احساس زندگی کا۔۔۔۔

اگر موجودہ دور کو انتشار کا دور کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ۔آج کل انسانی معاشرہ انتشار اور ابد امنی کا شکار ہے۔ سکون،احترام انسانیت،مساوات،اخوت،بھائی چارہ،ضرورت مندوں کی معاونت اور یتیموں کی پرورش جیسے الفاظ اب روز مرہ زندگی میں کم ہی سننے کو ملتے ہیں مادہ پرستی اور دنیاوی ہوس نے آج کے انسان کو جکڑ رکھا ہے ۔ظلم ہے کہ آکاس بِیل کی مانند پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے آج کا انسان اپنے مقصد اور منزل سے دور ہوتا ہوا نظر آرہا ہے جبکہ انسان کو تخلیق کرنے کا مقصد ایک یہ بھی تھا کہ وہ اس کائنات میں تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لے اور تخریبی کاموں سے اجتناب کرے تعمیری اور مثبت امور کی بجا آوری رحمان کی خوشنودی کا سبب بنتی ہے جبکہ تخریبی کام شیطان کی راہ پر چلنے کا سبب بنتے ہیں جس کی آخری منزل جہنم ہے خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے اور اس سے توقع بھی یہی کی جاتی ہے کہ اس کے تمام اعمال خدا کے پسندیدہ ہوں ۔اس کے پسندیدہ اعمال میں سے سب سے اچھا عمل انسانیت کی خدمت ہی ہے ۔پر امن اور فلاحی معاشرہ کے قیام کا خواب انسان کا سب سے پرانا اور بنیادی خواب ہے مگر اس کی تعبیر صرف اسی وقت ممکن ہے جب تمام انسانوں کے ساتھ برابری اور مساوات کا سلوک روا رکھا جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب وسائل کی مساویانہ تقسیم ہو۔خاتون جنتؑ کا قول ہے کہــ جب تم کسی بھوکے کو دیکھو تو یہ مت سمجھو کہ خدا کے ہاں رزق کی کوئی کمی ہے بلکہ یہ جان لو کہ کسی نے اس کا حق غصب کر رکھا ہے ۔ہمیں اس فرمان کو سمجھنے کی ضرورت ہے ایک فقرے پر مشتمل اس فرمان کے اندر حکمت کی کئی باتیں پوشیدہ ہیں۔جب افراد اپنے فرائض ادا کرنے اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے سے غافل ہونے لگیں تو معاشروں میں ظلم جنم لینے لگتا ہے اور انتشار و بد امنی اپنی جگہ بنانے لگتے ہیں ۔مظلوموں اور کمزوروں کے حقوق غصب ہونے لگیں تو غربت اور بھوک جنم لینے لگتی ہے ایسے میں یہ ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنی طرز زندگی کا خود جائزہ لے اور اپنے افعال اور اعمال کا خود تجزیہ کرے اور یہ دیکھے کہ وہ کہیں کوئی ظلم کرنے کا سبب تو نہیں بن رہا ہے اپنے ذمے واجبات کو ادا نہ کرنا بھی ایک ظلم ہے کیونکہ اپنے مالی واجبات ادا نہ کرنے سے مستحقین مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں اور بھوک اور غربت ان کا مقدر بن کے رہ جاتی ہے اسی لیے مذکورہ فرمان کو مدنظر رکھ کر ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنا ہو گا اور انسانیت کی خدمت اور فلاح کے لیے بھی کچھ کر گزرنا ہو گا پاکستانی معاشرے کی یہ خوش قسمتی ہے کہ یہاں اس پر آشوب دور میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو حق داروں کو ان کا حق دلانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ایدھی صاحب کا نام سب سے اوپر ہے جو انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی مثال آپ ہیں اور اب وہ دوسروں کے لیے قابل تقلید بن چکے ہیں میرے شہر چکوال میں ایک صاحب لیاقت علی ہیں جنہوں نے انسانیت کی خدمت کرنے کا عزم کیا اور اب وہ اس میدان میں کافی سرگرم ہیں چکوال میں موجود یتیم بچیوں کو سہارا فراہم کرنے کے لیے انہوں نے ایم نذیر ایجوکیشنل ٹرسٹ کے نام سے ایک ا دارہ بنا رکھا ہے مجھے اس ادارے کا دورہ کرنے کا موقع ملا یہاں یتیم اور بے آسرا لڑکیوں کو رہائش،کھانا،تعلیم،کپڑے اور ادویات مفت فراہم کی جاتی ہیں ان کی عزت نفس کا بھی خصوصی خیال رکھا جاتا ہے زندگی کی خوشیوں سے محروم ان بچیوں کو تحفظ،آسرااور خوشیاں واپس لوٹانے کے لیے یہ ادارہ انتہائی خلوص اور لگن کے ساتھ اپنے فرائض اد اکررہا ہے اس ادارے کی کارکردگی ،معیار اور سسٹم نے مجھے کافی متاثر کیا میں نے ایک امید کی کرن یہاں سے پھوٹتی ہوئی دیکھی ہے جو یقیناآگے چل کر دوسروں کے لیے مینار نور ثابت ہوگی۔میرے لیے یہ بات حوصلہ افزاء تھی کہ آج کے اس انتشار اور بدامنی کے دور میں بھی کچھ افراد اور ادارے ایسے موجود ہیں جو اپنا فرض اور دوسروں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہیں ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے دیگر افراد بھی ان کے نقش قدم پر چلیں انسانیت کی خدمت کے لیے اپنا کردار ادا کریں ہمیں اپنے واجبات ادا کرنے ہوں گے ان جیسے اداروں کی مالی معاونت کر کے ہم ظلم سے بچ سکتے ہیں اوربے آسرا لوگوں کے لیے سہارا بن سکتے ہیں جب معاشرے کے تمام افراد اپنے فرائض ادا کرنے لگیں گے تو یہ معاشرہ ایک فلاحی معاشرہ بن جاے گا جب دوسروں کی زندگی کا احساس انسان کے اندر جگمگانے لگ پڑے تو معاشرے سے محرومی اور بھوک کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور خدا کا قرب بھی حاصل ہو تا ہے بات صرف احساس کی ہے -
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 61673 views i am columnist and write on national and international issues... View More