مسلم معاشرے میں بعض ایسی اخلاقی
بیماریاں اور غلط رسوم و رواج شامل ہو چکے ہیں جو مغربی تہذیب کی نمائندگی
کرتے ہیں۔انہیں میں سے ایک بے ہودہ رسم یکم اپریل کو ’اپریل فول‘ منانا بھی
ہے۔جسے ہماری ’جدیدتہذیب یا فتہ نسل‘ نہایت اہتمام اور گرم جوشی کے ساتھ
مناتی ہے۔اس دن ایک دوسرے کو مختلف طرح سے بیوقوف بنایا جاتاہے کہ آپ کے
بیٹے کا ’ایکسیڈنٹ یاانتقال‘ ہوگیاہے یا اسی طرح کے آپس میں غیر اخلاقی
مذاق،جھوٹ،دھوکہ دہی،فریب اور وعدہ خلافی کی جاتی ہے۔
اپریل فول کی حقیقت کیا ہے اور اس کا آغاز کب ہوا ۔اس سلسلے میں مختلف رائے
ملتی ہیں۔
”اپریل لاطینی زبان کے لفظ Aprilis یا Aprire سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب
پھولوں کا کھلنا اورکونپلیں پھوٹنا وغیرہ کے آتے ہیں۔قدیم زمانے میںرومی
موسمِ بہار کی آمد پر شراب کے دیوتا کی پرستش کرتے ، اسے خوش کرنے کے لیے
شراب پی کر غیر اخلاقی حرکتیں کرتے اور لوگوں سے جھوٹ بولتے۔ یہ جھوٹ رفتہ
رفتہ اپریل فول کا ایک اہم حصہ بن گیا“۔
’انسائیکلو پیڈیا انٹرنیشنل‘ کے مطابق :
”مغربی ممالک میں یکم اپریل کو عملی مذاق کا دن قرار دیا جاتا ہے ۔اس دن ہر
طرح کی نازیبا حرکات کی چھوٹ ہوتی ہے اور جھوٹے مذاق کا سہارا لے کر لوگوں
کو بیوقوف بنایا جاتا ہے“۔
’انسائیکلوپیڈیاآف برٹانیکااورانسائیکلوپیڈیالاروس‘کے مطابق:
”جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوگرفتارکیاتو عدالت میں رومیوں اور
یہودیو ں کی طرف سے آپؑ کے ساتھ مذاق اور تمسخرکیاگیا اوران کوتفریحاًیہودی
علماءکی عدالت سے پیلاطس کی عدالت میں اوروہاں سے ہیروڈیلس کی عدالت میں
اورپھر وہاں سے واپس پیلاطس کی عدالت میں فیصلے کے لیے بھیجاگیا“۔
لوقاکی انجیل کے مطابق :
”جب لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوگرفتارکیے ہوئے تھے تویہودان کی آنکھیں
بند کرکے منھ پرطمانچہ مارکرہنستے تھے اوران سے پوچھتے تھے کہ نبو ت یعنی
الہام سے بتاکہ کس نے تجھے مارا؟ا س کے علاوہ اوربہت سی باتیں بطورطعنہ
کہتے تھے“۔
ایک اور روایت کے مطابق:
”۲۸۵۱ءمیں پوپ جورج ہشتم نے پرانے کلینڈر کی جگہ ایک نیا کلینڈر بنانے کا
حکم دیا۔ جس میں نئے سال کا آغاز یکم اپریل کی بجائے یکم جنوری سے شروع کیا
گیا۔اس تبدیلی کی اطلا ع بروقت دور دراز کے علاقے کے لوگوں تک نہیں پہنچ
سکی۔ وہ بدستور یکم اپریل کو ہی نئے سال کی تقاریب مناتے رہے اور باہم
تحائف کا تبادلہ بھی جاری رہا۔ اس تبدیلی کو جاننے والوں نے ان کا مذاق
اڑایا اور انھیں’ اپریل فول‘ کے طنزیہ نام سے پکارنے لگے۔ آہستہ آہستہ یہ
ایک روایت بن گئی“۔
ایک مستند ترین روایت کے مطابق:
”مسلمانوں کے زوال کے بعد جب اسپین پر عیسائیوں نے دوبارہ قبضہ کیا تو
مسلمانوں کا بے تحاشا خون بہایا گیا۔اسی دوران عیسائی بادشاہ ’فرڈینینڈ‘نے
عام اعلان کرایا کہ مسلمانوں کی جان یہاں محفوظ نہیں ،ہم نے انہیں ایک
اسلامی ملک میں بسانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو مسلمان وہاں جانا چاہیں ان کے
لیے ایک بحری جہاز کا انتظام کیا گیا ہے ۔حکومت کے اس اعلان سے مسلمانوں کی
کثیر تعداد اسلامی ملک کے شوق میں جہاز پر سوار ہوگئی۔جب جہاز سمندر کے عین
درمیان میں پہنچا تو فرڈینینڈ کے فوجیوں نے بارود کے ذریعہ بحری جہاز میں
سوراخ کردیا اوردیکھتے ہی دیکھتے پورا جہاز غرقاب ہوگیا۔عیسائی مسلمانوں
کوالوداع کہنے کے بہانے ساحلِ سمندرتک آئے تھے کہ ان کے غرق ہونے کاتماشہ
دیکھ سکیں اورپھران لوگوں نے اپنی اس کام یابی کا جشن منایا۔یہ حادثہ یکم/
اپریل 1501ءمیںپیش آیا۔ عیسائی دنیا اس پر بہت خوش ہوئی اور فرڈینینڈکو اس
شرارت پر داد دی“۔(تاریخِ اندلس:312)۔
بہرحال ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسم مسلمانوں کی نہیں ہے اس لیے
ان کا اپریل فول منانا جائز نہیں۔ اس کی تقلید میں غیرمسلموں سے مشابہت
