خوشحالی

خوشحال زندگی بسر کرنا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے لیکن افسوس کہ ہر انسان کو خوشحالی میسر نہیں یہاں تک کہ ہم پاکستانی جو کہ ایک ایسے مذہب کے ماننے والے ہیں کہ جس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہم پوری کائنات کو تسخیر کر سکتے ہیں زمین پر خوشحالی لا سکتے ہیں اپنے ملک کو اپنی قوم کو ترقی و خوشحالی کی منزل پر ہمیشہ کے لئے گامزن رکھ سکتے ہیں

کلام پاک جو کہ تمام جہانوں کے لئے کتاب ہدایت ہے مسلمانوں کے لئے قدرت کا بے مثال اور لازوال انعام ہے پھر بھی ہمارے ہی ملک کے بیشتر باشندے خوشحالی اور پرسکون زندگی کو ترستے ہیں جبکہ مغربی ممالک کی عوام کو دیکھیے کہ وہ ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں ہم سے کس قدر آگے ہیں۔۔۔کیوں؟

اس لئے کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کی تعلیمات کو فراموش کر دیا ہے اور ان روایات کو اپنانا شروع کر دیا ہے جس کا تعلق نہ ہمارے مذہب سے ہے اور نہ ہی ہمارے معاشرے سے جبکہ ہمارے پاس وہ کتاب ہدایت موجود ہے کہ جس پر عمل کیا جائے تو ہم کبھی بے حالی و بد حالی کا شکار نہ ہوں ہماری ملت کے تمام افراد خوشحال ہو جائیں

اس لئے کہ قرآن مجید محض مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے کتاب ہدایت ہے جو اس کی روشنی سے ہدایت حاصل کرنا چاہے گا وہ اس پر عمل پیرا ہو کر اپنے لئے نجات ترقی اور خوشحالی کا راستہ ہموار کرتا چلا جائے گا جتنی بھی ترقی یافتہ غیر مسلم اقوام ہیں انہوں نے قرون اولٰی کے مسلمانوں کی یعنی ہمارے آباء کی بدولت ہی حاصل کی ہے انہوں نے مسلمانوں کےعلم و فن سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اگرچہ عقائد میں نہ سہی لیکن عملی زندگی میں قرآن پاک میں بیان کردہ انسانی، اخلاقی اور معاشرتی اصولوں کو اپنی زندگی میں عملی طور پر لاگو کیا ہے

ہم میں سے بیشتر افراد قرآن پاک کی تلاوت یا حفظ قرآن کو ہی سعادت سمجھتے ہوئے بغیر سمجھے قرآن پاک کی تلاوت کرتے یا پڑھتے رہتے ہیں جبکہ آیات کے مفہوم و مقصد سے انجان رہتے ہیں کلام پاک کی تعلیمات انسان سے کیا تقاضہ کرتی ہیں اس سے انجان رہ کر ہم کیسے اپنی زندگیاں سنوار سکتے ہیں کلام پاک کی تعلیمات محض تلاوت کرنے سے ہی انسانی زندگی پر اثر انداز نہیں ہو سکتی جب تک اسلام کی تعلیمات کو عملی طور پر اپنی زندگی میں شامل کر کے خود کو تبدیل نہ کیا جائے

قرآن مجید میں فرد اور معاشرہ سے متعلق کوئی ایسا معاملہ نہیں جس کا ذکر کلام پاک میں مذکور نہ ہو انسانی زندگی سے متعلقہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل کلام پاک میں موجود نہ ہو یہ کتاب صرف روحانی ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے دنیاوی معاملات و مسائل کے بیان اور ان معاملات کو خوش اسلوبی سے نبھانے کی تمام تر تدابیر کلام پاک میں موجود ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پر عمل کیا جائے انہیں اپنی ذاتی زندگی میں بروئے کار لایا جائے

اس کا یہی طریقہ ہے کہ قرآن مجید کی روزانہ تلاوت کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کو ترجمہ و تشریح سے پڑھنے کی عادت ڈالی جائے اور پھر قرآن مجید کی تعلیمات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس کتاب ہدایت میں بیان ہدایات کو اپنی عملی زندگی میں باقاعدگی کے ساتھ شامل کر کے دیکھیں ممکن نہیں کہ آپ کو زندگی کے کسی موڑ پر ناکامی نامرادی و پریشانی یا مایوسی کا سامنا کرنا پڑے

فرد معاشرہ سے متعلق تمام امور کی وضاحت اور ان معاملات کو بہ احسن خوبی نبھانے کے تمام طریقے اس کتاب ہدایت میں موجود ہیں یاد رکھیں کہ یہ کتاب ہدیت اسی وقت آپ کی زندگی پر اثر انداز ہو گی جب آپ اپنی شخصیت کو قرآن مجید کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں گے کلام پاک میں حلال و حرام کی تمیز بہ دلائل موجود ہے پھر بھی کوئی حلال کی بجائے حرام پسند کرے سچائی کو چھوڑ کر جھوٹ کفر اور گمراہی کا راستہ اختیار کرے رحم دلی خدا ترسی اور محبت و رواداری کی روش چھوڑ کر دوسروں کے ساتھ ظلم و جبر شر انگیزی نفرت و حقارت سے کا رویہ اپنائے جھوٹ چوری نشہ اور جہالت سے نجات ہی حاصل نہ کرنا چاہے تو بھلا کیسے اپنی زندگی میں تبدیل لائی جا سکتی ہے

