کرکٹ تو اک کھیل ہے بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قومی کھیل ہاکی ہونے کے باوجود کرکٹ کوپاکستان کا انتہائی مقبول ترین کھیل سمجھا جاتا ہے۔شوقین کرکٹ میں میچ والے دن انتہائی جوش اور ولولہ پایا جاتا ہے جو کسی اور کھیل کے میچوں کے دوران کبھی نظر نہیں آتا۔پاکستانی عوام نہ صرف ٹی وی پر کرکٹ میچز دیکھنے کی دلدادہ ہے بلکہ یہاں سب سے زیادہ کھیلا جانا والا کھیل بھی کرکٹ ہے۔اس کھیل کے متعلق لوگوں میں انتہا کا شوق پایا جاتا ہے ایک سروے کے دوران جب ہم نے لوگوں سے پوچھا کہ وہ پروفیشنل کیا بننا چاہتے ہیں تب بے شمار شوقین کرکٹ نے کہا کہ وہ کڑکٹر بن کر پاکستان کی ٹیم میں کھیلنا چاہتے ہیں اور ملک و قوم کا نا م روشن کرنا ان کی دلی خواہش ہے۔اسی طرح پاکستانی ٹیم میں ایسے بڑے بڑے نام گزرے ہیں جنہیں آج بھی دنیا یاد کرتی ہے جیسے عمران خان،وسیم اکرم،جاوید میاں داد اور بھی بہت سے شاندار کھلاڑی ہیں جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے۔

اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے عرض کرو ں کہ پاکستانی عوام میں کرکٹ کا انتہائی جنون پایا جاتا ہیں اورخاص کر کے اس وقت جب پاکستان اور انڈیا کا کوئی میچ ہورہا ہوتا ہے تو دونوں ممالک کی عوام اس روئتی حریفوں کے مابین ہونے والے ایسے میچ کو ایک جنگ سمجھ کر عزت و بے عزتی کامسلۂ بنا لیتی ہے کہ اگر ہم ہار گئے تو کیا بنے گا ہم اپنے حریف کی آنکھوں میں آنکھیں کیسے ملا پائیں گے؟عوام کے اندر ایسے جذبات پیدا کرنے کا ذمہ دار صرف اور صرف پاکستانی اور بھارتی میڈیا ہے۔جو ایسے میچز سے کئی دن پہلے ہی چیخنا اور چلانا شروع کر دیتا ہے کہ ـــ’’روائتی حریفوں کے درمیاں ایک اور جنگ ہونے جا رہی ہے‘‘۔میڈیا کی اس طرح کی کوریج سے عام آدمی کے ذہن پر بہت اثر پڑتا ہے جو بیچارہ ان میچز کو کھیل سمجھ رہا تھا اسے اب اس میڈیا نے بتا دیا کہ یہ میچ نہیں جنگ ہونے جا رہی ہے ’’جنگ‘‘۔

میڈیا کی اس شرم ناک کوریج کے پیچھے صرف اور صرف ریٹنگ کا چکر ہے اور اس ریٹنگ کے چکر میں یہ عام آدمی کا سکون بری طرح متاثر کرتے ہیں کیونکہ ایک پیچارہ عام آدمی جسے پہلے ہی بے شمار پریشانیوں نے گھیرا ہوا ہے اور اسے کئی عرصے بعد تفریح کا یہ ایک موقع میسر آئے کہ وہ پاکستان انڈیا کا میچ آسانی سے دیکھ سکے مگر افسوس کہ اس کھیل کو بھی میڈیا نے جنگ جنگ کہہ کر ایک عام آدمی کو ذہنی طور پر مزید متاثر کر دیا جو پہلے ہی کئی مسائل کا شکار تھا اور بمشکل اسے مفت میں تفریح کا یہ ایک موقع میسر آیا تھا جس کا میڈیا نے حلیہ ہی بگاڑ دیا بھلا دو ملکوں کے درمیاں ایک کھیل کی جیت ہار کو کیسے ہم جنگ کی جیت ہار کہہ سکتے ہیں۔اس طرح کے تمام ایونٹس پر جن میں پاکستان اور بھارت آمنے سامنے ہوتے ہیں سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے اور مقابلہ بازی شروع ہو جاتی ہے کہ اگر ہماری ٹیم ہار گئی تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے اب بھلا میچ ہارنے سے ہم پیچھے کیسے رہ جائیں گے اس دفعہ نہیں تو اگلی دفعہ جیت جائیں ہے۔اس میڈیا نے کھیل میں ہار کو تو مکمل بھلا کرمیچ کو جنگ سے تشبہہ د ے کر صرف جیتنے کی طرف راغب کر دیا اور اسے دونوں ممالک کی انا کا مسلۂ بنا دیا حالانکہ جیت اور ہار دونوں کھیل کا حصہ ہیں اور جیت کے علاوہ ہار بھی کسی ایک ٹیم کے مقدر میں آسکتی ہے۔
گرتے ہیں شاہ سوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل ہی کیا جو گھٹنوں کے بل چلے

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم لوگ اپنے ذہنوں کو اتنا پختہ بنا لیں کہ میڈیا کے پریشر کا ہم پر اثر نہ ہو کیونکہ کہ میڈیا اس معاشرے میں منفی کردار ادا کر رہا ہے اس کے منفی کردار کی یہ تو صرف ایک مثال ہے ایسی بے شمار مثالیں ہیں جس میں میڈیا عوام کی آنکھوں میں دھول ڈال کر اندھا کرنے میں مصروف ہوتا ہے۔ہم عوام کو سمجھنا چاہیے کہ کھیل تو کھیل ہوتا ہے چاہے راوئتی حریف پاکستان اور انڈیا کے مابین ہویا کسی اور کے ،ہم لوگ اسے صرف کھیل سمجھ کر دیکھیں اور جیت یا ہار کو اپنی انا کا مسلۂ نہ بنائیں بلکہ صرف اسے تفریح کا ذریعہ سمجھیں۔ایسے میچ کے دوران پاکستانی عوام ہار کو اپنے ذہن سے نکال کر صرف اور صرف جیت کا جذبہ لیے پھرتی ہے حالانکہ تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں جہاں جیت ہے وہاں ہار بھی سکتے ہیں۔

کئی دفعہ بھارت سے میچ ہارنے کے بعد پاکستان میں جنونی عوام نے ٹی وی سکرین اور مختلف چیزیں توڑ کر اپنا غصہ نکالا۔ورلڈ کپ 2011کے سیمی فائنل میں سچن ٹنڈولکر کے چھکوں سے متاثر ہو کر سوات کے ایک بزرگ کو ہارٹ اٹیک ہو گیا جس سے وہ اﷲ کو پیارے ہو گئے اسی طرح پچھلے دنوں پاکستانی ٹیم جب ایک میچ ہاری تو ٖفیصل آباد سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی دماغ کی شریان پھٹنے سے موت واقع ہو گئی۔ایسے واقعات کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم لوگ کھیل کو کھیل سمجھ کر تفریح نہیں کرتے اور میڈیا کی آتش فشاں کیوریج کے پریشر میں آ کر کرکٹ میچز کو دو ملکوں کے مابین جنگ اور انا کا مسلۂ بنا لیتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے ایسے مواقع کو صرف تفریح کے لیے دیکھتے ہوئے کھیل سمجھ کر لطف اندوز ہوں تب ہی ہم سمجھ سکیں گے کہ ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے اور جیت کے علاوہ ہار بھی کسی کے حصے میں آنی ہے۔

Muhammad Furqan
About the Author: Muhammad Furqan Read More Articles by Muhammad Furqan: 45 Articles with 89402 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.