ہوگی اور یہ ایک طرح سے دشمنوں کی خوشی میں شرکت کرنا ہوا جو صحیح نہیں ہے۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من تشبہ بقوم فھو منھم (ابوداؤد:4031)
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔
ویسے بھی اس دن جو اعمال انجام دیئے جاتے ہیں وہ قرآن و سنت اور اسلامی
تعلیمات کے خلاف ہیں ۔اس لیے کسی مسلمان کا اس میں شریک ہونا درست نہیں۔ان
میں سے چند درج ذیل ہیں:
جھوٹ بولنا:اپریل فول کے دن کثرت سے جھوٹ بولا جاتا ہے جس سے اسلام نے سختی
سے منع کیا ہے کیوں کہ جھوٹ امانت و دیانت میں نقص پیدا کرتا ہے اور عزت و
آبرو پر دھبہ لگاتا ہے۔یہ ایک مومن کی شان نہیں ہے کہ وہ جھوٹ بولے۔ارشادِ
ربانی ہے :
واجتنبوا قول الزور(الحج:30)
جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو بڑے گناہوں میں شمار کیااور
فرمایا:
الا انبئکم باکبر الکبائر ثلاثاً،الاشراک باللہ،وعقوق الوالدین،و شھادة
الزور،او قول الزور،و کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متکئاً،فجلس فما
زال یکررھا،حتیٰ قلنا :لیتہ سکت۔(مسلم:87)
آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا :’کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں
نہ بتلاؤں؟ صحابہ نے عرض کیا :کیوں نہیں ائے اللہ کے رسول !فرمایا:اللہ کے
ساتھ کسی کو شریک ٹہرانا،والدین کی نافرمانی کرنا۔(آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے
اٹھ کر بیٹھ گئے )اور فرمایا:’سن لو اور جھوٹ بولنا‘ پھر آپ برابر اسی کو
دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم تمنا کرنے لگے کہ کاش!آپ سکوت اختیار کر لیتے۔
ایک مسلمان ہمیشہ سچ بولتا ہے۔سچائی نیکی کی طرف رہ نمائی کرتی ہے اور اسے
جنت کی طرف لے جاتی ہے،جب کی جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور جہنم کا
راستہ دکھاتا ہے۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان الصدق یھدی الی البر وان البر یھدی الی الجنة وان الرجل لیصدق حتی یکتب
عند اللہ صدیقاً وان الکذب یھدی الی الفجور و ان الفجور یھدی الی النار وان
الرجل لیکذب حتی یکتب عنداللہ کذاباً(مسلم:2607)
سچائی نیکی کی طرف رہ نمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔آدمی
سچ بولتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی ہاں سچے لوگوں میں لکھ لیا جاتا ہے اور
جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے ۔آدمی جھوٹ
بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے ہاں جھوٹے لوگوں میں لکھ لیا جاتا
ہے۔
مذاق اڑانا:اپریل فول میں ایک دوسرے کا مذاق اڑایا جاتا ہے اورغیبت کی جاتی
ہے۔ بے جا ہنسی مذاق نفرت اور کراہیت تک پہنچا دیتا ہے اور وقار بھی مجروح
ہوتا ہے ۔ قرآن کہتا ہے:
یا ایھا الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیراً منھم و لا
نسآءمن نسآءعسیٰ ان یکن خیراً منھن(الحجرات:11)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو،نہ مرد دوسرے مرد کا مذاق اڑائیں،ہو سکتا ہے کہ
وہ ان سے بہتر ہوں ،اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں،ہو سکتا ہے
کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔
مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ خوش طبعی سے پیش آتے ہیں اور
ہنسی مذاق بھی کرتے ہیں لیکن اس میں غلو نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے لوگوں
کو اذیت پہنچتی ہے۔ان کا مذاق اسلامی اور جائز حدود میں ہوتا ہے۔رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام بھی آپس میں مذاق کرتے تھے :
ان رجلا واتی النبی فقال:یا رسول اللہ !احملنی،فقال النبی:انا حاملوک علی
ولد ناقة۔قال:و ما اصنع بولد الناقة؟فقال النبی:و ھل تلد الابل الا
النوق۔(ابوداؤد:4998)
