عدل کی علامت ،عدالتیں بھی ہوتی ہیں جہاں سے ہر شہری کو
بلا امتیاز انصا ف کی فراہمی ممکن ہوتی ہے اگر کسی ملک کی عدالتوں سے لوگ
مایوس ہو جائیں تو چور بازاری ، رشوت اور تعلق داری کی بناء فیصلے ہونے لگے
ہیں اور پھر اس ملک کا امن سکون برباد ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے جیسا کہ
آج کل ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ پاکستان میں گذشتہ چند سالوں سے جو خود کش حملے
ہو رہے ہیں اس کے پیچھے دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ بے انصافی کے عناصر بھی
شامل ہے جو کہ نوجوان نسل کو اس طرح سے انتقام لینے پر مجبور کر رہی ہے ۔اگرچہ
سابقہ چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کے عمدہ امکانات کی وجہ سے عدل وانصاف کی
فراہمی میں کسی قدر لوگ کوحق ملنا شروع ہوا ہے یہ تو ابھی ابتدا ء ابھی
منزل دور ہے اور رکاوٹ کھڑی کرنے والے بھی کم نہیں ہیں ۔یہ اپنے ہی ہیں جو
اپنے مقدمات اور کرپشن کیسز کی وجہ سے موجودہ عدالتوں سے خائف ہیں۔ضرورت اس
امر کی ہے کہ لوگ اپنے حق کے حصول کی خاطر مل جل کر جہد وجہد کریں
توپاکستان میں عدل وانصاف کے خواب کو پورا کیا جاسکتا ہے۔لیکن ایک بات بے
انصافی کرنے والوں کو بھی سوچنی چاہیے کہ انکو بھی اپنے یوم حساب کا د ن یا
درکھنا چاہیے جس دن ان سے انکے ہر عمل کاجواب دہ ہونا پڑیگا۔اور جواب دہ تو
اب اُن لوگوں کو بھی ہونا پڑے گا جنہوں نے اسلام آباد ضلع کچہری میں حفاظتی
نقطہ نٖظر سے عوام الناس کی حفاظت کے اقدامات نہیں کئے تھے جس کی بدولت
ایسا اندوہناک واقعہ رونما ہوا ہے ۔اگر انصاف فراہم کرنے والوں کو ہی اس
طرح سے دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑے گا تو پھر پورے ملک میں افراتفری کی
صورت پیدا ہو جائے گی اور ہمارا ملک معاشی و امن وامان کے حوالے سے بدھالی
کا شکار ہو جائے گا اور لوگوں کو دو وقت کی روٹی کا حصول بھی جان جوکھوں
کاسبب ہوگا۔
اگرچہ سانحہ کچہری کو رونما ہوئے کئی روز ہو چکے ہیں مگر تاحال اس واقعے
میں ملوث افراد یا گروہ کی مکمل نشاندہی نہیں کی جا سکی ہے اور اسلام آباد
میں مقیم لاکھوں لوگوں کے ذہنوں میں ڈر اور خوف اس قدر حاوی ہو چکا ہے کہ
وہ اپنے عدالتی کام کاج کے لئے بھی وہاں کو رخ نہیں کر رہے ہیں جہا ں پر
قتل و غارت گری شروع ہوئی تو کسی بھی عوام کی حفاظت پر معمور ادارنے نے
اسکے سدباب کے لئے کوشش کرنا تو درکنار وہاں وقت پر پہنچنے کی زحمت بھی
نہیں کی ہے۔میں نے اس حوالے سے چند روزقبل کچہری کا ایک دورہ کیا تھا تاکہ
میں اپنی آنکھوں سے اس واقعے کے اثرات کو دیکھ سکوں تو جس روز وہاں گیا تھا
وہاں اس قدر حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے تھے جتنے کہ اس افسوس ناک واقعے
کے بعد ہونا چاہیے تھے مگر یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ جس قدر بعد میں
انتظامات کئے گئے ہیں وہ یقینا تعریف کے قابل ہیں مگر اگر اس حوالے سے سب
کچھ جو اب کیا جا رہا ہے پہلے کر لیا جاتا تو یقینا اتنی قیمتی جانوں کا
ضیاع نہ ہوتا ۔دوسری طرف ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جو کہ میری وہاں کچھ افراد
سے گفتگو ہوئی ہے سے سامنے آیا ہے اور اس کی طرف کہیں بھی بولا نہیں گیا ہے
۔اسطرح کے معاملات پر کھل کر بحث ہونی چاہیے کہ اس طرح کی کاروائی کرنے
والے کسی طور پر انسان یا مسلمان دونوں ہی کہلوانے کے مستحق قرار نہیں
پاسکتے ہیں جو کہ انسانوں کو مار کر اپنا انتقام لیتے ہیں۔اگر لوگوں کی سوچ
سے اختلاف ہے تو سوچ کو بدلنا چاہیے نا کہ انسان کو ختم کرنے کا سوچنا
چاہیے۔یہاں پاکستان میں زیادہ نہ سہی مگر کسی حد تک تو اسلامی قوانین کا
نفاذ ہے مگر پھر بھی مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہے ہیں۔
کیا اسلام میں اسطرح کے اقدامات کی گنجائش ہے جو کہ سانحہ کچہری میں سننے
