مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی

"یہ میرے پاس تمھارے لیے ایک امانت ہے ، تم اس کشت وخون کے عالم میں مجھے مل گئے، میرا بوجھ ہلکا ہو گیا "، پھر اس نے جیب میں سلے کپڑے کا رومال نکالا جس پر کئی گرہیں لگی ہوئی تھیں ، انھیں کھولا اور اس کے اندرایک چھوٹا سا تعویذ تھا۔

اس نے یہ تعویذ اس مسلمان کے حوالے کرتے ہوئے کہا: "لو آج موہن سنگھ سرخرو ہو گیا۔"

امرتسر کے جلے ہوئے مسلمان محلے کی ایک تاریک گلی میں جب وہ یہ تعویذ اس کے حوالے کر رہا تھا تو خوف سے چاروں طرف دیکھتا جاتا کہ کہیں کوئی ہندو ؤں یا سکھوں کا غول اسے اس مسلمان کے ساتھ دیکھ نہ لے ۔ یہ مسلمان امرتسر کا رہائشی مشہور ادیب اے حمید تھا ۔ اے حمید نے پوچھا لیکن یہ تعویذ ہے کس کا ؟موہن سنگھ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے کہا۔ چند دن پہلے جب مسلمانوں کا قتل ِ عام شروع ہوا تو ہندوؤں اور سکھوں کے جتھے مسلمان محلوں پر ٹوٹتے، مردوں کو قتل کرتے ، مکانوں کو آگ لگاتے اور عورتوں کی بے حرمتی کرتے ۔ میں ایک رات ایک چوک سے گزررہا تھاکہ وہاں چند ہندو غنڈے نشے میں بد مست بیٹھے ہوئے تھے ۔ انہوں نے مجھے روکا۔ میں نے کہا کہ گھر جا رہا ہوں ۔ انہوں نے کہا آؤ تمہیں سورگ کی سیر کراتے ہیں ۔ میں ان کا اشارہ سمجھ گیا ۔ شاید کوئی مظلوم مسلمان لڑکی ان کے ہاتھ چڑھ گئی ہے ۔
میں نے پوچھا تو بولے ہاں! آج ہم دیکھیں گے کب تک جیے ہند نہیں کہتی ۔
میں نے ان سے کہا : " چلو میں اس کو راضی کرتا ہوں "۔
انہوں نے کہا : "جا تو 'موج' کر لے ۔"

میں ساتھ والی چھوٹی سی کوٹھڑی کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو ا۔ دیے کی روشنی میں چار پائی پر ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی بیٹھی تھی جس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور بال یوں بکھرے ہوئے تھے جیسے زبردستی نوچے کھسوٹے گئے ہوں لیکن اس کی آنکھوں میں شیرنی کی سی چمک تھی ۔مجھے دیکھتے ہی اس نے کہا :"خبردار میرے قریب مت آنا۔"

میں نے کہا :" بہن میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔"بہن کا لفظ سن کر اسے تسلی ہوئی ۔ اس نےکہا میرا نام رقیہ ہے ۔ ان غنڈوں نے میرے باپ اور بھائیوں کو قتل کر دیا اور مجھے اٹھا کر لے آئے لیکن انھیں علم نہیں ایک مسلمان عورت اپنی عزت کی حفاظت کیسے کرتی ہے ؟ پھر اس نے اپنے گلے سے ایک تعویذ اتارا اور میرے قریب آکر مجھے دیتے ہوئے کہا : "یہ میری امانت ہے اسے کسی مسلمان کو دے دینااور جھپٹ کر میرے گلے میں لٹکی کرپان کو زور سے اپنے سینے میں اتار لیا ۔"

اس کے سینے سے خون کا فوارہ ابل پڑا اور تھوڑی دیرتڑپ کر ٹھنڈی ہوگئی۔ دھیمی روشنی میں اس کے چہرے پر ایسا سکوت اور نور سا تھا کہ میں خوف زدہ ہو گیا اور تعویذ جیب سے نکال کر وہاں سے بھاگ نکلا ۔اس دن سے میں کسی مسلمان کو ڈھونڈ رہا تھا جس کو یہ امانت لوٹا دوں ، پتا نہیں میری سمجھ میں نہیں آتاایک مسلمان عورت اتنی بہادری سے اپنی عزت کی حفاظت کے لیے کس طرح جان دے سکتی ہے ؟"
(مجھے ہے حکم ِ اذاں۔ اوریا مقبل جان)

