لکھنا تو میں کسی اور مسلے پر تھا لیکن چنیوٹ میں اجتماعی
زیادتی کے ایک اور کیس کے منظر عام پر آنے کے باعث میں اپنے کالم کا آغاز
اسے نئی صورت حال سے کرتا ہوں…… ضیا ء الحق کے دور میں جب میاں نواز شریف
پنجاب کے وزیر اعلی ہوا کرتے تھے تو انہوں نے پنجاب کے عوام کو نوید مسرت
سنائی تھی کہ ’’ وہ پنجاب میں تھانہ ،کچہری اور پٹواری کلچر کا خاتمہ کر
دیں گے ۔جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے باعث میاں نواز شریف اپنے پانچ
سال پورے نہ کر پائے ۔لیکن ان کی قسمت کا ستارہ اپنے بام عروج پر تھا کہ
1988 کے آخر میں منعقدہ انتخابات کے نتیجے میں وہ ایکبار پھر پنجاب کے وزیر
اعلی بنا دئیے گے کیسے بنا دئیے گے یہ ایک لگ بحث ہے……
خیر میاں نواز شریف نے دوسری بار وزیر اعلی بننے پر بھی اپنے اس عزم کو
دھرایا کہ وہ پنجاب کے تھانہ ،کچہری اور پٹواری کلچر کو بدل کر دم لیں گے۔
مگر ہم عوام کی قسمت اتنی اچھی کہاں تھی اور نہ ہی اب تک ہے ……سو غلام حیدر
وائیں بھی پنجاب کے تھانہ ،کچہری اور پٹواری کلچر کی تبدیلی کی تمنا لیے
قبر میں جا پہنچے۔ میاں نواز شریف وزیر اعطم بنے تو پنجاب کے اقتدار کا ہما
میاں شہباز شریف کے سر پربیٹھا دیا گیا۔انہوں نے بھی اپنی پرانی فلموں کے
جی دار ولن مظہر شاہ کی طرح بڑھک لگائی کہ ’’ وہ اس وقت تک چین سے نہیں
بیٹھیں گے جب تک پنجاب کے تھانہ ،کچہری اور پتواری کلچر کو نہ بدل دیں گے‘‘
تھانہ ،کچہری اور پتواری کلچر کے ہاتھوں بے عزت ہونے والے عوام کے سینوں
میں ایکبار پھر ’’امید نے انگڑائی ‘‘ لی لیکن واقعی شہباز شریف کی بڑھکیں
فلمی ولن مظہر شاہ مرحوم کی بڑھکیں ثابت ہوئیں۔
فلمی ولن مظہر شاہ جو خود بھی حقیقی پولیس آفیسر تھے اور فلموں میں کام
کرنا پرنس اسلم پرویز کی طرح انکا شوق تھا……انکی بڑھکوں کی دھلائی فلم کا
غیر ،مسکین ہیرو کرتا تھا ۔لیکن مظہر شاہ نے ہر سین میں بڑھ لگائی بے شک
دھوتی سمیٹ کر بھاگنا پڑتا۔اسی طرح ہمارے ہر دلعزیز وزرائے اعلی کے تھانہ ،کچہری
اور پٹواری کلچر بدلنے کی بڑھکوں کی درگت انہیں تین کلچروں کے سرپرستوں
بیوروکریسی نے بنائی۔اور آج تک پنجاب کے ہی نہیں ملک بھر کے تھانوں ،کچہریوں
اور پٹوار خانوں میں 1947 سے قبل کا ہی کلچر چلا آ رہا ہے۔گجرات کے چودہری
پرویز الہی سمیت بڑھکیں لگانے والے وفاقی اور صوبائی وزرائے اعلی آئے اور
چلے گے ۔مگر تھانے کی پولیس،کچہریوں کے حاکم اور پٹور خانے اسے طرح عوام کا
استحصال کرنے میں مصروف کار ہیں۔اور انشاء اﷲ کم از کم میری زندگی میں تو
اس کلچر کے خاتمے کی کوئی امید نہیں۔
اسی مارچ میں مظفر گڑھ کے علاقے جتوئی کے تھانے میں پنجاب کے تھانہ کلچر پر
مبنی فلم کی نمائش ہوئی اور اس نے کھڑکی توڑ بزنس کیا جب اس فلم کی معصوم
ہیروئن آمنہ نے اپنی اجتمائی عصمت دری کرنے والے بااثر ملزمان کو تھانہ میر
ہزار خاں کے تفتیشی نے انہیں بے گناہ لکھ دیا تو انٹر میڈیٹ کی طالبہ آمنہ
نے تھانہ کے باہر خود کو آگ لگا کر شرمندگی کی زندگی کو ختم کرنے کی ہمت کی
تو پولیس تھانوں ،کچہریوں اور پتواریوں کے کلچر کے خاتمے کی باتیں ایکبار
