بہروپئے

جب ہم کسی بھی چیز کو سمجھنے اور شعور کی صلاحیت سے نابلد ہوتے ہیں، تب ہی آغاز سے ہی یہ بات ہمارے ذہنوں میں ڈال دی جاتی ہے یا کوشش کی جاتی ہے کہ ذہن نشین کر دی جائے کہ ہمارا دین اسلام ہے اور ہم ایک خدا کے ماننے والے مسلمان ہیں اور حضرت محمد ﷺ ہمارے آخری نبی ہیں۔اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں(اچھی و بُری دونوں طرز کی)بھی ہمارے ذہنوں میں اسطرح سے بٹھائی جاتی ہیں کہ ہم ساری زندگی اپنی طرف سے لاکھ کوشش کے باوجود ان سے چھٹکارہ نہیں پاسکتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ کورے کاغذ پر جو کچھ لکھا جاتاہے وہ اس کی پہچان بن جاتاہے اسی طرح سے ہماری جس انداز سے تربیت کی جاتی ہے وہ ہماری پہچان کا سبب بن جاتی ہے۔بالفرض اگر ہمیں شروع سے ہی دوسرے فرقہ سے نفرت کرانا سیکھائی جائے گی تو کیسے ہم چاہ کر بھی بعدازں اس سے محبت کا اظہارکر پائیں گے اورسامنے میٹھے نظرآنے کے بعد دور ہو کر دل میں عناد نہیں رکھیں گے؟ ہم کیسے مسلمان ہیں؟سوچئے کہ واقعی ہی ہم اتنا کچھ کر کے بھی مسلمان ہیں وہ سب کچھ جو شاید ہمارے دین نے ہمیں کرنے کا حکم نہیں دیا کرکے ہم اﷲ تعالیٰ اور حضورﷺ کے سامنے کیسے سرخرو ہو سکتے ہیں؟اورکیسے ہمیں اﷲ سے معافی اور حضورﷺ کی شفاعت نصیب ہو سکتی ہے؟

جب ہمارے دلوں میں بغض وکینہ،حسداور دوسرے سے خودکو افضل سمجھنا کی بری عادت موجود رہے گی اور ہم ایک دین کے پیروکار ہو کرکسی دوسرے مسلمان کو کافر کہہ کر یا پھر اپنے ہی کلمہ گو بھائی کے ساتھ بددیانتی کا مرتکب ہو کر کیسے اچھے مسلمان بن سکتے ہیں ؟ہم اگر اپنے اردگرد دیکھیں تو بے شمار ایسے لوگ ملیں گے جن کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف اپنے مفاد کو حاصل کرنا ہے چاہے اس کے لئے کسی کی جان کو ہی لینا کیوں نہ پڑے جائے۔جھوٹ اور مکروفریب سے اپنے لئے دھن دولت جمع کرنے والے اپنے آپ کو مسلمان قرار دیتے ہیں ؟

ایسے ہی ایک صاحب کے بار ے میں گذشتہ دنوں اپنے ایک محسن گلباز مشتاقؔ صاحب کی وساطت سے اسکے بارے میں جاننے کا موقع ملا ہے جنہوں نے اسلام کا سہارا لے کر اپنے ہی مومن بھائیوں کی جیبوں کو صاف کیا ہے،میں چونکہ اس بارے میں مکمل تفصیلات فی الوقت پوشیدہ رکھنے کے حق میں تو نہیں ہوں مگر اپنی نا سمجھ عوام کے احساسات و جذبات کو جو کہ وہ مذہبی رہنماؤں کے حوالے سے رکھتی ہے، چاہے وہ کتنے ہی ذہنی و اخلاقی اعتبار سے بدکردار ہوں پھر بھی انکے حق میں مثبت رائے رکھتی ہے کو سوچتے ہوئے بہت کچھ ظاہر نہیں کر نا چاہ رہا ہوں کہ یہ معاملہ جلد اخباری سرخیوں و میڈیا پرآئے گا تو سب اس بارے میں بہت کچھ جان سکیں گے ۔ہم جیسا گناہ گار شخص کسی کے عیبوں کا پردہ رکھنے کا خواہشمند ہے مگر حق بات کہنے بھی ضروری ہے اسی لئے نام ظاہر کئے بنا کچھ کہہ رہا ہوں،یقینا جن کو اس کے بارے میں آگاہی ہوگی وہ ضروراس پر تبصرہ کریں گے۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ لوگوں سے رقم بٹورنے کے لئے اس نئے ٹولے نے جو لوگوں سے رقوم حاصل کر کے انکو اپنے اورانکے درمیان کاروباری معاہدے کا بیان حلفی دیا ہے اس میں لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے کہ وہ اسلام کے لئے بہت جذباتی ہوتے ہیں میں یہ اظہار کیا گیا ہے کہ ـ’’اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا عہد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘‘دل چسپ بات یہ ہے کہ دوسری طرف رقوم کی واپسی کے حوالے سے بھی کسی ذمہ دار فرد کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔جبکہ سرمائے کا یکسر ڈوب جانے کی صورت میں بھی موصوف نے اپنا دامن صاف بچاتے ہوئے بیان حلفی کی عبارت میں اقرار کیا ہے کہ اس بات کا فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جائے گا۔جبکہ موصوف نے اپنی جان بچاتے ہوئے کسی بھی طرح کے معاملات میں خود کو ملوث ہو نے سے بچانے کے لئے ادارہ الصبعہ کو ہر طرح ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ اسلام کے نام لیوا اس طرح سے معصوم لوگوں کے جذبات اور انکی عمر بھر کی کمائی کو یوں چھین کر اپنی جنت دنیا میں ہی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔دوسری طرف یہ بھی المناک صورت ہے کہ ڈبل شاہ اور اس طرح کے دیگر کرپٹ عناصر کے منظر عام پرآنے کے باوجو د بھی ہم لوگ اس طرح کے جرائم پیشہ لوگو ں کے ہتھے چڑھ کر اپنے سب کچھ گنوا رہے ہیں پھر بھی ہم لوگوں کو عقل نہیں آ رہی ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایک مولانا صاحب تو ابھی بھی نیب کے شفیق ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں مگر ہم ہیں کہ سدھر نے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں؟