آمنہ کی دکھ بھری داستان میڈیا کے ذریعے سامنے آئی تو مجھے برسوں پہلے پڑھی ہوئی یہ تحریر یاد آگئی ۔ واقعی مسلمان عورت اپنی عزت اورعصمت کی خاطر جان بھی دے دیتی ہے ۔ زندہ مثال آمنہ ہے ،جسے انصاف نہیں ملا تو اپنی جان ہی دے دی ۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ مسلمان عورت کے لیے اس کی عزت ،اس کی عصمت ،اس کی جان سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی ہے ۔ وطن ِ عزیز کی طول وعرض میں نہ جانے ہو س کی کونسی آگ لگی ہے کہ تین سال کی بچی بھی محفوظ نہیں ۔حوا کی بیٹی پر پے در پے ہونے والے ظلم اور تشددنے ہمارے اقدار اور روایات کو بری طرح پامال کر کے رکھ دیا ہے ۔اس ضمن میں شکار پور کا حالیہ واقعہ دیکھا جا سکتا ہے ۔جہاں ایک جرگے نے نا جائز تعلقات کی بنا پردو خواتین کو قتل کی سز ادے دی ۔ یہ تو بھلا ہو چیف جسٹس صاحب کا ، جنھوں نے فوری طور پر اس اندوہ ناک واقعے کا نوٹس لیا ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدالتوں کی موجودگی میں جرگے کا قیام اور ان کے فیصلوں پر عمل ۔۔چہ معنی دارد ؟ پھر یہ جرگے جس طرح کے فیصلے کرتے ہیں ، وہ سب جانتے ہیں ۔

تین سال سے لے کر بیالیس سال کی عورت تک سے زیادتی ۔۔کیا ہم انھی روایات کے امین تھے ؟ آخر ہمیں ہو کیا گیا ہے؟ابھی میں اخبار پڑھ رہا تھا تو اس نوعیت کے ایک اور واقعے نے افسردہ کردیا ۔ جو لوگ اس طرح کی قبیح رسموں میں ملوث ہیں ، وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ رب تعالی ٰ سب سے بڑا منصف ہے ۔ اس کی لاٹھی بے آواز ہے ۔جو وہ آج بو رہے ہیں ، کل اسے کاٹنا بھی پڑے گا ۔بتا یا جاتا ہے کہ 2009 ء سے پاکستان میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔

خواتین کے ساتھ تشدد کے واقعات میں کیوں اضافہ ہورہا ہے ۔اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں ۔میرے خیال میں اس کی ایک وجہ "بے خوفی" بھی ہے ۔خوف کوئی بھی ہو ، جرائم کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ یہ خوف سزا کا بھی ہو سکتا ہے ۔ رب تعالیٰ کا بھی ہو سکتا ہے ، جسے اسلامی اصطلاح میں تقویٰ کہتے ہیں ۔یہ خوف اس بات کا بھی ہو سکتا ہے کہ اگر میں کچھ بر اکروں گا تو میرے ساتھ بھی ضرور برا ہو گا ۔بد قسمتی سے اب ہم میں ان تینوں قسم کے خوفوں کا فقدان ہے ۔ہمارے ملک میں قانون کی بالا دستی نہ ہونے کے برابر ہے ۔امیر لوگ کس طرح بچ جاتے ہیں ، اس کا اندازہ آمنہ والے واقعے سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ظاہر ہے کہ جب اس طرح کے لوگوں کع کھلی چھوٹ دے دی جائےگی تو یقینا وہ معاشرے کا جینا مشکل کر دیں گے ۔ مادی دور کی چکا چوند روشنیوں نے خوف ِ خدا بھی چھین لیا ۔ اور اب ہم میں "جیسی کرنی ویسی بھرنی " کا خوف بھی نہیں ہے ۔ اگر ہماری حکومت واقعی عورتوں پر تشدد کے خاتمے میں سنجیدہ ہے تو انصاف کی بالادستی کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کو اولا قانون کے کٹہرے میں لائے اور پھر انھیں بلا امتیاز سخت سے سخت سزائیں دے ۔ اگراس طرح کے کسی ایک مجرم کو بھی عبرت ناک سزا دے دی جائے تو اس طرح کے واقعات نہ ہوں ۔ لیکن انصاف شرط ہے ۔
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس ، رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت ،ذلیخا کی بیٹی

Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 159090 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More