ایک شخص نبی کے پاس آیا اور اس نے آپ سے سواری مانگی۔آپ نے بطور مزاح
فرمایا!ہم تمہیں اونٹنی کا بچہ دیں گے۔اس نے عرض کیا:ائے اللہ کے رسول !میں
اونٹنی کابچہ لے کر کیا کروں گا ؟آپ نے فرمایا:کیا اونٹ(اونٹنی کے علاوہ)
کسی اور کا بچہ ہوتا ہے؟
امام بخاری نے الادب المفرد میں بکر بن عبداللہ سے روایت کیا ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ایک دوسرے پر خربوزہ پھینکا کرتے
تھے(یعنی ہنسی مذاق کی محفلوں میں خربوزوں کے ٹکڑے ایک دوسرے پر پھینکتے
تھے)لیکن جب وہ حقائق سے دوچار ہوتے تو پوری مردانگی کا مظاہرہ کرتے
تھے۔(الادب المفرد:266)
وعدہ خلافی کرنا:اپریل فول کے دن وعدہ خلافی بھی بطورفیشن کی جاتی ہے۔جب کہ
اللہ رب العزت فرماتا ہے:
یا ایھا الذین آمنو ااوفوا بالعقود(المائدة:01)
اے لوگو!جو ایمان لاتے ہو وعدوں کی پوری پابندی کرو۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
و اوفوا بالعھد ان العھد کان مسﺅلا(بنی اسرائیل:34)
عہد کی پابندی کرو،بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہو گی۔
وعدہ خلافی سے دلوں میں کدروت پیدا ہوتی ہے اور محبت نکل جاتی ہے ۔نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اپنے بھائی سے لڑائی جھگڑا نہ کرو ،نہ اس سے حد سے زیادہ ہنسی مذاق کرو اور
نہ ہی اس سے کوئی وعدہ کر کے خلاف ورزی کرو۔(الادب المفرد:394)
فضول اور لایعنی گفتگو :اپریل فول میں فضول گفتگو کی جاتی ہیں جوایک مومن
کے لیے مناسب نہیں کیوں کہ وہ لا یعنی چیزوں میں نہیں پڑتا ہے اور اسلام
اسے لچر اور بے ہودہ باتوں اور غیر سنجیدہ حرکتوں سے دور رکھتا ہے۔نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حسن السم المرءترکہ مالا یعنیہ(موطا:949)
آدمی کے اسلام کی خوبی اس بات میں ہے کہ وہ لایعنی چیزوں میں نہ پڑے۔
اسی لیے مومن اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہے تاکہ وہ اسے جہنم میں لے جانے
کا سبب نہ بنے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو تنبیہ
فرمائی :
فاخذ بلسانہ قال :کیف علیک ھذا،فقلت :یا نبی اللہ و انا لمواخذون بما نتکلم
بہ؟فقال:ثکلتک امک یا معاذ و ھل یکب الناس فی النار علی وجوھم او علی
مناخرھم الا حصائد السنتھم۔(ترمذی:2616)
آپ نے اپنی زبانِ مبارک پکڑ کر (سیدنا معاذ)سے فرمایا:اس کو روکو!سیدنا
معاذ نے عرض کیا :اے اللہ کے نبی:کیا ہماری گفتگو کا بھی ہم سے مواخذہ
ہوگا؟آپ نے ارشاد فرمایا:
اے معاذ!تمہاری ماں تمہیں گم پائے،لوگ جہنم کی آگ میں چہرے کے بل یا اپنے
نتھنوں کے بل اسی زبان کے بدولت گرائے جائیں گے۔
تہمت لگانا اور نقصان پہنچانا:اپریل فول کے دن دوسروں کی عزت پربطور مذاق
تہمتیں لگائی جاتی ہیں اور نقصان پہنچایا جاتا ہے ۔جو جائز نہیں ہے۔رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کوئی کسی کو فسق یا کفر کی تہمت نہ لگائے اس لیے کہ جس شخص کو وہ تہمت
لگائی ہے اگر وہ ویسا نہیں ہے تو یہ بات تہمت لگانے والے ہی پر پلٹ آئے
گی۔(بخاری:6045)
ایسے ہی لوگوں کو نقصان پہنچاناصحیح نہیں ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ(بخاری:6484)
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کے شر سے مسلمان محفوظ رہیں۔
ایک مرتبہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔آپ نے فرمایا:کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم
میں اچھے کون اور برے کون ہیں؟لوگ خاموش رہے۔آپ نے تین مرتبہ یہی فرمایاتو
ایک شخص نے عرض کیا :کیوں نہیں ائے اللہ کے رسول بتلایئے! آپ نے فرمایا:
خیرکم من یرجیٰ خیرہ و یومن شرہ و شرکم من یرجیٰ خیرہ و لا یومن
شرہ۔(ترمذی:2663)
تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جن سے لوگ خیر کی امید رکھیں اور شر سے محفوظ
رہیںاور تم میں برے لوگ وہ ہیں جن سے خیر کی امید تو رکھیں مگر شر سے محفوظ
نہ ہوں۔ |