دولت کوئی علم نہیں کہ جسے جس قدر خرچ کیا جائے کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جائے گی جس قوم کے افراد میں بےجا نمود و نمائش کی عادت ناحق بے جا اصراف کی سمت مائل ہو جائے تو یہی تعیش پسندی رفتہ رفتہ افراد قوم کو تونگری و خوشحالی سے کھینچ کر عسرت و تنگدستی اور بدحالی کے راستے پر لا پھینکتی ہے

ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے وطن میں رفتہ رفتہ ہر چیز کا بحران بڑھتا جا رہا ہے اشیائے صرف تو ایک طرف اپنے ملک کی ایسی زرعی پیداوار جس میں کہ ہمارا ملک خود کفیل کہلاتا ہے اس کے لئے بھی عوام کو ترسنا پڑتا ہے کبھی آٹا تو کبھی چینی کہ اپنے ہی ملک میں پیدا شدہ اشیائے خورد کا حصول آج عوام کے لئے کس قدر مشکل ہوتا جا رہا ہے

کبھی سوچا ہے یہی حال رہا تو اپنے ملک کی معیشت کہاں تک خوشحالی سے دور ہو سکتی ہے اگرچہ ہمارے پاس دنیا کا بہترین معاشی نظام موجود ہے کہ جس کو ملک میں صحیح معنوں میں لاگو کیا جائے اور تمام افراد معاشرہ انفرادی و کلی طور پر اسلام کے معاشی نظام کے مطابق عمل پیرا ہو جائے تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارا ملک ہماری قوم پھر سے خوشحالی کے راستے پر گامزن نظر أئے

ہماری سڑکوں پر اس قدر بے در و بے گھر افراد بھوکے پیاسے پڑتے رہتے ہیں ننھے ننھے بچے میلے کچیلے کپڑے پہنے سڑکوں پر کاغذ چنتے دکھائی دیتے ہیں کیا یہ صورت حال کسی بھی ملک کی معیشت و خوشحالی کے منہ پر طمانچہ نہیں کیا یہ لوگ انسان نہیں جو سڑکوں پر کیڑے مکوڑوں کی طرح بکھرے ہوئے پھیلے ہوئے نظر أتے ہیں کیا یہ ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ ان کی مناسب کفالت کا بندوبست کیا جائے زندگی کیا ہے زندگی کا مقصد کیا ہے کیا ان لوگوں کی روحانی و مادی تربیت کسی کی ذمہ داری نہیں ہمارا مذہب انسان سے انسان کے تعلق کو جس طرح بیان کرتا ہے کیا ہمارے معاشرے میں انسانوں کے ساتھ اسی طرح سے سلوک کیا جاتا ہے جیسا کہ کسی انسان کہ ساتھ کرنا بنتا ہے تمام انسان آدم کی اولاد ہیں مسلمان مسلمان کا بھائی ہے تو پھر کیوں ایک بھائی خوشحال اور دوسرا بےحال و بدحال ہے کیا انفرادی و اجتماعی طور پر ایک دوسرے کی مدد تعاون اور کفالت ہم سب اجتماعی فرض نہیں اگر ایک بھی مخیر گھرانہ کسی ایک بے آسرا کو سہارا دینے کی سعی کرے تو کیا ہمارے معاشرے میں واضح طور پر نظر أنے والی بدحالی کا سدباب ممکن نہیں ہو سکتا۔۔۔کیوں نہیں ہو سکتا

حکومت اور عوام سب کے مل کر سوچنے اور ملک سے بدحالی دور کر کے ملک میں خوشحالی کی راہ ہموار کرنے کے لئے حکومت و عوام سب کے باہمی تعاون سے ہی اس امر لامحال کو ممکن بنایا جا سکتا ہے

اپنے ارد گرد دیکھیں تو سہی، سوچیں تو سہی تبدیلی چاہیں تو سہی اور اس چاہنے کو عملی صورت دینے کی کوشش کریں تو سہی جلد نہ سہی بدیر ہی سہی اس عمل کو ممکن بنانے کے لئے کوشاں ہو جائیں کہ قومیں معاشرہ انسانوں سے اور اقوام عوام سے بنتی ہیں اگر انسان میں انسانیت نہ رہے تو انسان نہ رہے افراد معاشرہ نہ رہے تو معاشرہ نہ رہے نہ ملت رہے نہ قوم رہے نہ تشخص رہے نہ پہچان رہے

اس لئے قدم بڑھاؤ، آگے آؤ، ہاتھ سے ہاتھ ملاؤ، اپنے ملک کو بدحالی و بحران سے بچانے کے لئے مل جل کر خوشحالی کی جانب لے جانے کی تیاریاں شروع کر دو تاکہ جب بھی کوئی خوشی کا تہوار آئے تو اسے چند افراد نہیں بلکہ تمام افراد معاشرہ یکساں طور پر اور بھرپور طریقے سے منا سکیں کسی چہرے پر اداسی نہ ہو، کوئی نظر پیاسی نہ ہو، ہر طرف امن ہو محبت ہو خوشحالی ہو
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 459935 views Pakistani Muslim
.. View More