عروس البلاد کراچی میں ماہ رمضان کے شب و روز

عروس البلاد کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور ایسا شہر ہے جس میں رمضان المبارک شروع ہوتے ہی زندگی کے تمام معمولات بدل جاتے ہیں اور ہر طرف ایک ایسا رنگ نظر آنے لگتا ہے جس میں اسلامی تہذیب و ثقافت اور روایات کی جھلک نمایاں ہوتی ہے، ماہِ رمضان اس شہر کا سارا ماحول ہی بدل دیتا ہے، مساجد اور عبادت گاہیں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، شہر میں موجود شادی ہالوں میں تین روزہ اور پانچ روزہ نماز تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے، رمضان کے آخری عشرے میں تمام بڑی بڑی مساجد بالخصوص نیو میمن مسجد بولٹن مارکیٹ، رحمانیہ مسجد طارق روڈ اور مسجد طوبیٰ ڈیفنس وغیرہ میں محافل شبینہ منعقد کی جاتی ہیں، اسی طرح کراچی کے مشہور پارک ” جہانگیر پارک“ میں بھی تین روزہ تاریخی”نورانی شبینہ“ جو پچیس تا ستائیس رمضان تک جاری رہتا ہے، کا انتظام کیا جاتا ہے، اس محفل شبینہ کی خاص بات یہ ہے کہ جب تک حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمتہ اللہ علیہ حیات تھے، وہ اس محفل شبینہ کا پچیس رمضان کو پہلا پارہ پڑھ کر باقاعدہ آغاز فرماتے اور ستائیس رمضان کو آخری پارہ سنا کر اس پروقار محفل شبینہ کا اختتام فرماتے تھے، یہ روایت آج بھی قائم ہے، بس حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی جگہ اُن کے فرزند صاحبزادہ شاہ انس نورانی صدیقی نے لے لی ہے۔

رمضان میں شہر بھر میں کھانے پینے کی دوکانیں اور ہوٹل احترامِ رمضان میں افطار تک بند ہو جاتے ہیں، مسجدوں میں خوب رونق رہتی ہے، جو خاص طور پر رمضان کی طاق راتوں میں روح پرور اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، کچھ لوگ جو سارا سال نمازِ جمعہ کے علاوہ مسجد میں نظر نہیں آتے اس با برکت مہینے میں پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرتے نظر آتے ہیں، کم عمر بچے بھی بہت ذوق و شوق سے مساجد کا رخ کرتے ہیں، یوں تو خواتین (جنہیں گھر میں نماز ادا کرنے کا حکم ہے ) پر مسجد میں با جماعت نماز تراویح کی ادائیگی ضروری نہیں، لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے شہر کی کچھ مخصوص مساجد میں خواتین کے لیے بھی علیحدہ نماز تراویح کا انتظام کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ گھریلوں خواتین اپنے اپنے گھروں میں ماہ رمضان المبارک کے دوران تلاوت قرآن مجید، نوافل اور رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا اہتمام بھی کرتی ہیں، دوران رمضان بعض گھروں میں نماز تراویح کے بعد ذکر واذکار کی محفلیں بھی سجائی جاتی ہیں، مساجد اور امام بارگاہوں میں افطاری کا بندوبست دیگر شہروں کی طرح کراچی کی بھی وہ روایت اور ایسی شناخت ہے جو مسلمانوں کی مساجد اور عبادت گاہوں کو اوروں سے ممتاز اور جدا کرتی ہے ۔

مخیر اور اہل ثروت حضرات اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے شہر میں جگہ جگہ غریب روزہ داروں کیلئے سحری و افطاری اور کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، بس اسٹاپوں پر مسافروں کی سہولت کیلئے افطاری کے اسٹال لگائے جاتے ہیں، دوسرے عشرے کے شروع ہوتے ہی چاند رات تک شہر کی مارکیٹں رات دیر گئے تک کھلی رہتی ہیں، جن میں افطار کے بعد رات دیر تک خریداروں کا ہجوم نظر آتا ہے، شہر میں جگہ جگہ بچت بازار لگائے جاتے ہیں، جن پر ہر قسم کی اشیاء مارکیٹ سے قدرے کم ریٹ پر دستیاب ہوتی ہیں اور افطار کے بعد بازاروں میں رات دیر تک خریداروں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔

کراچی میں افطار کے بعد کھانے پینے کے شوقین لوگ برنس روڈ، ایم اے جناح روڈ، سی ویو، بوٹ بیسن، سیون اسٹار چورنگی اور چٹخارے دار کھانوں کے ریستورانوں اور فورڈ اسٹریٹوں کا رخ کرتے ہیں، جوں جوں عید الفطر قریب آنے لگتی ہے، ان بازاروں کی رونقیں اور بھی دوبالا ہو جاتی ہیں، یہ بازار تقریباً ساری رات ہی کھلے رہتے ہیں، خاص طور پر ریسٹورنٹ تو صبح سحری تک کھلے رہتے ہیں تاکہ کسی کو بھی سحری میں تکلیف نہ ہو، بازاروں میں نت نئے خوانچہ فروش دیکھنے کو ملتے ہیں جو ٹھیلوں اور خوانچوں پر سموسے، پکوڑے، دہی بڑے، جلیبیاں اور انواع و اقسام کی چاٹ فروخت کر رہے ہوتے ہیں، مارکیٹ میں ہر قسم کا پھل دستیاب ہوتا ہے، جو مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کے رجحان کی وجہ سے ایک غریب اور عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہوتا ہے، بدقسمتی سے انتظامیہ کی ملی بھگت کی وجہ سے پچھلے کچھ برسوں سے رمضان میں ناجائز منافع خوری کا رحجان بہت بڑھ گیا ہے، جو کہ اس ماہ مبارک میں انتہائی قابل افسوس اور بحیثیت مسلمان باعث شرم بات ہے۔

یوں تو رمضان کے مبارک دنوں میں ہمیں بلاوجہ بازار جانا سخت ناپسند ہے، ایک تو اس کی وجہ روزے کی حالت میں طبیعت کا سست ہونا اور دوسرے رمضان کے دنوں میں بازاروں میں جیب کتروں اور اوباش قسم کے لوگوں کی موجودگی ہے، جو بلاوجہ خواتین کو تنگ کرتے ہیں اور شریف لوگوں کی جیبیں کاٹتے ہیں، اسی وجہ سے ہماری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں ہی عید کی تیاری کرلی جائی اور تمام ضروری اشیاء پہلے سے خرید کر رمضان کے درمیان اور آخر میں مارکیٹ جانے کی کوفت سے بچا جائے، اس حوالے سے ہمارا دوست ساجد بھی ہمارا ہم خیال ہے، لیکن کیا کریں کہ ہم دونوں بھی دیگر لوگوں کی طرح اپنی اپنی اللہ رکھیوں(بیویوں) سے مجبور ہیں، جو کسی نہ کسی بہانے رمضان کے آخری دنوں تک خریداری جاری رکھنے کے بہانے ڈھونڈ ہی لیتی ہیں اور ہمیں ان کی وجہ سے بادل ناخواستہ بار بار بازار جانا پڑتا ہے۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں کھلے میدانوں اور چھتوں پر رمضان کا چاند دیکھنے کیلئے اہل محلہ جمع ہوا کرتے تھے اور جب کوئی چاند دیکھ لیتا تھا تو انگلی کے اشارے سے دوسروں کو دکھانے کی کوشش کرتا تھا، لوگ چاند دیکھ کر چاند دیکھنے کی دعا پڑھتے اور ایک دوسرے کو رمضان کی مبارکباد دیا کرتے تھے، محلے کی مساجد سے چاند کا اعلان کیا جاتا تھا اور سائرن بجائے جاتے تھے، گو کہ چاند کے اعلان اور سحر و افطار کے شروع اور ختم ہونے پر سائزن آج بھی بجائے جاتے ہیں، لیکن میدانوں اور چھتوں پر جمع ہوکر چاند دیکھنے اور ایک دوسرے کو گلے مل کر رمضان کی مبارکباد دینے کا رواج اب تقریباً متروک ہی ہوگیا ہے اور خود چاند دیکھنے کے بجائے اُس کی جگہ ٹی وی پر چاند کا اعلان سن کر موبائل میسجز کے ذریعے ایک دوسرے کو مبارکباد دینا اب عام سی بات بن گئی ہے۔

گو کہ رفتار زمانہ نے بہت سی انسانی عادتوں، رویوں اور چیزوں کو تبدیل کردیا ہے لیکن بازاروں سے افطاری منگوانے کے بجائے خواتین کا خود گھروں میں افطاری تیار کرنے کا رواج آج بھی موجود ہے اور ہماری گھریلو خواتین شربت، ملک شیک، فروٹ چاٹ، کھٹے میٹھے دہی بڑے، آلو پالک کے پکوڑے، مختلف قسم کے سموسے بازار سے منگوانے کے بجائے گھر ہی پر تیار کرنا ضروری خیال کرتی ہیں، عموماً گھروں میں نمازِ عصر کے بعد افطاری بننا شروع ہوجاتی ہے، جس میں بچوں اور بڑوں سب کی پسند کا خیال رکھا جاتا ہے، رشتے داروں، ہمسایوں، محلے کے غریب گھروں اور مساجد میں افطاری اور خاص کھانوں کو بھیجنے کا رواج آج بھی زندہ ہے، آج کے دور میں افطاری کے وقت ایک دستر خوان پر ایک ساتھ سب کا روزہ کھولنا کسی انعام اور نعمت باری سے کم نہیں ہے، ہوش رباء مہنگائی کی وجہ سے سفید پوش طبقے کی جانب سے افطار پارٹیوں کا سلسلہ کم ضرور ہوگیا، مگر ابھی ختم نہیں ہواہے، بچوں کو روزہ رکھوا کر روزہ کشائی کے دعوت نامے تقسیم کرنا اور افطاری کی بڑی بڑی تقریبات منعقد کرنا اور اہل ثروت کی جانب سے شہر کے اعلیٰ ہوٹلوں میں افطار ڈنر (بوفے) دینا شہر کی نئی فروغ پاتی روایات میں سے ہیں۔

پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح ماہ رمضان المبارک میں کراچی شہر پر بھی پیشہ ور بھکاریوں اور گداگروں کی یلغار ہوتی ہے جن سے بازاروں اور سڑکوں پر جان چھڑانا آسان کام نہیں ہے، اسی طرح دن بھر گھر کے دروازے پر کسی نا کسی حاجت مند کا موجود ہونا بھی علامت رمضان ہے، رمضان المبارک کے دنوں میں سحری کے اوقات میں محلے کی مساجد سے خوبصورت لحن دار آوازوں میں نعتوں کا پڑھنا اور بار بار سحری کے اختتامی وقت کا بتانا ایک معمول ہے، حالانکہ پہلے سحری میں جگانے والے آتے تھے جو اعلانات اور ڈھول بجا کر لوگوں کو اٹھانے کا فریضہ سر انجام دیتے تھے، لیکن اب رمضان کے ابتدائی دنوں میں یہ لوگ دور دور تک نظر نہیں آتے، ہاں جہاں آخری عشرہ آتا ہے یہ لوگ نذرانے کے حصول کیلئے یوں نکل آتے ہیں جیسے پوری تندہی سے انہوں نے لوگوں کا سحری میں اٹھانے کا کام کو سرانجام دیا ہو، رمضان میں عموماً ہر روزہ دار کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلدی سو جائے تاکہ صبح سحری میں اٹھنے میں مشکل نہ ہو، لیکن کراچی کی پررونق اور دیر تک جاگتی زندگی میں یہ کام اتنا آسان نہیں۔

ایک زمانہ تھا جب رمضان کے آخری عشرے میں مساجد میں اعتکاف میں بیٹھنے کیلئے ایک آدمی بھی نہیں ملتا تھا اور اس فرض کفایہ کی ادائیگی کیلئے بزرگوں کو اعتکاف میں بیٹھنا پڑتا تھا، لیکن گزشتہ دس پندرہ سالوں سے نوجوانوں میں اعتکاف میں بیٹھنے کا رحجان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور اب مساجد میں ایک نہیں بلکہ کثیر تعداد میں نوجوان جن کی تعداد دو اور تین ہندسوں سے بھی زائد ہوسکتی ہے، اعتکاف میں بیٹھتے ہیں، جو کہ ایک بہت ہی اچھی علامت ہے، دیگر خواتین کی طرح ہماری والدہ اور بہنیں بھی اعتکاف میں بیٹھتی ہیں، جو انتیس یا تیس رمضان کی مغرب اور چاند نکل آنے کے اعلان تک جاری رہتا ہے، چاند رات کو خواتین اور نوجوان لڑکیوں کا چوڑیاں پہننا، مہندی لگوانا اور سجنا، سنورنا اور صبح عید کی تیاریاں کرنا بھی اس رات کے خاص خاصے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اکیسویں صدی کا جدید کراچی آج بھی پاکستان کا ایک ایسا شہر ہے جو اپنی تہذیب و ثقافت،اساس اور روایات کا امین اور ان سے اپنا رشتہ قائم رکھتے ہوئے ہے، پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح کراچی کے مسلمان بھی بڑے خلوص اور جوش و جذبہ کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھتے ہیں، نماز تراویح اور دیگر عبادات کا اہتمام کرتے اور عید مناتے ہیں اور وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ اس ماہ مبارکہ میں اللہ رب العزت کی نازل کردہ انوار و تجلیات اور اس کی رحمتوں و برکتوں مستفید ہوں اور رمضان کی فیض بھری ساعتوں سے اپنے اپنے دامن بھرلیں، ہماری دعا ہے کہ اللہ کریم اس ماہ مبارکہ میں تمام مسلمانوں کی عبادات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور بروز حشر اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر عنایت اور شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔ آمین
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313807 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More