پھر بلند ہونے لگیں۔ ناصرف یہ کہ بلکہ آمنہ کے ملزمان کو عبرت کا نشان بنا
دینے کے دعوے اور وعدے بھی کیے گے۔لیکن ابھی ان دعووں اور وعدوں کی سیاہی
بھی خشک نہیں ہونے پائی تھی کہ پنجاب کے ا بھی مظفر گڑھ کے علاقے جتوئی کے
تھانہ میر ہزار خاں کے سامنے خود کو جلانے والی آمنہ کو فراموش نہیں کر
پائے تھے کہ چنیوٹ کے تھانہ محمد والا کے گاوں کلس کی سمیعہ بی بی نے سیشن
جج کی عدالت کے باہر خود کو آگ لگا کر خود سوزی کرنے کی کوشش کر ڈالی سمیعہ
بی بی نے بھی خود سوزی پولیس کی زیادتیوں کے خلاف بطور احتجاج خود پر
پیٹرول چحڑ کر آگ لگائی آمنہ اور سمیعہ میں فرق یہ ہوا کہ سمیعہ بی بی
کوپولیس اور احاطہ عدالت میں موجود شہریوں نے بچا لیا۔تھانہ محمد والا کی
پولیس نے ملزمان کے خلاف مقدمہ تو درج کرلیا اور اسے عدالت میں پیش کر کے
اسکا بیان بھی لیا گیا۔
عدالت نے پولیس کو سمیعہ بی بی کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا حکم دیا…… مگر
پولیس کا اپنا ایک طریقہ کار ہے جس کے مطابق وہ کارروائی کو آگے بڑھاتی ہے۔
برحال سمیعہ بی بی کو شکایت ہوئی کہ پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں پس و
پیش سے کام لے رہی ہے۔ سمیعہ بی بی کے خود کو جلانے کے اقدام سے فائدہ یہ
ہوا کہ پولیس اسے تحصیل ہسپتال ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے لے تو گئی…… لیکن
تاحال سمیعہ بی بی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے تینوں ملزمان میں سے
پولیس کسی ایک کو بھی گرفتار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی ہے……حیرت ہے کہ
ابھی تک میری نظر سے یہ خبر نہیں گذری کہـ’’ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے
واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے۔اور نہ ہی یہ خبر پڑھنے کو نصیب ہوئی ہے کہ آئی جی
پنجاب متاثر ہ سمیعہ بی بی کی داد رسی کے لیے اور حالات و واقعات سے آگاہی
کے لیے اسکے گھر پہنچ گے ہیں۔
غضب خدا کا ظلم و زیادتی اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرنے والے ا، فیصل
آباد سے تعلق رکھنے کے باوجود پنجاب کے وزیر داخلہ رانا ثنا ء اﷲ خاں ابھی
تک اس طلم و زیادتی پر خاموش ہیں۔ اس خاموشی کا سبب کیا ہے؟ ورنہ رانا ثنا
ء اﷲ صاحب ہر موضوع پر اظہار رائے کیے بغیر نہیں رہ سکتے ۔خواہ اسکا تعلق
انکی وزارت سے ہو یا نہ ہو۔آمنہ اور سمیعہ بی بی کیس تو وہ کیس ہیں جو
میڈیا کی حمایت کی بدولت حکمرانوں کی توجہ پاگے ورنہ ملک کے سینکڑوں
دیہاتوں میں ،شہروں میں ایسی آمنائیں اور سمیعہ بیبیاں زیادتی کا شکار ہوتی
ہیں اور پولیس کیس بھی رجسٹرڈ نہیں کرتی……بااثر طبقہ مقامی صحافیوں کی’’
مٹھی گرم‘‘ کرکے انہیں خاموش کردیتا ہے۔
آخری سطور لکھتے وقت فیصل آباد سے ایک اور چونکا دینے والی بلکہ ہمارے
حکمرانوں کے مردہ ضمیراور بے حسی کو جھنجوڑنے والی خبر پڑھ کر انتہائی دکھ
ہوا اور اپنی( عوام ) کی بے بسی اور لاچاری پر خود کو کوسنے کو دل چاہتا
ہے۔خبر یہ ہے کہ چنیوٹ کے گاوں مدار بھٹیاں کے حکیم اﷲ نے تسنیم نامی لڑکی
سے اسکے والدین کی مرضی کے بغیر پسند کی شادی کرلی تو پنچایت نے حکیم اﷲ کی
