تھر اور چولستان میں قحط کی پیدا ہونے والی
صورتحال اچانک نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ہمارے حکمرانوں کی برسوں کی ریاضت
ہے نئے جنم لینے والے بحرانوں سمیت پرانے بحرانوں کو حل نہ کیاگیا تو آنے
والے برسوں میں پورا ملک تھر اور چولستان کا منظر پیش کرے گاملک کے معاشی
حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں جہاں مرد
حضرات پریشان ہیں وہیں پر اشیاء کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں نے گھریلو
خواتین کو بھی ذہنی مریض بنا دیا ہے حکمران سادگی کے دعوے کرتے ہیں
مگرپنجاب میں وزیراعلیٰ ہاؤس کے بجٹ کیلئے 26کروڑ روپے مختص ہوئے اور
42کروڑ روپے خرچ کردیے گئے پورے ملک میں مرنے سے پہلے حکومت کسی کو انصاف
نہیں دیتی اور جب وہ مر جائے تو 5لاکھ روپے کا چیک لے کر وزیراعظم یا وزیر
اعلی موقع پر پہنچ جاتے ہیں کیا اپنا حق لینے کیلئے مرنا ضروری ہے ؟غریب
عوام بھوک سے مر رہی ہے تعلیم غریب انسان کے بچوں سے بہت دور چلی گئی ہے
حکمران چند دانش سکولوں کے پیچھے پڑے ہیں جبکہ صرف پنجاب میں 80فیصد سرکاری
سکولوں میں بجلی سمیت بنیادی سہولتیں میسر ہی نہیں اور آج بھی 80لاکھ بچے
سکول نہیں جا رہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکمرانوں کی توجہ لاہور
پر مرکوز ہے اور باقی اضلاع میں وسائل کے منصفانہ تقسیم کے بجائے من مرضی
کی جا رہی ہے حکمران ڈاکو ؤں کو پکڑنے کے بجائے ان سے مذاکرات کرتے ہیں اور
مذاکرات کرکے اپنے لوگ بازیاب کرواتے ہیں پورے ملک میں امن و امان کی
صورتحال دن بدن خراب ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیم ، صحت اور دیگر شعبوں
میں حکومت کی کارکردگی نظر نہیں آتی دنیا کے جن 10شہروں کو آلودہ ترین قرار
دیا گیا ہے لاہور بھی ان 10آلودہ شہروں میں شامل ہے صوبے میں پولیس ، چوری
، ڈکیتی کو روکنے اور لوگوں کی عزت کی تحفظ کرنے کے بجائے وی آئی پی شخصیات
کا تحفظ کرنے کیلئے مامور ہے پنجاب کے پاس اس وقت 9بلٹ پروف گاڑیاں موجود
ہیں لیکن حکمرانوں نے 4مزید بلٹ پروف گاڑیاں منگوانے کی منظوری دیدی ہے اور
صرف ایک گاڑی کے شیشے بدلنے پر 15لاکھ روپے خرچ کردیے گئے جو غریب عوام اور
معاشی مشکلات کے شکار صوبہ پنجاب کے ساتھ ظلم کی انتہا ہے میٹرو کا منصوبہ
70سے 72ارب روپے کا ہے کیونکہ میٹرومنصوبے کیلئے انڈر پاسز اور فلائی اوورز
سمیت دیگر ملحقہ سڑکیں بنائی گئی ہیں ان پر بھی تقریبا 30ارب روپے خرچ ہوئے
ہیں فیروز پورروڈ سنگل فری زون کیلئے 6ارب روپے ، بادامی باغ ،راوی روڈ
کیلئے 8ارب روپے کے فنڈز جاری کئے گئے ہیں میٹرو منصوبے سمیت جتنے بھی بڑے
منصوبے بنائے گئے ہیں ان کیلئے بجٹ میں فنڈز مختص کرنے کے بجائے غیر
ترقیاتی منصوبوں کیلئے رکھے جانے والے فنڈز کو استعمال کیا جا تاہے ایک طرف
حکمران لاہور پر اربوں روپے لگا رہے ہیں تو دوسری طرف پنجاب کے دیگر اضلاع
کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے اوربڑے بڑے اضلاع میں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار
ہیں اور حکمران وہاں توجہ دینے کیلئے تیار نہیں لاہور سمیت صوبے کے دیگر
شہروں میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے نہ صرف تعلیمی نظام کو تباہ کررہے ہیں
بلکہ عام آدمی کا ان تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں اس لئے
ملک میں یکساں نظام تعلیم لایا جائے اور جرائم کے بعد ایف آئی آر کے اندراج
کیلئے آن لائن سسٹم شروع کیا جائے پنجاب سمیت ملک بھر میں امن و امان کی
صورتحال انتہائی خراب ہو چکی ہے اور پانچ سے چھ سالوں میں جرائم میں تقریبا
500فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن حکمران تھانہ کلچر کی تبدیلی کی بات کر رہے ہیں
ملک میں پراسیکیوشن کا نظام درست نہ ہونے کی وجہ سے ملزم باآسانی عدالتوں
سے چھوٹ جاتے ہیں پورے ملک میں غریب عوام کیلیئے صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے
برابر ہے اور ہسپتالوں میں بیڈز نہ ہونے کی وجہ سے مریض برآمدوں اور سڑکوں
پر رہنے کیلئے مجبور ہیں اور جب سرکاری ہسپتالوں میں صحت کی سہولتیں نہ
ملتیں تو پرائیویٹ ہسپتالوں میں انہیں ڈاکٹر کی شکل میں موجود قصائیوں کا
سامنا کرنا پڑتا ہے پاکستان میں پانچ لاکھ خواتین دوران زچگی مر جاتی ہیں
ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق خواتین کی صحت کے مطابق دنیا بھر
میں پاکستا ن صومالیہ سے بھی نیچے آخری درجوں میں ہے۔ماضی میں بھی مغل
حکمرانوں نے عوام الناس کی تعلیم ،صحت اور روزگار پر توجہ دینے کی بجائے
بڑی بڑی مساجد ،محلات اور مقبروں پر ملکی دولت لگائی جبکہ یورپ نے
یونیورسٹیوں ،کارخانوں اور ہسپتالوں کا جال بچھا کر اسلامی دنیاء کو پچھاڑ
دیا آج بھی ہمارے حکمرانوں کے شاہانہ انداززندگی عوامی محرومیوں کی ایک بڑی
وجہ ہے اور پورا ملک جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے اور جرائم کی شرح میں
مسلسل اضافہ کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی بھی اقدامات نہیں کئے اور آج امن
وامان کی صورتحال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ لوگ رات 10بجے کے بعد گھروں
سے نکلنے سے بھی خوفزدہ ہوتے ہیں صرف پنجاب پولیس کو رواں مالی سال کے
دوران 77ار ب روپے کے فنڈز دیئے گئے لیکن ان کی کارکردگی کاجائزہ لیا جائے
تو وہ زیرو ہے اور پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں پر پولیس نے چھوٹو گینگ کے خلا
ف کارروائی کرکے انہیں ختم کرنے کے بجائے اپنے لوگوں کو بازیاب کروانے
کیلئے ان سے مذاکرات کئے ہیں ان سے بڑی پولیس کی نااہلی کیا ہو سکتی ہے۔ |