حوا کی بیٹی بربریت کا شکار

چیختی رہیں ہر روز سرخیاں اخباروں کی
ہر روز بنتِ ہوا کی ردا لٹتی رہی
حکمراں مدہوش رہے کرسی کے طواف میں
تھانوں سے مظلوم کی آہ و بکا اٹھتی رہی

جب سے میں نے آ منہ زیادتی کیس کی خبریں آخبار میں پڑھی ہیں اس دن سے میں چین سے سو نہیں پایا۔ایک طالبہ جس نے انصاف نہ ملنے پر اپنی جان دے دی اور اس معاشرے کے لیے کئی سوال چھوڑ گئی ۔ہمارے امرا اور وزرا صرف فوٹو سیشن تک محدود رہے،جنوری کے پہلے عشرے میں رونما ہونے والے واقعے کا مقدمہ کیوں درج نہ کیا گیا،ہمارے آیئن میں کہاں لکھا ہے کہ انصاف کے لیے جاگیردار یا سیاستدان کی چٹھی ضروری ہے۔آمنہ ایف آئی یار کے اندراج کے لیے مقامی پولیس اور ڈی پی او کے دفاتر کے چکر کاٹتی رہی لیکن مقدمہ پھر بھی درج نہ ہو سکا آخرکار میڈیا کے واویلے پے مقدمہ تو درج ہوا لیکن معمولی دفعات لگا کر اور کچھ دن بعد مرکزی ملزم کو ضمانت پے رہائی مل گئی۔ستم بالائے ستم پنجاب کے مدہوش وزیر قانون نے بیان جاری کیا کہ یہ سب سستی شہرت حاصل کرنے کے طریقے ہیں ، آ منہ زیادتی کیس صرف ایک ڈرامہ تھا جسے نمٹا دیا گیا ہے۔جب ضمیر مردہ ہوجائے تو انسان ایسے بیان دیتا ہے،موصوف وزیرقانون جو کالعدم تنظیموں کے آلہِ کار کے طور پر کام کرتے ہیں اَن سے ایسے ہی بیان کی توقع تھی۔جب تھانے بِک جائیں،عدالتیں خاموش ہو جائیں اور انصاف سرداروں کے ڈیروں پر بکنے لگے تو پھرایک معصوم ، نہتی اور غیور لڑکی اپنی جان دینا پسند کریگی۔آمنہ تین مہینے اذیت میں پس کر نا امید ہو چکی تھی،فیصلہ تو اس نے پہلے دن ہی کر لیا تھا لیکن وہ انصاف کے دعویداروں کوآزمانہ چا ہتی تھی،آخر وہی ہوا میر بیٹ ہزار پولیس چوکی کے سامنے معصوم جان نے جاں دے دی اور بھاری بھرکم توندوں والے قانون کی وردی میں چھپے ہوئے درندے تماشا دیکھتے رہے۔کاش اس وقت غضبِ الہی جوش میں آتا زمین و آسماں آپس میں ٹکراتے اور اﷲ پاک انصاف فرمادیتے۔

پنجاب پولیس تیرے کیا کہنے ،قانون حرکت میں آگیا اور معصوم طالبہ کے خلاف خود سوزی کا مقدمہ درج کر دیا گیا۔معصوم طالبہ نے ہسپتال میں زندگی کی بازی ہار دی جو موجودہ حکمرانوں اور گڈ گوورننس کے دعویداروں کے منہہ پر کھلا تماچہ ہے۔ایک بات سمجھ سے بالا تر ہے آخر حوا کی بیٹی کا مقدر چولہے کی آگ سے شروع ہو کر تیزاب گردی سے ہوتا ہوا خودسوزی اور جل کر مرنے تک محدود کیوں ہوتا جارہا ہے۔پاکستان بھر میں آئے روز ہو س پر ست عناصر معصوم بچیوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں،روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں لڑکیاں بے آبرو ہوتی ہیں اور اِن میں سے اکثر دلبرداشتہ ہو کر آمنہ کی طرح جان کی بازی سے کھیل جاتی ہیں اور باقی پوری زندگی مختاراں مائی کی طرح تماشہ بن جاتی ہیں۔

نام نہاد خادِم اعلی نے فوٹو سیشن کی غرض سے آمنہ کے والدین کے پاس حاضری دی اور چند پولیس اہلکاروں کو معطل کیا،جن کو چند دن بعد انکی من پسند جگہ پر تعینات کر دیا جائیگا،کیا ان جاگیردارں اور سیاستدانوں کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں آئی جنکی وجہ سے آمنہ کو دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں اور جب پولیس اور عدالت سے انصاف نہ ملا تو اس نے دلبرداشتہ ہو کر اقداِم خودکشی کیا،کیا انکے خلاف کاروائی ہوگی۔

خود سوزی کے دلخراش واقعے کو کئی دن گزر گئے لیکن آج تک مقدمہ کے مرکزی کردار پولیس افیسران روپوش ہیں اور انکے پیٹی بھائی انکو بچانے میں سرگرداں ہیں۔میڈیا اور سول سوسائٹی نے اپنا کردار باخوبی نبھایا ہے،سکول کے طلبہ و طالبات سے لیکردانشوروں تک تمام معاشرہ اندوہناک واقعہ پر سرِاحتجاج ہے،روزانہ ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن دین کے ٹھیکدار آج بھی دوسری شادی اور طلاق جیسے چکروں میں پھنسے ہوے ہیں،آمنہ خود سوزی کیس میں ہر مکِتب فکر کے لوگوں نے مذمت کی ہے لیکن دین کے علمبرداروں نے ایک بھی مذمتی بیان تک جاری نہیں کیا،اﷲ پاک معصوم آمنہ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمایئں اور ہمارے امرا اور علما ؑ حضرات کو عقلِ سلیم دے۔(آمین)
بیچ کے تلواریں خرید لیے مصلے ہم نے
بیٹیاں لٹتی رہیں اور ہم دعا کرتے رہے۔

Syed Shahbaz Ghous Bukhari
About the Author: Syed Shahbaz Ghous Bukhari Read More Articles by Syed Shahbaz Ghous Bukhari: 10 Articles with 19940 views Solider by gut, Humanitarian by heart, Travellar by Soul: Ex Candidate PP 253 Kotaddu Distt. Muzaffargarh M Phil Project Management, MBA Marketing.. View More