بائیس سالہ بہن کو ونی قرار دے دیا
لیکن صفیہ نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو اسے اغوا کرکے زبردستی اسکی
شادی حکیم اﷲ کی بیوی تسنیم کے بھائی وسیم سے کروادی گئی اور پندرہ دن بعد
وسیم نے اسے طلاق بھی دیدی جس پر وسیم کے چچا نے اسے اغواء کرکے ہمراہ اپنے
دیگر ساتھیوں کے صفیہ کی جبری عصمت دری کی گئی۔اور اسے ننگا کرکے گاوں کے
درخت کے ساتھ باندھے رکھا……آگے مظفرگڑھ اور چنیوٹ کی سمیعہ بی بی کے دلخراش
واقعہ کی طرح پولیس نے مقدمہ کے اندراج سے انکار کیا۔عدالت کی ہدایات کو
بھی نظرانداز کر دیا ہے۔ملزمان بھی با اثر ہیں …… بس حکمرانوں کو انتظار ہے
کہ صفیہ کب خود کو آگ کے سپرد کرتی ہے…… کچھ حیا کرو اے حکمرانوں……آخر تم
نے بھی مرنا ہے ایک دن اور سب سے بڑی عدالت کے روبرو بھی پیش ہونا ہے……ڈرو
اس عدالت کے فیصلہ سے اور ابھی یہاں اپنے قبلہ درست کر لو وہاں کسی کی
سفارش ،حثیت کام نہیں آئے گی۔……یہاں میں مسلم لیگ نواز کی رکن قومی اسمبلی
اور سابق صدر پاکستان جناب رفیق تارڑ کی بہو رانی سائرہ افضل تارڑ نے ایک
ٹی وی ٹاک شو میں اس بات کو مضحکہ خیز قرار دیا کہ پنجاب میں ڈسٹرکٹ پولیس
آفیسرز،ڈپٹی کمشنرز،ڈی ایس پیز ، اے سی اور ایس ایچ او صاحبان ارکان قومی و
صوبائی اسمبلی کی مرضی کے تعینات کیے جاتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ سائرہ افضل
تارڑ دیہات پس منظر رکھنے کے باوجود حقائق سے شناسائی نہ رکھتی ہوں ایسا ہو
نہیں سکتا……وہ یاتو زمینی حقائق سے مکمل طور پر بے خبر ہیں یا پھر وہ جان
بوجھ کر حقائق کا توڑ مروڑ کر پیش کر رہی ہیں۔پنجاب کے تمام اضلاع کو ایک
طرف رکھتا ہوں اور سرف اپنے ضلع شیخوپورہ کی بات کرلیتا ہوں اور چیلنج کے
ساتھ
محترمہ سائرہ تارڑ صاحبہ ! اس ضلع میں ڈسٹرکٹ پولیس،ڈپٹی کمشنر،اے سی،ڈی
ایس پی کی تعیناتیاں تو دور کی بات ہے ۔تھانوں میں تفتیشی آفیسرز اور ایس
ایچ اوز تک کی تعیناتی سفارش پر ہوتی ہے…… بے شک سائرہ تارڑ صاحبہ ان
ملازمین کی پرسنل فائل دیکھ لیں وہاں سفارشی رقعے ساتھ لگے ہوں گے۔ دیگر
محکموں جیسے واپڈا لیسکو کے میٹر ریڈرز اور اس سے نچلی سطح کے ملازمین تک
وفاقی وزیر دفاعی پیداوار اور انکے بھائی رکن قومی اسمبلی رانا افضال حسین
کی مرضی کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔جو آفیسر انکی بات نہیں مانتا
تو اسکی منزل کہیں اور دور دراز ہوتی ہے۔ میری سائرہ افضل تارڑ صاحبہ ! اگر
ہر رکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی صرف ایس ایچ اوز کو اتنا کہہ دیں کہ
’’ آج کے بعد ان کے حلقہ انتخاب میں کوئی چوری چکاری ہوئی،یا ڈکیتی کی
واردات ہوگئی یا کوئی قتل ہوا یا کسی اوباش اور بااثر شخص یا اسکے کارندوں
نے کسی عورت کے ساتھ دست درازی کی تو اسکا ذمہ دار وہ ہوگا۔ یقین جانئیے اس
حلقہ میں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکے گا……ہر طرف سکون اور چین ہوگا۔سب
جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی منتخب اور غیر منتخب سیاستدان کرتے ہیں۔ایسے
ہی بدنام نہیں ہیں ۔کوئی نہ کوئی بات تو ہوتی ہے ناں- |