کو ملا ہے کہ وہاں قتل کرنے والوں نے قتل کرنے سے قبل ان افراد کو کلمہ
پڑھنے کا کہا ہے اوراس کے بعد ان پر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔اگرچہ یہ
بات محض سنی سنائی ہے ۔مگر جناب آپ توجانتے ہیں کہ دھواں وہاں سے ہی اُٹھتا
ہے جہاں کہیں تھوڑی بہت آگ لگی ہوئی ہو؟اسلام کی تعلیمات کے برعکس ہم یوں
کلمہ پڑھواکر ماریں گے اور قتل کرنے والے خود کش حملہ آورحضرات نعرہ تکبیر
کہہ کر اپنے آپ کو اُڑا دیں گے تو جناب خود ہی بتائیے کہ قتل کرنے والا کیا
یوم آخرت میں اﷲ تعالیٰ کے حساب سے بچ سکے گا؟ وہ لوگ جو ایسا کرواتے ہیں
وہ کیا مسلمان کہلواسکتے ہیں جو کہ قتل وغارت کے لئے نت نئے طریقے کار
استعمال کروا رہے ہیں ؟اسطرح اور دیگر معاملات میں ہمارے علماء کرام کیا کر
رہے ہیں،وہ کیوں نہیں اس طرح کے معاملات میں ملوث ہونے والے کے خلاف اُٹھ
کھڑے ہو پا رہے ہیں؟ کیا خوف انکو اس اقدام سے روک رہا ہے کیا وہ اس بابت
اﷲ کو جواب دہ نہیں ہونگے کہ وہ دوسروں کو گمراہی میں جاتے دیکھ کر بھی چپ
رہے ہیں؟اگر اسطرح کا سلسلہ دراز ہوگیا تو پھر یہاں ہر کوئی دوسرے کو قتل
کرنے سے پہلے کلمہ پڑھوائے گا اورمارے گا اور خود نام نہاد علماء کی جنت کی
جانب سفر پر روانہ ہوگا؟اسلام کی تعلیمات کی اصل روح کے مطابق امن وامان کے
لئے سب کو مل بیٹھ کر حکمت عملیاں تیار کرنی ہوگی تب ہی جا کر اس فتنہ سے
نمٹ سکیں گے۔جب تک تمام مسالک کے علماء اس بارے میں کڑی رائے کا اظہار نہیں
کرتے ہیں اور آپس میں بھائی چارے کی فضا قائم نہیں کرتے ہیں اس وقت تک
پاکستان میں حقیقی معنوں میں امن قائم نہیں ہو سکے گا۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ اپنی جان کو یوں خود کش حملوں میں ضائع کرنے والے
آخر ایسا کیوں کر تے ہیں ؟ اس کا آسان سا جواب ہے کہ بے روزگاری اور معاشی
طو رپر مستحکم نہ ہونا ، دین کی تعلیمات سے دور ہونااور سب سے اہم وجہ
والدین کی اپنے بچوں کو درست طور پر تعلیم وتربیت نہ دینا ہے ۔ ان کی صحیح
رہنمائی نہ کرنا بھی ان کو راہ مستقیم سے دور کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ اس لئے
آج کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے والدین کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بچوں کی
سرگرمیوں پر گہری نظر رکھیں اور دینی تعلیمات سے روشناس کروایں۔ تاکہ وہ
ایک اچھے اورسچے مسلمان بننے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شہری بھی بن سکیں۔اس
کے علاوہ جب بھی کوئی انسان اﷲ تعالیٰ پر توکل نہیں کر ے گا تو وہ یقینا
اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہرقسم کا طریقہ اختیار کرے گا اور اسی
کوششوں میں وہ اس راہ کا شعوری یا غیر شعوری طور پر انتخاب کر لیتا ہے
۔قران و حدیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ’’ایک انسان کا قتل گویا
پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے‘‘۔اسلام تو امن اور سلامتی کا درس دیتا
ہے اوراسلام نے تو دوسروں کی بھی جان ومال کی حفاظت کا حکم بھی دیاہے۔
یہاں ایک بات سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ خودکش حملوں کو روکنے کی ذمہ داری
حکومت یا ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ہی نہیں بنتی ہے بلکہ یہ ہماری قومی
ذمہ داری بھی ہے کہ جب بھی ہم کسی مشکوک شخص یا چیز کو دیکھیں تو فورا اس
کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دیں ۔ اس سے روگرداں ہونے کی صورت
میں ہم اور ہمارے پیارے کسی ناگہانی حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ہمیں چاہیے
اپنے نوجوانوں کو مثبت سوچ کیطرف لائیں اور ایسی گھناونے اقدامات سے نفرت
کا جذبہ پیدا کریں ایسی صورت میں ہی معاشرے میں امن وسکون پیدا ہو سکتا ہے۔
|