اپنی ہی قوم کی بیٹوں، بیٹیوں کی عزت کا سودا کرنے والے،اور دوسروں پر الزام تھوپ کر کے ایک دوسرے کو بدظن کرنے والے اور قتل کرنے پراُکسانے والے، جیتے جی گھناونے فعل کے عوض جنت کی راہ دکھانے والے، اپنے آپ کو با کردار ظاہر کر کے لوگوں کی رقم اینٹھنے والوں کو پتا نہیں کیوں روز محشر کا دن یاد نہیں رہتا ہے کہ انہوں نے ایک دن دنیا سے جانا ہے اور اپنے تمام تر گھناؤنے کاموں کا حساب اﷲ کو دینا دینا ہے لیکن یہ لوگ پھر بھی اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرتے ہیں۔اسی وجہ سے جب بھی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو پوری دنیا میں موجود مسلمانوں کے دشمن انکو ہی اسکا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کو مارنا ہے تو اس پر کوئی نہ کوئی الزام دھر دیں اور پھر نتائج آپ کے سامنے ہونگے ۔ اس بات کی سچائی کو آپ عالمی سطح اور قومی سطح پر رونماہونے والے گذشتہ چند سالوں کے حالات وواقعات سے لگا سکتے ہیں کہ کیا تھا اور کیاظاہر کرکے اپنے مفادات کی جنگ لڑی گئی ہے اور کس کو کس حد تک فائدہ پہنچا ہے سب آپ کے سامنے ہے۔اگرچہ تمام مسلمان ایک جیسے نہیں ہیں بہت سے ایسے ابھی ہیں جن کی زندگیوں میں اسلام پوری طرح رچاہوا ہے ۔مگر آج کے دور میں ایسے لوگ خال خال ہی نظر آتے ہیں مگر ان کی کوششوں کی بدولت کسی قدر ہی بہتری رونما ہو پارہی ہے مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ہم ہر بات کو قسمت کا لکھا نہیں کہہ سکتے ہیں ۔بہت سی باتوں کا دارومدارہماری نیتوں پر بھی ہوتاہے۔مگر پاکستان موثر قانون کی حکمرانی نہ ہونے اور مجرموں کو کڑی سزا نہ ملنے کی وجہ سے اسطرح کے واقعات روکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں اس حوالے سے نیب کے کردہ دھرتا افراد کو سوچنے کی ضرورت ہے اورہمیں بھی اپنی سوچ کو وسعت دے کر سوچنا چاہیے کہ آخر ہم کیوں راتوں رات امیر ہونے جانے کے متمنی ہوتے ہیں اور پھر ہاتھ کچھ نہیں آتا ہے تو قسمت کو روتے ہیں یا نصیب میں لکھا سمجھ کر چپ ہو جاتے ہیں پتا نہیں کیوں ایسے لوگوں کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اُنکو سبق سیکھانے کے درپے نہیں ہوتے ہیں،اصولی طور پر تو ہمارا دین حق لینے اور حق کی خاطرلڑنے کی تعلیمات تو دیتاہے مگر ہم باقی معاملات کی طرح یہاں بھی پہلو تہی سے کام لیتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے بہت کچھ گنواتے ہیں؟ بہرحال اس حوالے سے متعلقہ اداروں اور حکومت کو موثر اقدامات کرنے چاہیں جس سے لوگوں سے بددیانتی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو تاکہ دوسرے لوگ انکے شر سے محفوظ رہ سکیں۔
 

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 481693 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More