں کامیاب ہوئے۔

یہ مارچ 1940 کی بات ہے کہ جب مسلمان آل انڈیا مسلم لیگ کے ستائیسویں اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں لاہور کے منٹوپارک (اقبال پارک) میں اکٹھے ہوئے۔ 22 مارچ کو یہ اجلاس شروع ہوا اور 24مارچ تک چلتا رہا۔ اس اجلاس کی وجہ شہرت تو وہ تاریخی قرارداد بنی جو 23 مارچ کو شیر بنگال مولوی فضل الحق( پورا نام مولوی ابوالقاسم فضل الحق) نے انگریزی زبان میں پیش کی ۔ جسکا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے پیش کیا اور اگلے دن یعنی 24 مارچ کو یہ قرارداد منظور ہوئی۔ یہ قرارداد ، قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس اجلاس میں محمد علی جناح سمیت دیگر سرکردہ رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ گوکہ ہر رہنماء کی تقریر جگہ کی کمی کی وجہ سے پوری تحریر کرنا ممکن نہیں۔ لیکن ان سب کے خطبات کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ مسلمان اور ہندو صرف دو الگ الگ قوموں کے نام ہی نہیں بلکہ دونوں کے نظرئیے، عبادات، طرز معاشرت، حتیٰ کہ سب کچھ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لہٰذا بحیثیت قوم مسلمانوں کا انکے ساتھ اکٹھے رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ محمد علی جناح کے تاریخی صدارتی خطاب کے وہ الفاظ تو پورے قوم کے لیے مشعل راہ ہیں ، جس میں انہوں نے دیگر باتون کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایاتھا۔ کہ ان دو اقوام یعنی مسلمانوں اور ہندؤوں میں کسی ایک کا ہیرو دوسر ے کا دشمن اور کسی ایک کی فتح دوسرے کی شکست ہوتی ہے، لہٰذا مسلمانوں کے لیے ایک ایسے وطن کو حاصل کرنا اب لازم ہوچکا ہے، جس میں وہ اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارسکے۔ ان قائدین نے ان مسلمانوں کو بھی اپنے تعاون کابھر پور یقین دلایا تھا، جنکے لیے پاکستان بننے کے بعد یہاں آنا ممکن نہ تھا، بلکہ انہیں ہندوستان میں ہی رہنا پڑتا۔ سر عبداﷲ ہارون نے ہندو لیڈران کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر ہندو اکثریتیں صوبوں میں مسلمانوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا گیا تو ہم اس پر بالکل بھی خاموش نہیں رہینگے۔ الغرض ایک عزم و ولولے کے ساتھ یہ اجلاس منعقد ہوا جس میں قراردا پاکستان منظور ہوئی۔ یہی وجہ رہی کہ قرارداد کی منظوری کے بعد چند سال کے اندر ہی مسلمان ایک آزاد اسلامی مملکت کے حصول میں کامیاب ہوئے۔

قارئین محترم! یہ اس وقت کے مسلمانوں اور مسلمان رہنماؤں کی شبانہ روز محنت اور انتھک کوششوں کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے انتہائی نامساعد حالت میں بھی ہمت نا ہاری اور لاکھوں جانوں کا نظرانہ پیش کرکے یہ وطن اس لیے آزاد کرایا کہ یہاں مسلمان قرآن و سنت کے تعلیمات کی روشنی میں زندگی بسر کریں گے۔ لیکن آفسوس اور صد آفسوس کہ انکا خواب ہمارے ناقص پالیسیوں ، غیر منصفانہ رویوں اور نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑنے کی وجہ سے اب تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ آج وہ ملک کہ جسے اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے ہمارے بزرگوں نے لاکھوں قربانیاں دی تھیں، عالمی طاقتوں اور انکے مقامی ایجنٹوں کا اکھاڑہ بن چکا ہے۔ آج اس ملک کے طاقتور طبقے جن میں سیاستدان ، افواج پاکستان کے بعض ذمہ داران اور بالخصوص پاکستانی میڈیا شامل ہیں۔ ہمیں انڈیا کے جارحانہ عزائم اور ناپاک ارادوں سے خبردار کرنے کی بجائے ہمیں یہ باور کرارہے ہیں کہ ماضی میں جو ہوچکا سو ہوچکا۔ اب موجودہ دور انڈیا سے دشمنی کا نہیں بلکہ ان کے ساتھ دوستی کا ہے۔ آج انڈیا دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بن رہاہے، وہ ہمارے پانیوں پر قبضہ کررہا ہے، پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہاہے، افغانستان میں بیٹھ کر ہمارے خلاف منصوبے بنارہاہے اور مسلمانون کے قاتل نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کی تیاری کررہا ہے۔ لیکن ہمارے بعض سیاستدان اور میڈیا کے کرتا دھرتاؤں کو یہ سب کچھ نظر نہیں آرہا۔ بلکہ انکو زندگی کے تمام تر لوازمات انڈیا سے تجارت اور ہندوستان کے ساتھ فنکاروں کے وفود کے تبادلوں میں نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف ہمارے سیاسی ’’ رہنماء،، مختلف فیسٹیولز میں ہندوستانی حسیناؤں کے اوپر تو لاکھوں روپے نچاور کردیتے ہیں لیکن دوسری طرف انکے عین ناک کے نیچے بھوک اور افلاس سے جاں بحق ہونے والے معصوم بچے اور انکی آہ و زاری کرتی مائیں نطر نہیں آتی۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہیکہ ہم نے بحیثیت قوم دو قومی نظرئیے کو بھلادیا ہے۔ آج ہم نے اپنے ذہنوں میں یہ بات بٹھادیا ہیکہ کہ انڈیا کے جارحانہ عزائم سے پردہ اٹھانا اور انکے آگے بند باندھنا ہمارا کام نہیں بلکہ یہ کام تو صرف مذہبی پارٹیوں یا اسلامی تنظیموں کا ہے۔ حالانکہ یہ سوچ ٹھیک نہیں کیونکہ یہ ملک ہم سب کا ہے اور اسکی حفاظت کرنا ہم سب کی یکساں ذمہ داری ہے۔ لہٰذا آئیں اور امن کی آشا جیسے غیر حقیقی تصورات کے پیچھے پڑکر دوقومی نظرئیے کی تضحیک کرنے کی بجائے 23مارچ 1940 والا عزم دوبارہ پیدا کیجئے اور تعمیر پاکستان کے بعد تکمیل پاکستان میں بھر پور حصہ لیجیے۔ جہاں تک بات ہے ہندوستان کے ساتھ دوستی کا۔ تو یقین کیجیے کہ سب چاہتے ہیکہ پڑوسی ممالک بشمول انڈیا کے ساتھ ہمارے تعلقات بہترہوں۔ لیکن اس کے لیے لازم ہیکہ انڈیا اپنے روئیے پر نظر ثانی کرے۔ اور پاکستان کے خلاف سازشیں کرنا چھوڑ دیں، مقبوضہ علاقے خالی کردیں، انڈین مسلمانوں کو انکا حقوق دے دیں اور سب سے بڑھکر اکھنڈ بھارت کا خواب چھوڑدے۔ تو انڈیا یقیناً پاکستان کا ایک اچھا اور مفید پڑوسی بن سکتا ہے۔

Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 105427 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More